شیمس ہینی کی نظم \”ملاپ\” میں جنس اور سیاست


  \"heaney_2657154b\" شیمس ہینی اپریل 1929 میں شمالی آئرلینڈ میں پیدا ہوئے لیکن بعد میں جمہوریہ آئرلینڈ میں سکونت اختیار کر لی۔ وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے ‘ شاعری میں نام ور ہوئے اور 1995 میں نوبیل انعام کے حق دارقرار پائے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ایک کیتھولک اسکول میں حاصل کی‘بعد میں بیل فاسٹ کی کوینز یونیورسٹی چلے گئے اورکچھ عرصے بعد ڈبلن منتقل ہو گئے۔ ہینی کی پہلی کتاب ’ڈیتھ آف اے نیچرلسٹ‘ 1966 میں شائع ہوئی تھی۔ ابتدا میں ان کی شاعری ان کے دیہی پس منظر سے عبارت تھی لیکن بعد میں جب آئرلینڈ کے مسائل بڑھتے گئے تو ان کی توجہ سیاسی مسائل پر مرکوز ہو گئی‘ یہ شاعری سے ان کا کمٹمنٹ تھا جو اپنے اردگرد پھیلے مسائل کے انبار سے وہ جمالیات کے نام پرآنکھیں نہیں چرا سکے۔ انھوں نے اپنے کلام کے کل 12 مجموعے شائع کیے اور ان کا آخری مجموعہ ’ہیومن چین‘ 2010 میں سامنے آیا۔

شیمس ہینی کی نظم دی ایکٹ آف یونین (ملاپ کا عمل) 1975 میں چھپنے والے مجموعے “شمال” میں شامل ہے۔ پہلے بند میں برطانیہ کی جنسی طور پر آئرلینڈ کی طرف کشش کا ذکر ہے۔ شیمس ہینی نے نظم کی پہلی لائن میں تین مرتبہ توقف کر کے صورت حال کو ہیجان خیز بنانے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ آج رات، پہلی جنبش، دھڑکن۔ (نظم کا ترجمہ میں نے لفظی نہیں کیا ہے بلکہ روانی کو برقرار رکھنے کے لیے آزاد ترجمہ کیا ہے) یہاں شاعر نے حذفی علامت کا خوبی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ بات اچانک ادھوری چھوڑ کر معاملات کو مبالغہ آرائی کے ذریعے اس طرح بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو کچھ پیش آیا ہے وہ نہایت غیر معمولی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے نقشے پر آئرلینڈ کے جغرافیائی محل وقوع کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ آئرلینڈ کی پشت پربرطانیہ ہے اور نظم میں یہ صورتحال ایک استعارے کی صورت محسوس ہوتی ہے کہ آئرلینڈ اس کے قبضے سے بھاگنا چاہتا ہے۔ یہ نظم اس دور کی ہے جب شمالی آئرلینڈ میں نسلی سیاسی کشیدگی عروج پر تھی۔ لیکن اس نظم کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ متضاد جذبات کی حامل ہے۔

\"seamus-heaney1\"اس نظم ’دی ایکٹ آف یونین ‘ میں واضح جنسی استعارے استعمال کرتے ہوئے شیمس ہینی نے برطانیہ کے آئرلینڈ کو اپنی نوآبادی بنانے کے عمل کو زنا بالجبر سے تعبیر کیا ہے۔ اس میں آئرلینڈ ایک کمزور اور غیر محفوظ عورت کے استعارے میں لپٹا ہے اور برطانیہ ایک طاقت ور مرد کی صورت میں نظر آتا ہے۔ نظم کا عنوان بھی ذومعنی ہے۔ یہ ایک طرف 1801 میں واقع ہونے والے ضابطہ اتحاد کی یاد دلاتا ہے تو دوسری طرف جنسی عمل کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔

ہینی کے ہاں ایہام کا شعری رویہ بہت عام ہے۔ یہی صورت ہمیں یہاں بھی دکھائی دیتی ہے۔ نظم کے مجموعی دروبست سے کبھی لگتا ہے کہ ’عمل‘ زنابالجبر کا ہے اور کبھی الفاظ کا انتخاب بتاتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ رضامندی کا شاخسانہ ہے اور قاری یہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ یہ عمل زبردستی کا تھا یا رضامندی کا۔ ہینی کی خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو معنوی طور پر ایک چیلنج سے دوچار کرکے اپنی پسند کا کوئی مطلب اخذ کرنے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کردیتا ہے۔ وہ قاری کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ نظم میں ہینی جنسی استعاروں کے ذریعے بتاتا ہے کہ باپ کی طرح برطانیہ نے اپنے بچوں کو آزاد چھوڑ دیا ہے اور دوسری طرف آئرلینڈ کو دردِ زہ جیسی تکلیف میں مبتلا چھوڑ کر وہاں طفیلی اولاد کو اس کی سرحدیں پیٹنے کے لیے چھوڑ گیا ہے۔ اس نظم کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایک وفادار آئرستانی نے صورتحال سے نجات کا کوئی حل تجویز کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔

1801 میں ضابطہ اتحاد کے ذریعے برطانیہ نے آئرلینڈ کو اپنے براہ راست کنٹرول میں لیا اور اسے ’برطانیہ اور آئرلینڈ کا قانونی اتحاد‘ کا نام دیا۔ آئرستانیوں کا ایک گروہ اس صورتحال پر خوش تھا لیکن درحقیقت اکثریتی طبقے رومن کیتھولک کی بڑھتی ہوئی ناراضی نے اگلی ڈیڑھ صدی میں معاملات کو اس حد تک پہنچایا کہ جزیرے کے جنوبی حصے نے آزادی حاصل کرلی۔ شمالی آئرلینڈ میں بسنے والے کیتھولک اقلیت نے جب یہ دیکھا کہ ان کے بھائی بندوں کو آزادی کے نام پر پروٹیسٹنٹ برطانیہ نے کہیں زیادہ جبر کے ساتھ محکوم بنالیا ہے تو ان کا جوش و جذبہ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ ان سیاسی حالات نے نہ صرف وہاں کے جوانوں کو بلکہ شیمس ہینی جیسے تخلیق کار کو بھی متاثر کیا اور وہ حالات کے جبر کے تحت نظمیں تخلیق کرنے لگے۔ دل چسپ با ت یہ ہے کہ آئرستانی ادب آئرلینڈ کو ایک عصمت دریدہ عورت کے طورپر پیش کرنے کا رجحان رکھتا ہے۔ یہ نظم اسی پس منظر میں تخلیق کی گئی ہے۔

ملاپ کا عمل

\"_91359015_heaneyfamily\"دھڑکتی، سانس لیتی ہوئی آج کی رات

جیسے دلدلی زمین پر بارش نے

کیچڑ اور سیلاب کا روپ دھارا ہو

جیسے دلدل پھٹ جائے

جیسے کوئی گہرا گھاو فرنی بچھونا شق کردے

مشرقی ساحل کی مضبوط پٹی

تمھاری پیٹھ ہے

مرحلہ وار پہاڑیوں کے اطراف

تمھاری ٹانگیں اور بازو پھیلے ہوئے ہیں

مجھے اس پرہجوم خطے سے محبت ہے

جہاں ہمارا ماضی جوان ہوا

میں ایک بڑی سلطنت کی مانند\"mrs-heaney\"

تم پر سایہ فگن ہوں

آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہو

نہ تم نظر انداز کرسکتے ہو

ہاں، تسخیر ایک دھوکا ہے

میں تمھارے نیم آزاد ساحل کو تسلیم کرتا ہوں

کہ میں سال خوردہ ہوچکا ہوں

جس کی سرحدوں میں میری وراثت

اب ختم ہونے کو ہے

٭٭٭

لیکن میری سامراجی مردانگی

تاحال قایم ہے

جو تمھیں درد میں تڑپتا چھوڑ کر

نوآبادی کو ریزہ ریزہ کررہی ہے

قلعہ شکن مشین کا دہانہ

اندر کی آگ اگل رہا ہے

سرکش پانچویں صف کو جنم دے کر\"seamus-heaney-with-his-wi-002\"

کارروائی عمل میں آچکی ہے

اس کی پیش قدمی

یک طرفہ طور پر جاری ہے

اس کے دل کی دھڑکن ایک طبلِ جنگ ہے

جو طاقت مجتمع کرتے ہوئے

عین تمھارے دل کے نیچے بج اٹھا ہے

اس کے طفیلی اور ننھے نادان گھونسے

تمھاری سرحدوں پر ضرب لگا چکے ہیں

میں جانتا ہوں

پانی کے اُس پار سے

اس نے مجھے بھی مکا لہراکر دکھایا ہے

مجھے نہیں لگتا کہ

تمھارے پٹری دار، دھاری دار جسم کو

کوئی معاہدہ مکمل تحفظ فراہم کرسکے گا

بلکہ

یہ دردِ عظیم

تمھیں کھلے میدان کی طرح

نامکمل چھوڑ دے گا

(تعارف و ترجمہ: رفیع اللہ میاں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments