وزیر اعظم کو کیسے مضبوط بنایا جائے؟


\"qamar-bajwa\"جو کام دنیا کے اکثر ملکوں میں معمول کی توجہ حاصل کرنے میں بھی ناکام رہتا ہے، پاکستان میں اسی کام کو سرانجام دینے کے دوران طویل مباحث ، قیاس آرائیاں ، افواہیں اور اندازے سنائی دیتے رہے ہیں۔ اس مزاج سے ایک بات تو واضح ہے کہ ملک میں رائے بنانے والا طبقہ بدستور عوام کو یہ یقین دلانے پر مصر ہے کہ فوج ہی پاکستان میں طاقت کا اصل محور ہے اور اس کے سربراہ کے ہاتھ میں ہی کل طاقت مرتکز ہے۔ یہ تبصرے نہ ملک کے آئین کو بالا دست سمجھتے ہیں اور نہ منتخب حکومت کے اختیار کو کوئی اہمیت دینے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ ان اندازوں اور موشگافیوں کے مطابق تو ملک میں اگر منتخب حکومت کام کر رہی ہے تو اس میں وزیراعظم ، ان کی پارٹی ، ملک کے نظام یا پارلیمنٹ کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ فوج کے سربراہ نے انہیں اس عہدہ پر فائز رہنے کی ’’اجازت‘‘ مرحمت کی ہے۔ اس لئے یہ بات حیرت کا سبب نہیں ہونی چاہئے کہ وزیراعظم نواز شریف کو جب نیا آرمی چیف مقرر کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنی تسلی کرنے اور خوب چھان پھٹک کر اطمینان سے اپنے انتخاب کا اعلان کیا۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے کے مصداق نواز شریف کسی ایسے جنرل کو فوج کی کمان سونپنے کیلئے تیار نہیں تھے جو کل کو ان کی حکومت کو آنکھیں دکھانے لگے۔ اگرچہ 2013 میں جنرل راحیل شریف کو فوج کا سربراہ بناتے ہوئے بھی یہی امید وابستہ کی گئی تھی جو چند ہی ماہ میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے ، ان کی گرفتاری اور ملک سے روانگی کے سبب تصادم میں تبدیل ہونے لگی۔

اس کے باوجود نواز شریف یا میڈیا اور دوسرے مبصرین یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ معاملہ کسی ایک فرد سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ ملکی معاملات میں ایک ادارے کے کردار اور اختیار کا معاملہ ہے۔ اگرچہ کسی بھی آرمی چیف کو اپنی افواج پر مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے لیکن ماضی کی تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی فوجی سربراہ نے اپنے ادارے کے مفادات کو پس پشت نہیں ڈالا اور ان پالیسیوں سے انحراف نہیں کیا جو فوج بطور ادارہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے کیلئے اگرچہ غیر روایتی تجاویز سامنے لائی گئی تھیں لیکن بھارت کے بارے میں پاکستان کا سرکاری موقف مقابلہ بازی سے ہی عبارت رہا تھا۔ اسی طرح جنرل راحیل شریف کے دور میں آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف بلاتخصیص کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا لیکن حقانی نیٹ ورک ، لشکر طیبہ اور جیش محمد اس آپریشن کی زد میں آنے سے محفوظ رہے۔ اکتوبر میں ڈان میں ناپسندیدہ عناصر کے خلاف کارروائی کے حوالے سے رپورٹ میں سول ملٹری اختلافات کی بات کی گئی تو فوج نے اسے من گھڑت افسانہ قرار دیتے ہوئے حکومت کو دیوار سے لگانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ فوج کا اصرار ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے اس قسم کی من گھڑت کہانیاں پھیلانے سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔ ملک کے ’’منتخب ، بااختیار اور طاقتور‘‘ وزیراعظم کے پاس فوج کے ہر اعتراض پر ’’جی جناب، بالکل درست فرمایا‘‘ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ صورت حال جہاں حکومت کی بے بسی کا راز افشا کرتی ہے تو اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتی ہے کہ فوج اور اس کا سربراہ کیوں مسلسل طاقت کا محور ہے اور کیوں آرمی چیف کے بدلنے سے صورتحال میں تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔\"qamar-javed-bajwa3\"

یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے منتخب رہنماؤں کو اپنے اختیارات کے بارے میں مکمل یقین ہونا چاہئے۔ اس کے بعد انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہو گی کہ وہ یہ حق و اختیار عوام کے ووٹوں کے ذریعے حاصل کرتے ہیں جس کا مظاہرہ قومی اسمبلی کے منتخب ارکان کی صورت میں ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں کوئی سربراہ حکومت ذاتی ووٹ لے کر اس منصب تک نہیں پہنچتا۔ وہ قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کے ووٹ سے وزیراعظم منتخب ہوتا ہے۔ اس لئے کسی بھی منتخب وزیراعظم کو قومی اسمبلی کے اس کردار کا احترام کرتے ہوئے، بار بار اس کا مظاہرہ بھی کرنا چاہئے۔ ملک میں یہ صورتحال ہے کہ قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد نواز شریف قومی اسمبلی کو غیر ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ کبھی کبھار مہمانوں کی طرح مختصر وقت کیلئے وہاں آتے ہیں۔ وزیراعظم تو اپنی جگہ اسمبلی سے لاتعلق رہتے ہیں، ان کے وزیر بھی اکثر اجلاس سے غیر حاضر رہتے ہیں اور اپوزیشن یہ واویلا مچاتی رہتی ہے کہ وزیر ان کے سوالوں کے جواب دینے کیلئے موجود نہیں ہیں۔ اس بارے میں منتخب وزیراعظم نامزد آرمی چیف سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ فوج کا سربراہ باقاعدہ کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد کرتا ہے اور غور سے اپنے نائبین کی آرا کو سنتا ہے۔ اسی طرح وہ مسلسل مختلف یونٹوں اور شعبوں سے رابطہ میں رہتا ہے اور ان کی کارکردگی کی نگرانی کرنے کے علاوہ ان کی ضرورتوں اور مشکلات کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک منتخب حکومت یہی ڈسپلن اپنے طرز حکومت میں شامل کرنے میں ناکام رہے گی، اس وقت تک سوال حکومت فوج کے مقابلے میں کمزور اور بے بس ہی رہے گی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے وزیراعظم نہ صرف یہ کہ قومی اسمبلی کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں بلکہ وہ کابینہ کے اجلاس منعقد کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم کے فیصلہ کرنے کے اختیار کے حوالے سے سپریم کورٹ نے جب یہ قرار دیا تھا کہ وہ کابینہ کے منظوری کے بغیر حکم جاری کرنے کے مجاز نہیں ہیں تو سرکاری وکیل نے اس فیصلہ کو تبدیل کروانے کیلئے ہر جتن کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے آئین کا یہ تقاضہ واضح ہوتا ہے کہ وزیراعظم بطور فرد بااختیار نہیں ہے بلکہ اسے یہ اختیار اسمبلی اور کابینہ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور انہی ذرائع سے وہ ان اختیارات کو بروئے کار لا سکتا ہے۔

 برسر اقتدار آنے والی پارٹی اور اس کا سربراہ اگر اس اصول کو تہ دل سے تسلیم کر لیں اور قومی اسمبلی کو طاقت کا حقیقی منبع سمجھتے ہوئے اسے موثر اور فعال بنانے کیلئے اقدامات کریں تو منتخب حکومت کو بطور ادارہ احترام اور وقار حاصل ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس طرح آج جو مباحث شام کے وقت ملکی ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز اور اخباری کالموں میں اٹھائے جاتے ہیں، وہ اسمبلی کے ایوان میں سامنے آ سکیں گے اور وزیراعظم اور ان کے رفقا وہاں ان کا جواب دے کر ملک میں ہیجان اور بدحواسی کی کیفیت کو ختم کر سکیں گے۔ اس طرح آہستہ آہستہ ملکی سیاسی معاملات پر اتھارٹی اور بھیدی ہونے کے دعویدار ماہرین کی اہمیت اور ضرورت بھی کم ہونے لگے گی اور لوگ ان کی باتوں اور بال کی کھال اتارنے والے تبصروں کو خاطر میں نہیں لائیں گے کیونکہ انہیں اپنے سوالوں کے جواب اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والے مباحث سے ہی موصول ہو جائیں گے۔ میڈیا اور اس سے وابستہ ماہرین کو بھی سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہو گی۔ انہیں منتخب اداروں کا احترام کرنے کا رویہ اختیار کرنا چاہئے اور فوج جو دراصل حکومت ہی کا ادارہ ہے ۔۔۔۔۔ کو حکومت کے مدمقابل کے طور پر پیش کرنے اور ہر سیاسی اختلاف پر فوجی مداخلت کا شور مچانے سے گریز کرنا ہو گا۔ تب ہی ملک میں عوام ، ان کے نمائندے اور فوج کی قیادت یہ باور کر سکے گی کہ لوگوں کو اپنے حقوق و اختیارات کے بارے میں علم ہے۔ فوج یکطرفہ طور سے کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے بلکہ اسے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے حکومت سے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی۔

 میاں نواز شریف اس وقت سپریم کورٹ میں اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے دائر جن مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، ان کی کارروائی کے دوران بھی عدالت اور اپوزیشن \"qamar-javed-bajwa2\"کی طرف سے ایک ہی بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ ملک کے تحقیقاتی ادارے ناکارہ اور بے اختیار ہیں۔ وہ حکمرانوں کی بدعنوانی کی تحقیقات کرنے اور ان سے غلطیوں کی جوابدہی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جنوبی کوریا کی صدر پارک گیون ہی کو بھی بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔ عوام کا جم غفیر گزشتہ کئی ہفتوں سے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔ لیکن وہاں کے تحقیقاتی ادارے نے جب ضرورت محسوس کی تو زیر غور مالی اسکینڈل میں صدر ہی کا نام مشتبہ افراد میں شامل کر لیا اور اب ان سے تفتیش کیلئے پولیس افسر ملاقات کریں گے۔ نہ حکومت نے یہ اعتراض کیا ہے کہ معمولی پولیس افسر صدر سے کیوں کر تفتیش کر سکتا ہے اور نہ اپوزیشن نے یہ الزامات عائد کئے ہیں کہ پولیس اور تحقیقاتی ادارے صدر کے ساتھ ملے ہوئے ہیں یا ان کے اختیار میں ہیں، اس لئے وہ معاملہ کی درست تحقیق نہیں کر سکتے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جب ملک میں سول اداروں کو مضبوط ، باوقار اور بااختیار نہیں بنایا جائے گا تو اختلاف کی صورت میں ہر شخص ایک دوسرے پر الزام تراشی کو ہی سب سے موثر حربہ سمجھے گا۔ سول ادارے مضبوط نہ ہونے ہی کی وجہ سے فوج کو بطور ادارہ اہمیت ، وقعت اور اختیار بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے اگر فوج کے سیاست میں مداخلت کا راستہ روکنا ہے تو آرمی چیف مقرر کرتے ہوئے یہ دیکھنے کی بجائے کہ وہ تابعدار ہے اور غیر سیاسی ہے، ملک کے دیگر اداروں کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ فوج کو بھی اندازہ ہو کہ اگر وہ کوئی غلطی کرے گی تو اس کی گرفت کرنے کے لئے ملک میں ادارے اور نظام موجود ہے۔

بعض سیاسی پارٹیاں عوام کی توجہ اور سیاسی اہمیت حاصل کرنے کیلئے حکمرانوں کو بدعنوان قرار دے کر اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ عدالت فیصلہ کرے گی کہ ملک کا حکمران بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہے یا نہیں، حالانکہ نواز شریف کے خلاف کسی جگہ کوئی شکایت درج ہے اور نہ کسی تحقیقاتی ادارے نے اس بارے میں اپنا موقف عدالت کے سامنے پیش کیا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر دائر ہونے والی درخواستوں کی بنا پر وزیراعظم عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ یہ صورتحال بھی اداروں کو مضبوط کرنے اور ان اداروں میں عوام کا غیر متزلزل اعتماد بحال کرنے کی صورت میں ہی تبدیل ہو سکتی ہے۔

 وزیراعظم نواز شریف اگر یہ تبدیلیاں کر سکیں۔ اگر ملک کے ادارے ان کے عہدہ کے باوصف ان سے جوابدہی کا اختیار حاصل کر لیں تو ملک کا کوئی بھی فوج سربراہ کسی منتخب حکومت کو گھر جانے کا حکم نہیں دے سکے گا۔ بصورت دیگر جتنی احتیاط بھی کی جائے، یا تو فوج کے زیر سایہ حکومت کی جائے گی یا آرمی چیف جب چاہے گا منتخب حکومت سے ناراض ہو کر اسے گھر جانے کا پیغام دینے کا فیصلہ کر سکے گا۔ اس فیصلہ کو اپوزیشن پارٹیوں اور محروم لوگوں کی تائید بھی حاصل ہو گی۔ فوج اور سول حکومت میں اختیارات کا توازن قائم کرنے کی بجائے فوج کو بطور ادارہ حکومتی نظام کے زیر نگیں کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب افراد کی بجائے نظام کو طاقتور اور بااختیار کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments