پیپلزپارٹی کے جھانسے یا پیپلزپارٹی کا نیا روپ؟


\"usman-ghazi\"پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم پر ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا۔

یہ وہی پارٹی ہے جس نے سوشلسٹ نظریات کو پس پشت ڈال کر اپنے اساسی اصولوں سے غداری کی۔

عام آدمی کا نعرہ لگا کر بااثر افراد کو بھی اقتدار کی مسند تک پہنچایا۔

یہ سچ ہے کہ بلاول بھٹو کو اپنی ماں اور نانا کی طرح اچھی اردو نہیں آتی اور یہ صرف بے نظیر بھٹو کا بیٹا نہیں بلکہ اس کا باپ وہ شخص ہے جو 12 سال کرپشن کے الزامات کے تحت جیل میں رہا۔

ملک میں دستوراورپارلیمانی سیاست کی بنیاد رکھنے والی پیپلزپارٹی سے اختلافات کی ایک لمبی فہرست ہے۔

مگر!

پھر بھی ہمالیہ سے بحرہ عرب تک پیپلزپارٹی کی مضبوط جڑیں موجود ہیں، آج 49 برس بعد بھی لوگ جئے بھٹو کے نعروں پر اسی طرح دھمال ڈالتے ہیں کہ جس طرح 1983 میں لاہور قلعے میں رزاق جھرنا نے پھانسی گھاٹ کی جانب جاتے ہوئے ڈالا تھا۔

ایسا کیوں ہے۔۔ ؟

کیا یہ وابستگی محض جہالت ہے؟کیا ایک خلقت گمراہ ہے جو نہیں جانتی کہ جس بلاول کے پیچھے یہ دیوانی ہے، بھٹو کی سیاسی وراثت رکھنے والا وہ بلاول صرف بے نظیر نہیں بلکہ ایک زرداری کا بھی بیٹا ہے۔

بے نظیر بھٹو کی نیم برہنہ تصویریں اور اب بلاول بھٹو کی جنس کو نشانہ بناتی تضحیک آمیز جگت بازیاں آزاد کشمیر، کراچی ، گھوٹکی اوربلاول ہاؤس لاہورکے جلسوں میں شریک افراد کو کیوں متاثر نہیں کرسکیں۔\"Bhutto\"

وہ کیا وجہ ہے کہ خورشید شاہ اور اعتزازاحسن جیسے زیرک سیاست دان کل کے ایک بچے کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، ملک پر راج کرنے والے حکمران بلاول بھٹو کے پیچھے ہاتھ باندھے چلتے ہیں ۔

کیا یہ سب ذہنی غلام ہیں؟

چلیں، سیاست دانوں کو چھوڑیں۔

پاکستان میں ایک انٹلکچوئیل کلاس ہے، جس میں ادیب ، لکھاری، شاعر، دانش ور، صحافی، ڈاکٹر، وکیل اور طلبہ شامل ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ ان پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت آج بھی سیاست میں بھٹو خاندان کی مقلد ہے۔

ہزارہ ڈویژن اور گلگت بلتستان میں شرح تعلیم نوے فیصد سے زائد ہے اور پیپلزپارٹی کی مقبولیت سوفیصد۔۔۔ یہ اعداد کسی بھی تجزیہ کار کو آج بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔

ہم چشم پوشی کرسکتےہیں، انکار ممکن نہیں۔

اس بات سےہمارے دلوں کو تکلیف ہوسکتی ہے مگر اس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں کہ ہزارہا اختلافات کی وجوہات بھی بھٹو خاندان کا وجود ختم نہیں کرسکیں۔ ہاں۔۔ مقبولیت میں کمی وبیشی ہوتی رہی ہے۔\"large-Mr

1997 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کی عبرت ناک شکست کے بعد تو پوری دنیا کے اخبارات میں مضامین لگ گئے تھے کہ پاکستان میں بھٹو کے عہد کا خاتمہ ہو گیا۔

بھٹو کی پھانسی کے بعد سے پیپلزپارٹی کے خاتمے کی ہر دوسرے دن پیش گوئی کی گئی اور ہر تیسرے دن یہ پارٹی پھر کھڑی ہو گئی۔

یہ تحریر ایک ایسے وقت میں لکھی جا رہی ہےجب پیپلزپارٹی کے قیام کو یہ 50واں سال ہے۔

ہم ان وجوہات کی تلاش میں ہیں، جن کی وجہ سے یہ پارٹی آج تک ختم نہ ہوسکی۔

ہر خطے کا ایک سامراج ہوتا ہے، پیپلزپارٹی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ وہ اپنے خطے کے سامراج یعنی اسٹبلشمنٹ کے خلاف ہےاور ازل سے آج تک ایسا نہیں ہوا کہ عوام خوشی سے سامراج کا ساتھ دیں۔

دنیا کے مختلف خطوں میں سامراج کی مختلف شکلیں ہیں مگر پوری دنیا کے سامراجوں کی تشکیل مذہبی انتہاپسندی، فوجی جنتا اور سرمایہ داروں کےاتحاد کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور بہرحال پیپلزپارٹی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ وہ سامراج مخالف ہے۔

پوری دنیا میں سامراج کی مخالفت کا مقبول عام نظریہ اشتراکیت ہے، پیپلزپارٹی بھی اسی اشتراکی نظریئے کے تحت وجود میں آئی مگر یہ سچ ہے کہ سخت گیر اشتراکیت کو پیپلزپارٹی نے ترک کر کے محض اصلاحاتی اشتراکیت کو اپنا لیا، جیسے فرانس اور برطانیہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی سامراج مخالف جماعتوں نے کیا مگر اس کے باوجود پاکستان میں سامراج مخالف سیاست کو پسند کرنےو الے عوام کے پاس پیپلزپارٹی کے علاوہ کوئی اورانتخاب نہیں۔\"benazirbhutto-afp\"

یہ پہلی وجہ تھی اور سنگین ترین الزامات کے باوجود پیپلزپارٹی کے ختم نہ ہونے کی دوسری وجہ اس کا معاشرے کی روشن خیال قوتوں کا ساتھ دینے کا اعلان کرنا ہے۔

احمدیوں کو غیرمسلم قراردینے والی وہ پیپلزپارٹی جس نے شراب کی فروخت پر پابندی لگائی اور جمعے کی چھٹی کا اعلان کیا۔۔۔ کیا واقعی روشن خیال قوتوں کے ساتھ ہے تو یہ پیپلزپارٹی مخالفین کی بدقسمتی رہی ہے کہ وہ روشن خیال قوتوں کومکمل طور پر پیپلزپارٹی سے الگ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

دیہاتی معاشرہ عموماً روشن خیال ہوتا ہے اور چونکہ پاکستان ایک دیہی ملک ہے ، اس لیے یہاں پیپلزپارٹی کو زبردست حمایت ملتی ہے۔

جب پیپلزپارٹی کا جیالا گورنر آسیہ بی بی کے لیے قتل ہوجاتا ہےاوربلاول بھٹو مندرمیں جا کر ہندو برادری کے افراد کو گلے لگاتا ہے، اقلیتوں اورخواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئین بنائے جاتے ہیں تو روشن خیال قوتوں کی حمایت مزید گہری ہو جاتی ہے۔

یہاں ایک دلچسپ بات کا بیان ضروری ہے کہ پوری دنیا کے سامراج اپنے حریف خود پیدا کرتے ہیں، جیسے پاکستان میں اپوزیشن لیڈر کا منصب ہی جنرل ایوب خان نے تخلیق کیا اور اس پر اپنے بڑے بھائی سردار بہادر خان کو بٹھایا جو ان کی حکومت کی دھجیاں اڑایا کرتے تھے۔ اسی طرح شاید پیپلزپارٹی عوام کو یہ باور کرانے میں \"Formerکامیاب رہی ہے کہ اس کے حریف اور ان حریفوں کے حریف محض سامراج کی تخلیق ہیں اور جب بھٹو خاندان کی مخالفت میں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف ایک پیج پر ہوتے ہیں تو عوام کو پیپلزپارٹی کے دعوے کا یقین ہونے لگتا ہے۔

یہ باربارجس عوام کا ذکر کیا جا رہا ہے، ان کی اکثریت پاکستان کے پانچ بڑے  شہروں سے تعلق نہیں رکھتی، یہ 200 سے زائد چھوٹے بڑے شہروں کے عوام ہیں، جو آج تک بھٹو کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔

اب یہ کیا کہ ہر بار سامراج مخالف نعروں اورروشن خیالی کے دعووں کے ساتھ پیپلزپارٹی اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور جب اقتدار ملتا ہے تو لوٹ مارشروع ہو جاتی ہے۔ کیا عوام ہر بار سامراج مخالف نعروں اور روشن خیالی کے دعووں کا شکار ہوکر لوٹ مار کرنے والوں کو دعوت عام دیتے رہیں گے؟ یہاں پیپلز پارٹی کی بقا کاسوال ہے۔

پیپلزپارٹی کے حامیوں سے جب کرپشن کی بات کی جاتی ہے تو ان کے ذہنوں میں یہ ہے کہ آصف زرداری کرپٹ ہوسکتا ہے، پارلیمان کے ارکان اور وزرا لوٹ مار کرسکتے ہیں مگر بھٹوز ایسے نہیں۔

بھٹوز پر سنگین الزامات بھی لگے مگر ذوالفقاربھٹو اور بے نظیر بھٹو کا عوام میں بہرحال منفی تاثر نہیں ہےمگر یہ سب بظاہر یکطرفہ ہے۔

پچاس سال ہوگئے ہیں، تیسری نسل کی قیادت اور تیسری نسل کے جیالے میدان میں ہیں اور عوام ہر بار روشن خیالی اور سامراج مخالف نعروں کی بنیاد پر انہیں ووٹ \"bilawal-bhutto\"دیتے ہیں، یہ اچھے سیاست دان ضرور ہیں، اچھے قانون ساز بھی ہیں ، خارجہ امور کے بھی ماہر ہیں مگر ریاستی امور چلانے کے حوالے سے ہرگز اچھے منتظم نہیں۔

ہم ان کو ایٹم بم سے لے کر اقتصادی راہداری کا کریڈٹ دینے کو تیار ہیں، چین کے ساتھ دوستی سے لے کر دستور کی تخلیق تک کا سہرا انہی کے سر باندھتے ہیں، گوادر بندرگاہ اورشاہراہ ریشم انہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ، انہوں نے روزگار بھی دیا مگر بہرحال انتظامی امور میں یہ کامیاب ثابت نہ ہوسکے۔

ملکی سیاسی صورت حال کچھ  یوں ہے کہ بہرحال بلاول بھٹو کو مستقبل میں فوری نہ سہی مگر اقتدار ملنا ہے، اس کی ایک وجہ ان کا مین اسٹریم سیاست میں واحد نوجوان سیاست دان ہونا بھی ہے، 10 سال بعد آج کی موجودہ سیاست میں متحرک شاید ہی کوئی چہرہ نظرآئے۔

مگر اب کی بار بھٹوز کو اقتدار ملے اور وہ گڈ گورننس کا مظاہرہ نہ کرسکیں تو ایسے بھٹوز کا تاریخ میں مرجانا بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments