پیاسوں کو ٹھنڈا پانی پلانے والے پر کیا بیتی


ان کے مرنے کے بعد مجھے احساس ہوا تھا کہ ان کا سایہ کتنا گہرا تھا، کتنا پکا تھا۔ ایسے میں مجھے نظامانی صاحب نے ہی سہارا دیا تھا۔ شروع میں تو وہ روز ہی ہمارے گھر آ جاتے تھے۔ میرے ساتھ قبرستان جاتے تھے۔ وہاں سے مجھے اپنے گھر لے آتے تھے۔ وہاں میں ان کے گھر والوں کے ساتھ ہی کھانا کھاتا تھا۔ ان سے گھنٹوں ابا جی کی باتیں کرتا تھا اور گھر چلا آتا تھا۔ آہستہ آہستہ کچھ ان کے سہارے سے کچھ مصروفیات کی بناء پر کچھ اماں بی کی وجہ سے میں اس دنیا میں واپس آ گیا تھا جہاں ابا جان کے بغیر رہنا تھا۔ ابا جان نے کے پی ٹی میں کام کرتے ہوئے ہی گلشن اقبال میں ایک مکان بنوا لیا تھا جس کے بعد کیماڑی سے ہم لوگ وہاں منتقل ہو گئے تھے۔ شروع شروع میں تو نظامانی صاحب بھی آتے رہے۔ میں بھی ان کے گھر جاتا تھا مگر آہستہ آہستہ یہ آنا جانا ختم ہو گیا تھا۔ زندگی مصروف تھی اور وہ بوڑھے ہو گئے تھے۔

میری شادی ہو گئی، میرا انجینئر بھائی امریکا چلا گیا تھا اور وہاں ہی اس نے ایک پاکستانی لڑکی سے شادی بھی کرلی۔ بھائی جان زیادہ اپنی فوج کی مصروفیت کی وجہ سے پنجاب ہی میں تعینات رہتے تھے۔

میں اکاؤنٹنگ کی ایک فرم میں اچھے عہدے اور اچھی تنخواہ پر کام کر رہا تھا اور زندگی مناسب ہی گزر رہی تھی کہ نہ جانے شہر کو کیا ہو گیا۔ ہنگامے شروع ہو گئے۔ کبھی پٹھان مہاجر کا جھگڑا، کبھی شیعہ سنی کا فساد، کبھی اردو اور سندھی کا مسئلہ، کبھی پنجابی مہاجر کی تکرار اور کبھی سندھی مہاجر کی جنگ۔ ایسا ہو گا، کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ عمر کے اس مرحلے پر پاکستان کے ٹکڑے ہونے کے بعد تو ہمیں کافی عقل آ جانی چاہیے تھی۔ ہم سب چاہتے تھے کہ یہ سب کچھ نہ ہو مگر یہی سب کچھ ہو رہا تھا۔ شہر کو جیسے اندر سے ہولے ہولے دیمک کھا رہی تھی۔ چپکے چپکے آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہوتا جا رہا تھا۔

مجھے وہ دن یاد تھے جب میں چھوٹا تھا، بہت چھوٹا۔ ابا جان کے ساتھ سٹی اسٹیشن سے نکل کر مہاجر کیمپ پہنچا تھا اور شدید گرمی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی تھی مگر کیمپ میں لوگوں کے جوش و خروش اور گرم جذبات نے ماحول کو خوبصورت بنا رکھا تھا۔ وہ سارے چہرے میری نظروں کے سامنے ایک کے بعد ایک کر کے آتے تھے۔ کیا ہو گیا تھا لوگوں کو، ان کے بچوں کو مہاجروں کو کراچی میں رہنے والے دوسرے لوگوں کو۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کون ہے ذمہ دار؟ کون ہے ذمہ دار؟ میں اور میرے جیسے لوگ کراچی میں یہی سوچتے رہے ہیں اور شاید سوچتے رہیں گے۔

اس دن شام کو میں بہت دنوں کے بعد نظامانی صاحب سے ملنے جوڑیا بازار چلا گیا تھا۔ دریا لال اسٹریٹ سے آگے بھگوان داس بلڈنگ میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ایک غیرمعمولی سی خاموشی۔ دوسری منزل پر ان کے فلیٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ہلکا ہلکا سا اندھیرا ہو رہا تھا۔ میں دروازے کو دھکا دے کر اندر چلا گیا، پہلا کمرہ خالی تھا، دوسرے کمرے میں نظامانی صاحب ان کی بیوی اور بیٹی زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔

مجھے دیکھ کر وہ کھڑے ہو گئے۔ مجھ سے ہاتھ ملایا۔ گلے سے لگایا، مجھے ایسا لگا، جیسے ان کی عمر ایک دم سے دوگنی ہو گئی ہے۔ کپکپاتے ہوئے ہاتھ۔ مجھے افسوس ہوا تھا کہ کیوں اتنے دنوں کے بعد آیا ہوں۔ وقت نے انہیں بہت بوڑھا کر دیا تھا۔ کمرے میں عجیب طرح کی خاموشی تھی۔ میں سمجھ نہیں سکا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، مجھے غیر معمولی پن کا تو احساس ہو گیا تھا مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ بات کیا ہے۔

نظامانی صاحب مجھے غور سے دیکھ رہے تھے، دیکھتے رہے تھے، ان کی بیٹی نے میری طرف دیکھا تک نہیں تھا، جب کہ عام طور پر بہت اخلاق سے مجھے بھائی کہہ کر ملتی تھی۔ اس نے نظامانی صاحب کے ہاتھوں کو پکڑ کر دبایا اور آہستہ سے کچھ کہا تھا اور اندر چلی گئی تھی۔

تھوڑی دیر بعد خود ہی نظامانی صاحب آہستہ سے بولے تھے۔ ”معلوم ہے مہاجروں کی پہلی ٹرین لاہور، ملتان بہاولپور سے گزر کر جب کراچی کے سٹی اسٹیشن پہنچی تھی تو میں نے کیا کیا تھا؟ میں نے برف خریدی تھی اور بالٹیوں میں پانی بھر کر اپنے دوست خدا بخش سومرو کے ساتھ مہاجروں کو ٹھنڈا پانی پلانے گیا تھا۔ اور آنے والے لٹے ہوئے لوگوں کو پانی پلایا تھا ہم لوگوں نے۔ ہم غریب تھے۔ کچھ نہیں تھا ہمارے پاس۔ ایک ایک دو دو پیسے جمع کر کے برف کے لئے پیسے کیے تھے ہم لوگوں نے۔ پر ہمیں ایسا لگا تھا جیسے اندر ہمارے دلوں کے اندر ٹھنڈک پڑ رہی ہے۔ وہ اچھا دن ابھی تک یاد ہے مجھے۔ پھر تمہارے ابا جان سے ملا تھا۔ ہیرا جیسا آدمی تھا تیرا باپ۔“ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ میں نہیں سمجھا کہ وہ یہ سب کیوں کہہ رہے ہیں۔

پھر وہ رک رک کر بولے۔ ”میں نے کبھی بھی برا نہیں کیا تھا کسی کے ساتھ۔ پھر ایسا کیوں ہو گیا میرے ساتھ۔ کیوں ہو گیا؟“

ان کے چہرے پر سفید داڑھی کو تر کرتے ہوئے آنسو گر رہے تھے۔ ”ان لوگوں نے میرے دونوں بیٹے مار ڈالے۔ میرے دونوں جوان بیٹے مار ڈالے۔ کسی نے میرے پلائے ہوئے پانی تک کا پاس نہیں کیا۔ جن کو سلگتی دھوپ میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پانی پلاتا رہا تھا۔ جن کے سروں کے سائے کے لئے بے قرار تھا ان کے بچوں نے مجھے بے سایہ کر دیا ہے، بے گھر کر دیا ہے۔ میرے بچے مار ڈالے، میرے بچے مار ڈالے۔“

یکایک میرے پورے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی تھی اور دماغ پر جیسے ہزاروں بجلیاں ایک ساتھ چمکی تھیں۔ میری نظر کے سامنے دو دن پہلے کے اخبار یکایک کوند کر آئے تھے۔ عوام قومی اخبار، جنگ، دو سندھی بھائیوں کو اغوا کر کے تشدد کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔ دونوں کی نعشیں ریل کی پٹری کے ساتھ ملی تھی، جسم پر تشدد کے نشان تھے اور سر پر سوراخ۔

مجھے ایسا لگا کہ وہ نعشیں ریل کی پٹری کے بجائے میرے سامنے پڑی ہیں اور ان کے سر کے سوراخ میں سے پانی نکل رہا ہے، برف کی طرح ٹھنڈا پانی۔ جو میرے پورے وجود کو یخ بستہ کر رہا ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2