مرتضیٰ بھٹّو: ذوالفقار علی بھٹّو کے ’حقیقی سیاسی جانشین‘ جو اپنی ہی بہن بےنظیر کے دورِ حکومت میں مارے گئے


خاندانی زندگی

کابل میں جلا وطنی کے دوران 1981 میں مرتضیٰ بھٹّو نے دری نسل سے تعلق رکھنے والے افغان وزارت خارجہ کے ایک افسر کی صاحبزادی فوزیہ فصیح الدین سے شادی کی جن سے اُن کی بڑی صاحبزادی فاطمہ بھٹّو 29 مئی 1982 کو پیدا ہوئیں۔

فاطمہ بھٹّو تین برس کی تھیں کہ مرتضی بھٹّو اور فوزیہ بھٹّو میں علیحدگی ہوگئی اور مرتضی فاطمہ بھٹّو کے ہمراہ شام منتقل ہو گئے۔

شام میں میر مرتضیٰ بھٹّو کی ملاقات غنویٰ بھٹّو سے ہوئی اور 1989 میں دونوں نے شادی کرلی۔ غنویٰ بھٹّو مرتضیٰ بھٹّو کے فرزند ذوالفقار علی بھٹّو (جونئیر) کی والدہ ہیں۔

وطن واپسی

مرتضیٰ بھٹّو 18 اکتوبر 1993 کے انتخابات میں پی ایس 31 لاڑکانہ کے اپنے آبائی ضلعے سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور وطن واپس پہنچے تو یہاں اُن کی بہن بے نظیر بھٹّو کے حکم پر انھیں دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔

رہا ہوئے تو انھوں نے بہن کے مقابلے میں اپنی سیاسی قوّت مجتمع کرنے کی غرض سے آزادانہ نقل و حرکت کا آغاز کیا۔

ذاتی شخصیت

انقلابی ذہنیت اور جارحانہ انداز کے حامل تند خُو اور تیز مزاج مرتضیٰ بھٹّو سندھ اسمبلی کے رکن بن کر پارلیمانی سیاست کا حصّہ بن تو گئے تھے مگر اُن کے جارحانہ رویّے میں پاکستان کے ریاستی اور سرکاری اداروں کی جانب نرمی کبھی نہیں آئی۔

عملی سیاست انھیں جلسہ گاہوں، اجلاسوں، سیاسی میل ملاقات اور عوامی اجتماعات تک لے تو آئی تھی مگر جارح مزاج مرتضیٰ بھٹّو میں سیاسی رہنماؤں کی سی سمجھوتہ بازی یا مصالحانہ انداز کبھی نہیں آسکا۔

ریاستی اور سرکاری اداروں کی جانب اُن کا شدید ردعمل کبھی نرم مزاجی کی جانب مائل نہیں رہا جنھیں وہ اپنے والد کا قاتل سمجھتے اور کہتے رہے۔

مرتضیٰ بھٹّو اور پولیس

ایک بار کراچی سے اپنے آبائی شہر لاڑکانہ میں خاندانی قبرستان گڑھی خدا بخش میں والد کی قبر پر جلوس کی صورت میں جانے کے اُن کے فیصلے نے بےنظیر بھٹّو حکومت کے لیے سیاسی خطرے کی گھنٹی بجائی تو حکومت نے فیصلہ کیا کہ مرتضی بھٹّو کو لاڑکانہ جانے سے روکا جائے۔

ایک سابق پولیس افسر نے جو اب ملک میں نہیں رہتے، نے بتایا کہ ’وزیر اعظم کی ہدایت پر صوبائی وزیر اعلیٰ سید عبداللّہ شاہ (موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ کے والد) نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو احکامات دئیے کہ مرتضی بھٹّو کا قافلہ روکا جائے۔‘

ایک سینئیر پولیس افسر نے یاد دہانی کروائی کہ ’ایس ایس پی رمضان چنّہ پہلے پولیس افسر تھے جس نے اُن کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔‘

مگر مرتضیٰ بھٹّو نے کسی کو خاطر میں لائے بغیر اپنا سفر جاری رکھا۔ یہ سلوک لاڑکانہ تک اُن کا قافلہ روکنے کی کوشش کرنے والے ہر افسر کے ساتھ ہوا۔ ’پولیس افسران کو سڑک پر اپنی عزّت بچانا مشکل لگنے لگتا تھا۔‘

پاکستان سے باہر مقیم ایک اور افسر، سابق ایس پی لیاری فیاض خان کہتے ہیں کہ ’تھانے جا کر اپنے حامیوں کو چھڑوا لینا تو اُن کا معمول بن گیا تھا۔‘

’ایک بار تو خود میرے ساتھ ہوا۔ میں نے مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھی استاد تاجُو کو گرفتار کیا۔ پھر اسی خدشے کی تحت اُسے کسی اور محفوظ مقام پر منتقل کیا کہ مرتضیٰ بھٹّو اسے چھڑوانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔‘

’وہی ہوا، مرتضیٰ بھٹّو خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہنچے تاکہ تاجُو کو چھڑوا سکیں۔ میرے عملے کے ساتھ اُن سب نے بےانتہا بدسلوکی کی تھی۔ اگر تاجُو وہاں ہوتا تو اُسے چھڑوا لے جاتے۔‘

جب یہ سب ہو رہا تھا تو مرتضیٰ بھٹّو کے قریبی حلقے میں ایسے عناصر بھی تھے جن کے بارے میں پاکستانی اداروں کو شبہ تھا کہ وہ (مبینہ طور پر) براہ راست انڈین یا افغان خفیہ اداروں سے رابطے میں تھے یا رہ چکے تھے۔

اُس وقت کراچی 1990 کی دہائی کی مسلّح شورش سے سنبھل ہی رہا تھا اور 1992 سے اس خلاف شروع ہونے والا فوج پولیس اور ریاستی اداروں کا آپریشن کلین اپ اپنے اختتامی مراحل میں تھا۔

ڈاکٹر شعیب سڈل مرتضیٰ بھٹّو کی ہلاکت اور کراچی آپریشن کے وقت کراچی پولیس کے سربراہ یعنی ڈی آئی جی کراچی تھے۔

ڈاکٹر سڈل نے کہا کہ ایسے ماحول میں مرتضیٰ بھٹّو اور اُن کے ساتھی اسلحے سے لیس اپنے محافظین کے ساتھ آزادانہ نقل و حرکت کرتے تھے اور تھانوں یا پولیس مراکز میں یہ زور زبردستی بڑھتی جا رہی تھی۔

’پولیس نے بڑی قربانیوں کے بعد کراچی میں کسی حد تک امن قائم کر دیا تھا اور مسلّح گروہوں کی کھلے عام نقل و حرکت اس نازک امن کو نقصان پہنچا سکتی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں ’میں نے کہہ رکھا تھا کہ جو قانون ہاتھ میں لے اُس کے خلاف کارروائی کرو۔ لیکن چونکہ صورتحال اس سے پہلے ہی سے بگڑ رہی تھی اس لیے فیصلہ ہوا کہ اس قسم کی کارروائی برداشت نہیں کی جاسکتی اور اس لیے اب مرتضیٰ بھٹّو اور اُن کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا جائے۔‘

’میں نے اُسی رات حکم دیا کہ جو بھی ہو گرفتار کر لیا جائے۔‘

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’جب حکومت کے نوٹس میں لایا گیا تو وزیراعلیٰ عبداللّہ شاہ نے کہا کہ پہلے وزیر اعظم بےنظیر بھٹّو سے پوچھ لیں۔ جب میں نے ان سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ جب آپ اُس (میر مرتضیٰ) کو پکڑیں گے تو ہمارے مخالفین کہیں گے کہ بےنظیر نے گرفتار کروا دیا۔ کوئی یقین نہیں کرے گا کہ پولیس نے اپنے طور پر فیصلہ کیا تھا۔‘

شعیب سڈل نے بےنظیر بھٹّو کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا ’اس لیے ذرا رک جائیں۔ میں دو چار روز میں کراچی آتی ہوں تو پھر کچھ کرتے ہیں۔ تب تک سوچ لیتے ہیں۔‘

شعیب سڈل بتاتے ہیں کہ ’پھر وزیر اعظم سے مشورے کے بعد میرے حکم میں اتنی ترمیم ضرور ہوئی کہ میر مرتضیٰ کے علاوہ اُن کے جو بھی ساتھی ہوں، جو ملتا ہے گرفتار کر لیا جائے۔‘ اس کے ساتھ ہی مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں کی رہائشگاہوں اور ٹھکانوں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
شعیب سڈل

Getty Imagesڈاکٹر شعیب سڈل

پولیس سے جھڑپ کیوں ہوئی؟

مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں میں پولیس کو مطلوب سب سے نامور اور نمایاں شخص تھے علی سنارا۔ ریاستی اداروں کو اطلاع اور شبہ تھا کہ علی سنارا کسی غیر ملکی ادارے سے رابطے میں ہیں۔

اُس وقت تک کیماڑی آئل ٹرمینل پر راکٹ حملوں، بم دھماکوں اور دہشت گردی سے جڑی کئی وارداتیں ہو چکی تھیں۔

علی سنارا ایسے کئی واقعات میں نامزد اور ریاستی اداروں کو مطلوب تھے۔

ان حالات میں کراچی آپریشن سے شہرت حاصل کرنے والے انسپکٹر ذیشان کاظمی نے 16 ستمبر 1996 کو علی سنارا کو گرفتار کر لیا مگر اندیشہ تھا کہ مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھی علی سنارا کو چھڑوانے کی کوشش کریں گے اور خدشات کے مطابق مرتضیٰ بھٹّو نے کارروائی کی۔

مرتضی بھٹّو کے قتل سے قبل کراچی میں تعینات ہونے والے ایک افسر نے بتایا کہ ’کراچی آپریشن کے دوران سینکڑوں پولیس مقابلے ہو چکے تھے جن میں پولیس کے ہاتھوں (مبیّنہ طور پر) ماورائے عدالت مارے جانے والوں کی بڑی تعداد سیاسی کارکنان کی ہوتی تھی اور ان مقابلوں کو ’جعلی پولیس مقابلہ‘ کہا جاتا تھا۔

ان مقابلوں میں انسپکٹر ذیشان کاظمی جیسے پولیس افسران ہر آئے دن شریک ہوتے تھے اور علی سنارا کو بھی ذیشان کاظمی نے اٹھایا تھا۔ مرتضیٰ بھٹّو کو خدشہ تھا کہ کہیں علی سنارا کو بھی کسی (مبیّنہ) جعلی پولیس مقابلے میں نہ مار دیا جائے۔ اپنے آخری خطاب میں مرتضیٰ بھٹّو نے اس خدشے کا برملا اظہار بھی کیا تھا۔

اگلے روز صبح کراچی جم خانہ اور سندھ اسمبلی کی عمارت کے قریب دو مختلف بم دھماکے ہوئے۔ ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوئی مگر شبے کی سوئی ’الذوالفقار‘ کے گرد گھومنے لگی۔

اس شک پر کہ دونوں دھماکے سنارا کی گرفتاری کا ردّ عمل ہیں ’70 کلفٹن‘ کے علاوہ تمام مقامات پر مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں کے ٹھکانوں پر پولیس کے چھاپوں کا سلسلہ جاری رہا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp