روزمرہ زبان اور تخلیقی زبان: چند باتیں


 \"nasirشعرو ادب اور زبان کاتعلق جسم اور ریڑھ کی ہڈی سے بڑھ کر ہے۔ ادب کا کوئی تصور زبان کے بغیر نہیں کیا جا سکتا، جب کہ جسم کا تصور ہم ریڑھ کی ہڈی کے بغیر کر سکتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کے نہ ہونے یا متاثر ہونے سے جسم ٹیڑھا میڑھا ہوجاتا ہے۔ زبان پر عبور نہ ہونے، اور اظہار میں ایک طرح کی لکنت کے در آنے سے ادب کی وہی صورت ہوسکتی ہے جوکمر کی ہڈی کے مہرے کے پچک جانے سے جسم کی ہوتی ہے۔ اس بات سے اصولی طور پر اتفاق کیا جانا چاہیے کہ زبان پر عبور کا ایک اہم ذریعہ اساتذہ کا کلام ہے۔ تاہم اس بات میں ہم اتنا اضافہ کر سکتے ہیں کہ شاعر کو خصوصاً اساتذہ سے فقط الفاظ، ان کا تلفظ، محل استعمال ہی نہیں سیکھنا چاہیے، بلکہ زبان کے تخلیقی استعمال کا ایک حقیقی ذوق بھی حاصل کرنا چاہیے۔ اگر وہ فقط الفاظ اور ان کا تلفظ سیکھے گا تو زبان پر اسے قدرت حاصل ہوجائے گی، مگر یہ قدرت ایک بنی بنائی شے کی ٹھیک ٹھیک نقالی سے بڑھ کر نہیں ہوگی۔ اگر کسی لکھنے والے کو شعر وادب میں اپنے دستخط ثبت کرنے ہیں تو اس کے پاس ایک اپنی زبان ہونی چاہیے۔ یہ ’اپنی زبان ‘ زبان پر قدرت کے اس اگلے مرحلے میں حاصل ہوتی ہے، جو زبان کے تخلیقی استعمال کے ذوق سے عبارت ہے۔ ایک اپنی زبان، اور ایک اپنا اسلوب تشکیل دنیا، شعر و ادب میں ایک اپنی دنیا قائم کرنا ہے۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شعرو ادب میں جو لوگ ایک نیا جہان پیدا کرتے ہیں، اس میں بنیادی کردار نئی زبان اور اس کے خاص انداز کا ہوتا ہے۔ آپ نیا خیال، نیا تجربہ، نئی کیفیت پرانی زبان میں ظاہر نہیں کر سکتے۔ نیا خیال لازماً زبان کے آبگینے کو پگھلا دیتا ہے۔ میر سے لے کر مجید امجد تک تمام بڑے شاعر اپنی زبان و اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔ نیز ایک بڑا شاعراپنی جس شناخت کا تعلی آمیز شعوررکھتا ہے، وہ بھی زبان اور اسلوب اندازطرز ہے۔ غالب کا معروف شعر تو بچے بچے کو یاد ہے: ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے، کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور۔ میر کا ایک کم معروف شعر ہے:

بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر\"nasir-kazmi\"

سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا

کہنے کا مقصود یہ ہے کہ اسلوب انداز طرزِ ادا سٹائل وغیرہ دراصل زبان کے تخلیقی استعمال کا ذوق ہے جو زبان پر قدرت سے آگے کی چیز ہے۔

یہاں ایک اوربات کا ذکر بھی ضروری ہے۔ شعری یا فکشنی زبان کے دورخ ہیں۔ ایک متن کی صورت، جسے ہم کلاسیک کہہ سکتے ہیں؛ دوسری معاصر دنیا میں استعمال ہونے والی روزمرہ زبان۔ کلاسیک کی زبان کے سلسلے میں ابہام تو ہوتا ہے، مگرنمایاں نہیں ہوتا، کیوں کہ ابہام خود زبان کی ساخت میں مضمر ہے۔ روزمرہ زبان کو شاعری و افسانے میں استعمال کرنا خاصا پیچیدہ، احتیاط طلب معاملہ ہے۔ جسے ہم روزمرہ زبان کہتے ہیں، وہ تیزی سے بدل رہی ہوتی ہے، نیز یہ غیر متجانس عناصر سے عبارت ہوتی ہے، یااس کے کئی رجسٹر ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ روزمرہ زبان جن تبدیلیوں سے گزر رہی ہوتی ہے، ان میں کون سی تبدیلیاں زبان کے ارتقا کا باعث ہیں اور کون سی زبان کے بگاڑ کا ذریعہ۔ ایک ماہر لسانیات کی نظر میں روزمرہ زبان میں رونما ہونے والی تبدیلی، سماجی تبدیلی کا اشاریہ ہوتی ہے، اس لیے وہ کبھی زبان کے لیے بگاڑ کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک تخلیق کار بھی روزمرہ لسانی تبدیلیوں کو اسی نظر سے دیکھتا ہے؟

\"Firaq-Gorakhpuri\"کچھ لوگ غلط العام اور غلط العوام کی معروف اصطلاحات استعما ل کرتے ہیں۔ یہ اصطلاحات بھی بلاغت کی وضع کردہ ہیں (لسانیات کی نہیں)۔ غلط العام کو چوں کہ فصیح کہا گیا ہے، اس لیے اسے تخلیق کار استعمال کر سکتے ہیں، مگر غلط العوام کو نہیں۔ سوال یہ ہے کیا یہ اصطلاحات آج زبان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو گرفت میں لینے کے لیے کافی ہیں، یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ زبان میں ہونے والی تبدیلیوں کی کئی قسمیں ہیں: سماجی، نفسیاتی اور خالص لسانیاتی۔ سماجی تبدیلیوں سے مراد وہ تبدیلیاں ہیں جو دراصل گلوبلائزیشن اور مختلف پس منظر کے سماجی گروہوں کے بڑے پیمانے پر میل جول اور نئی صنعتی اشیا کے متعارف ہونے اور عام زندگی میں شامل ہونے کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں۔ نئے علوم کو تو چھوڑیے، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سیل فون کی وجہ سے ایک بالکل نئی زبان ہماری روزمرہ دنیا کا حصہ بنی ہے؛ انھیں بھی زبان کی سماجی تبدیلیوں میں شامل سمجھا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں زبان کی سماجی تبدیلی بڑی حد تک حقیقی دنیا میں مطابقت تلاش کرنے کی وجہ سے رونما ہوتی ہے۔ سادہ لفظوں میں اگر سماجی تبدیلی کا مطلب نئے الفاظ ہیں تو نفسیاتی تبدیلیوں سے مراد پرانے الفاظ کے معانی میں تبدیلی ہے۔ اس کی سب سے اہم مثال خدا حافظ کی جگہ اللہ حافظ کہنا ہے۔ فارسی لفظ خدا کو عربی لفظ اللہ سے بدلنے کا مطلب ایک گہری نفسیاتی تبدیلی ہے، جو پاکستان میں اردو بولنے والوں کے یہاں رونما ہوئی ہے۔ جب کہ تیسری قسم کی خالص لسانیاتی تبدیلیاں وہ ہیں جو وقت کے ساتھ لفظوں کے تلفظ، ان کے املا، یا کبھی کبھی ان کے محلِ استعمال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے اب ہم گاﺅں کو گانو، رائے کو راے لکھنے لگے ہیں، یا اب ہندی الاصل اور عربی فارسی الفاظ کی تراکیب کو قبول کرنے لگے ہیں۔ اب ظاہر ہے یہ نئی تبدیل شدہ زبان اساتذہ کے یہاں نہیں ملتی، اور معاصر شعرا کی سند قابل قبول نہیں ہوتی ۔ لہٰذا اب سوال یہ ہے کہ روزمرہ زبان میں در آنے والے بھانت بھانت کے نئے الفاظ کے صحیح اور غلط استعمال کی سند کہاں سے آئے؟یہ سوال فکشن میں شاید نہ اٹھایا جائے کہ وہاں کرداروں، یا واقعات کو حقیقی بنانے کے لیے انھی کی زبان لکھنا ایک فنی تقاضا سمجھا جاتا ہے، لیکن شاعری زبان کے سلسلے میں ہمیشہ سے’ قدامت پسند، ‘سند کی طالب رہی ہے جو ماضی کے استاد شعرا کے یہاں ملتی ہے۔ اب ہم ریل جیسے کل کے نئے لفظ کو بیسویں صدی کے ممتاز شعرا کے یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

ریل کی گہری سیٹی سن کر

رات کا جنگل گونجا ہوگا      (ناصر کاظمی)

\"mushtaq-ahmad-yousafi\" لیکن نئے الفاظ کے اردو شاعری میں استعمال کا کیا قرینہ ہو؟یہ سوال اس وقت زیادہ اہم ہوجاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نئے شعرا دھڑا دھڑا ای میل، فیس بک، ان باکس، پوسٹ، ایس ایم ایس، میسج اور اسی قبیل کے دیگر الفاظ اپنی نظموں میں خصوصاً اور غزلوں میں عموماً برت رہے ہیں۔ ایک بات بالکل واضح ہے کہ ان الفاظ کا نیا پن فوراً محسوس ہوتا ہے؛اگر ڈھنگ سے انھیں استعمال نہ کیا گیا ہو تو شعر یا نظم مضحک ہوسکتے ہیں۔ ہم قارئین یالکھنے والوں کو مشورہ دینے سے رہے، بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ زبان کے تخلیقی استعمال کا ذوق، یعنی ٹھیک جگہ پر صحیح لفظ کا استعمال، لفظ کو استعارہ و علامت و تمثال بنانے کا عمل، لفظ کی حسی صورت و معنوی ہیئت کا بہ یک وقت لحاظ ہی اصل چیز ہے۔ جس کے پاس یہ نعمت ہے، وہ مٹی کو بھی سونا بنا سکتا ہے، اور جو اس سے محروم ہے وہ سونے کوبھی پیتل کے مرتبے پر لا سکتا ہے! اور بد قسمتی سے آج دوسری قبیل کے لوگوں کی کثرت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments