واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب


دو فروری کے کالم میں اس کالم نگار نے لکھا تھا: ’’عجم کے ساتھ جنگ آزمائی سے پہلے امیرالمومنین عمر فاروقؓ حسرت سے کہا کرتے تھے کہ کاش آگ کا پہاڑ ہمارے اور ان کے درمیان ہوتا۔ وہ ادھر رہتے اور ہم اس طرف۔ تو کیا امیرالمومنینؓ عجم کی قوت سے خائف تھے نہیں! وہ جنگ کی ہولناکیوں سے اپنے عوام کو ہر ممکن حد تک بچانا چاہتے تھے۔‘‘

اس پر کمنٹ کیا گیا کہ ’’موصوف کا یہ تجزیہ حضرت عمرؓ پر اتنی بڑی تہمت اور بہتان ہے بلکہ انہیں فلسفہ جہاد و قتال سے نفرت کا علم بردار ثابت کرنے کی ایک بھونڈی سی کوشش ہے۔‘‘ اس الزام کے علاوہ ’’مادہ پرست، ظالم، بے حس، بزدل، فریب خوردہ، مرعوب، خوف زدہ کے اسمائے صفت بھی فیاضی سے استعمال کئے گئے۔

اس سطح پر جواب دینا توممکن نہیں۔ ہاں دلیل سے اور حوالہ جات سے واضح کیا جائے گا کہ جو کہا گیا وہ درست ہے یا نہیں؟ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’الفاروق‘‘ میں یہی کچھ کہا جو اس کالم نگار نے تحریر کیا۔ صرف کتاب کا نام لکھنا کافی نہ سمجھتے ہوئے سال اشاعت اور صفحہ نمبر بھی بیان کیا جارہا ہے۔

ہمارے سامنے ’’الفاروق‘‘ کا جو نسخہ ہے اسے دارالاشاعت اردو بازار کراچی نے شائع کیا ہے۔ سال اشاعت 1991ء ہے۔ صفحہ 150 ہے۔ باب کا عنوان ہے۔ ’’ایران پر عام لشکر کشی 21 ہجری‘‘ شبلی نعمانی لکھتے ہیں: ’’اس وقت تک حضرت عمرؓ نے ایران کی عام تسخیر کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اب تک جو لڑائیاں ہوئیں وہ صرف اپنے ملک کی حفاظت کے لیے تھیں۔

عراق کا البتہ ممالک محروسہ میں اضافہ کیا گیا تھا۔ لیکن وہ درحقیقت عرب کا ایک حصہ تھا۔ کیونکہ اسلام سے پہلے اس کے ہر حصے میں عرب آباد تھے۔ عراق سے آگے بڑھ کر جو لڑائیاں ہوئیں، وہ عراق کے سلسلہ میں خودبخود پیدا ہوتی گئیں۔ حضرت عمرؓ خود فرمایا کرتے تھے کہ ’’کاش ہمارے اورفارس کے بیچ میں آگ کا پہاڑ ہوتا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کرسکتے نہ ہم ان پر چڑھ کر جا سکتے۔‘‘ لیکن ایرانیوں کو کسی طرح چین نہیں آتا تھا۔

وہ ہمیشہ نئی فوجیں تیار کر کے مقابلے پر آتے تھے اور جو ممالک مسلمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے وہاں غدر کروا دیا کرتے تھے۔ نہاوند کے معرکے سے حضرت عمرؓ کو اس پر خیال ہوا اور اکابر صحابہؓ کو بلا کر پوچھا کہ ممالک مفتوحہ میں بار بار بغاوت کیوں ہوتی ہے۔ لوگوں نے کہا جب تک یزد گرد ایران کی حدود سے نکل نہ جائے، یہ فتنہ فرو نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جب تک ایرانیوں کو یہ خیال رہے گا کہ تخت کیان کا وارث موجود ہے اس وقت تک ان کی امیدیں منقطع نہیں ہو سکتیں۔

اس بنا پر حضرت عمرؓ نے عام لشکر کشی کا ارادہ کیا۔‘‘ شبلی نعمانی کی اس تحریر سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آگ کے پہاڑ والی بات امیرالمومنینؓ نے ’’ایران کی تہذیبی یلغار سے متعلق‘‘ نہیں فرمائی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران پر حملہ مسلمانوں کی دفاعی جنگ تھی۔ حضرت عمرؓ یہ جنگ نہیں چاہتے تھے۔ مگر مجبوری یہ تھی کہ ایرانی مسلمانوں کے علاقوں میں مسلسل فتنہ انگیزی کر رہے تھے۔

اس فتنہ انگیزی کا علاج اکابر صحابہؓ کے مشورے سے یہ طے پایا کہ ایرانیوں کا اور یزد گرد کا مکمل قلعہ قمع کیا جائے۔ امیرالمومنین عمر فاروقؓ پر، شبلی کی الفاروق کے بعد، دوسری مشہور ترین تاریخ محمد حسین ہیکل کی تصنیف ’’عمر فاروق اعظم‘‘ ہے۔ یہاں یہ وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ یہ محمد حسین ہیکل ہیں۔ حسنین ہیکل نہیں۔ موخرالذکر صحافی تھے اور الاہرام کے مدیر۔ جبکہ اول الذکر یعنی محمد حسین ہیکل صحافی ہونے کے علاوہ مورخ بھی تھے۔ ان کی تصانیف ’’حیات محمدؐ‘‘ اور ’’ابوبکرصدیق اکبرؓ‘‘ بھی مشہور ہیں۔

عمر فاروق اعظم ؓ کا ترجمہ حکیم حبیب اشعر دہلوی نے کیا ہے۔ جیساکہ اپنے قارئین سے یہ بات پہلے بھی شیئر کی جا چکی ہے۔ یہ ترجمہ بذات خود ایک ادبی شاہکار ہے۔ حکیم صاحب مرحوم نے اس روانی اور ایسے اسلوب خاص سے عربی کو اردو میں ڈھالا ہے کہ یہ طبع زاد تصنیف لگتی ہے۔

ایک روایت یہ ہے کہ یہ ترجمہ مولانا ابوالخیر مودودی نے کیا۔ یا حکیم صاحب نے ان سے استفادہ کیا مگر اس روایت کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ہمارے سامنے اس کتاب کا جو نسخہ ہے وہ ’مکتبہ میری لائبریری لاہور‘‘ سے بشیر احمد چوہدری نے 1987ء میں شائع کیا ہے۔

صفحہ 359 پر پندرھویں باب کا آغاز ہوتا ہے۔ باب کا عنوان ’’ایرانی فتوحات میں توسیع‘‘ ہے۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’حضرت عمرؓ کی سیاست یہ تھی کہ فتوحات کے قدم عراق و شام کی حدود میں رک جائیں۔ ان سے آگے نہ بڑھیں۔‘‘ آگے چل کر رقم طراز ہیں: ’’فتح مدائن کے بعد جب حضرت سعد ؓ بن وقاص نے ان سے پہاڑوں کے اس طرف ایرانیوں کا تعاقب کرنے کی اجازت چاہی تو حضرت عمرؓ نے جواب میں تحریر فرمایا ’’کاش! سواد اور پہاڑ کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہو جائے کہ نہ وہ ہماری طرف آ سکیں اور نہ ہم ان کی طرف جا سکیں۔

ہمارے لیے سواد کی شاداب زمینیں کافی ہیں۔ میں مسلمانوں کی سلامتی کو مال غنیمت پر ترجیح دیتا ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ اپنی اس سیاست میں بالکل پر خلوص تھے اور درحقیقت یہ اسلامی سیاست میں ایک نیا قدم تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی انتہائی خواہش تھی کہ جزیرۃ العرب اور اس کی سرحدیں اتنی محفوظ ہو جائیں کہ ایران اور روم اس پر چڑھائی نہ کرسکیں۔

آپؐ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کسریٰ اور قیصر اور مصر و شام و عراق کے فرماں روائوں کو جنگ و پیکار کے بغیر اسلام کی توفیق ارزانی فرمائے اور یہی حضرت ابوبکرؓ کی سیاست تھی … اس سے آگے جو روم و ایران کی سرزمین تھی اس پر چڑھائی کرنے اور فتح پانے کی کوئی تمنا پہلے اور دوسرے خلیفہ کے دل میں نہ تھی۔‘‘ ’’میری لائبریری‘‘ کا یہ ایڈیشن اب نایاب ہے۔

قارئین کی سہولت کے لیے، تاکہ وہ الزام اور حقیقت کے درمیان فرق کرسکیں، اس نئے ایڈیشن کا حوالہ بھی یہاں دیا جاتا ہے جو آج کل بازار میں دستیاب ہے۔ ’’عمر فاروق اعظم‘‘ کا یہ ترجمہ جو حبیب اشعر نے کیا، نئے سرے سے اب بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے۔

یہ اقتباس اس کے صفحہ 382 پر درج ہے۔ تو کیا شبلی نعمانی اور محمد حسین ہیکل نے بھی حضرت عمرؓ پر تہمت اور بہتان لگایا ہے؟ اور کیا ان دونوں مورخین نے بھی ’’انہیں فلسفہ جہاد و قتال سے نفرت کا علم بردار ثابت کرنے کی ایک بھونڈی سی کوشش‘‘ کی ہے؟

پھر جب حالات تبدیل ہوئے، اور امیرالمومنین نے دیکھا کہ ایرانی مسلسل سازشیں کرکے مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں میں شورشیں برپا کروا رہے ہیں تو اکابر مسلمانوں سے مشورہ کرنے کے بعد آپ نے اس خطرے کے مکمل استیصال کا ارادہ کرلیا۔ پھر آپ نے پوری قوت اور عزم صمیم کے ساتھ جہاد کا حکم دیا۔ مدینۃ النبی میں بیٹھ کررات دن نگرانی کی۔ قاصدوں کا شدت سے انتظار کرتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر آپ قاصد کے ساتھ ساتھ دوڑتے رہے اور بے تابی کے ساتھ حالات پوچھتے رہے۔

اختلاف کرنا ہر شخص کا حق ہے مگر اختلاف دوسروں کو ’’ظالم، بے حس، بزدل، فریب خوردہ، مرعوب اور خوف زدہ‘‘ کہے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے۔ گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی نہیں سوچ سکتا کہ خلیفہ راشد ؓ پر بہتان باندھے یا تہمت لگائے یا نعوذباللہ انہیں ’’فلسفہ جہاد سے نفرت کا علم بردار‘‘ ثابت کرے۔

پڑھنے والے سچ اور غلط کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔ بہرطور یہ کالم نگار اس امر سے خدا کی پناہ مانگتا ہے کہ دوست تو دوست، کسی دشمن کے لیے بھی ایسے الفاظ استعمال کرے جس سے اس کی دل آزاری ہو۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).