بوٹا سنگھ اور زینب کی محبت –


یہ آزادی کے موسم میں محبت کے قید ہونے کی کہانی ہے۔

بوٹا سنگھ نام کا ایک پچپن سالہ سکھ دوسری عالمی جنگ میں ماﺅنٹ بیٹن کے تحت فوج میں نوکری کر چکا تھا۔ برما کے شعلہ زار محاذ کا سرد گرم چشیدہ بوٹا سنگھ تقسیم ہند کے دنوں میں کھیتی باڑی کر کے گزر اوقات کر رہا تھا۔ ستمبر 47ء کی ایک شام وہ اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا ۔اچانک ایک عورت کی خوفزدہ چیخوں نے اسے چونکا دیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا ایک جانا پہچانا سکھ کسی لڑکی کے پیچھے لپکتا چلا آرہا تھا۔ لڑکی بوٹا سنگھ کے پیروں سے لپٹ کر گڑگڑانے لگی ”بچاﺅ ۔ مجھے بچاﺅ ۔“ بوٹا سنگھ سہمی ہوئی لڑکی اور خونخوار سکھ کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ معاملہ سمجھنے میں اسے دیرنہیں لگی۔ وہ لڑکی مسلمان تھی اور سکھ نے اسے قریب سے گزرتے ہوئے کسی مہاجر قافلے سے اڑا لیا تھا۔

بوٹا سنگھ نے شادی نہیں کی تھی۔ اول تو اس کا خاندان اتنا غریب تھا کہ شادی کا خرچ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ بوٹا سنگھ فطرتاً کسی قدر شرمیلا تھا۔ پھر بھی اسے سوکھے پتے کی طرح کانپتی اس بے سہارا لڑکی پر رحم آ رہا تھا ۔

بوٹا سنگھ نے فساد پر آمادہ سکھ سے پوچھا۔ ” بولو ! اسے میرے حوالے کرنے کا کیا لو گے؟ “

 ”صرف پندرہ سو! “ جواب ملا۔

بوٹا سنگھ نے کوئی بھاﺅ تاﺅ نہ کیا۔ اس نے بڑی مشکل سے پندرہ سو روپے اکھٹے کر رکھے تھے۔ ان روپیوں سے اسے نہ جانے کیا کیا کام کرنا تھے۔ لیکن ستمبر کی اس شام بوٹا سنگھ سب کچھ بھول چکا تھا۔ اس نے گھر پہنچ کر روپوں کی تھیلی نکالی اور سکھ بلوائی کے ہاتھ میں تھما دی۔

بوٹا سنگھ نے پندرہ سو روپوں سے جو لڑکی خریدی تھی اس کی عمر صرف سترہ برس تھی یعنی اس سے اڑتیس سال چھوٹی۔ اس کا نام زینب تھا اور وہ راجستھان کے ایک غریب خاندان کی لڑکی تھی۔ تنہائی سے اکتایا ہوا بوٹا سنگھ اس پر فریفتہ ہو گیا۔

بوٹا سنگھ کے لیے زینب بیوی بھی تھی اور سنگی ساتھی بھی۔ اسے تو گویا ایک زندہ کھلونامل گیا تھا ۔ زینب کے آنے سے بوٹا سنگھ کی زندگی میں انقلاب آگیا۔ سنگار اور پہننے اوڑھنے کی جتنی بھی چیزیں مہیا ہو سکتی تھیں۔ بوٹا سنگھ نے زینب کے سامنے ان کا ڈھیر لگا دیا۔

زینب کو بوٹا سنگھ سے ایسی شرافت اور رحمدلی کی توقع نہیں تھی۔ گھر چھوڑ کر اپنے خاندان کے ساتھ نئے وطن کے سفر پر نکلنے والی زینب کسی طرح قافلے سے بچھڑ کر ہندو بلوائیوں کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔ ہندوﺅں نے زینب کو بری طرح مارنے پیٹنے کے علاوہ اس کی عزت بھی لوٹی تھی۔ ایسی لڑکی کو بوٹا سنگھ نے جنت کی حور مان لیا ۔ سترہ برس کی معصوم لڑکی موم بن کر پگھل گئی۔ بہت جلد زینب بوٹا سنگھ کی زندگی کا محور بن گئی ۔

زینب صبح سے شام تک بوٹا سنگھ کے ساتھ کھیت پر کام کرتی۔ رات کو وہ ساتھ ساتھ سو جاتے۔ آخر بوٹا نے زینب سے باقاعدہ شادی کر لی۔ کچھ ہفتوں کے بعد زینب نے بوٹا سنگھ کو بتایا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ بوٹا سنگھ کی باچھیں کھل گئیں۔ زینب اور بوٹا سنگھ دونوں نے محسوس کیا کہ زندگی کی خوشیوں کے دروازے ان کے لیے کھلنے والے ہیں۔

بوٹا سنگھ نے زینب کو پندرہ سو روپے میں خرید کر اس کی جان بچائی تھی۔ اس کے بعد اس نے سکھوں کے رسم و رواج کے مطابق باقاعدہ اس سے شادی کر کے اپنی بیاہتا بیوی بنا کر رکھا تھا۔ شادی کے گیارہ مہینے کے بعد زینب ایک لڑکی کی ماں بنی۔ بوٹا سنگھ نے اس کا نام ”تنویر“ رکھا۔

چند سالوں کے بعد بوٹا سنگھ کے کچھ رشتہ داروں نے فسادات کے زمانے میں اغوا کی ہوئی لڑکیاں اور عورتیں تلاش کرنے پر مامور افسروں کو اس واقعے کی اطلاع دے دی ۔ وجہ یہ تھی کہ بوٹا سنگھ اور زینب کی شادی کے نتیجے میں یہ رشتہ دار بوٹا سنگھ کی جائیداد کے وارث بننے سے محروم ہو گئے تھے۔

زینب کو بوٹا سنگھ سے چھین لیا گیا اور پاکستان میں اس کے رشتہ داروں کی تلاش شروع ہوئی۔ عارضی طور پر زینب کو ایک کیمپ میں رکھا گیا۔

بوٹا سنگھ کی دنیا اجڑ گئی۔ وہ فوراً دہلی چلا گیا۔ اس کے بعد اس نے وہ کام کیا جو کسی سکھ کے لیے بہت مشکل ہو تا ہے۔ اس نے اپنے لمبے بال کٹوا دیئے۔ جامع مسجد جا کر اسلام قبول کیا۔ اس کا نیا نام جمیل احمد رکھا گیا۔

اس تبدیلی کے بعد بوٹا سنگھ پاکستان ہائی کمیشن پہنچا اور اپنی بیوی کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگا لیکن اس کا یہ مطالبہ نامنظور کر دیا گیا کیونکہ دونوں ملک معاہدے کی اس شرط کی سختی سے پابندی کر رہے تھے کہ اغوا شدہ عورت خواہ کسی مذہب کے آدمی کے پاس سے برآمد ہو اور وہاں وہ خواہ کسی حیثیت سے رہ رہی ہو‘ اسے فوراًکیمپ پہنچا دیا جائے اور جب اس کے خاندان کا پتہ چل جائے تو اسے لے کر وہاں چھوڑ دیا جائے۔

چھ مہینے تک بوٹا سنگھ روز اپنی بیوی سے ملنے کیمپ جاتا تھا۔ آخر وہ دن آ گیا جب پاکستان میں زینب کے رشتہ داروں کا پتہ چل گیا۔ رخصت ہوتے وقت بوٹا سنگھ اور زینب ایک دوسرے سے رو رو کر ملے۔ زینب نے قسم کھائی کہ وہ اپنے شوہر اور بچی کے ساتھ رہنے کے لیے بہت جلد واپس آئے گی۔

 بوٹا سنگھ نے ایک مسلمان کی حیثیت سے پاکستان ہجرت کرنے کی اجازت مانگی۔ اس کی درخواست نامنظور کر دی گئی۔ اس نے ویزا مانگا جواسے نہیں ملا۔ ہار کر بوٹا سنگھ نے اپنی بچی کو ساتھ لیا جس کا نیا نام سلطانہ رکھا گیا تھا اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو گیا۔ سلطانہ کو لاہور میں چھوڑ کر وہ اس گاﺅں کو روانہ ہوا جہاں زینب کے خاندان نے سکونت اختیار کی تھی۔ وہاں پہنچ کر بوٹا سنگھ کے دل کو انتہائی شدید صدمہ پہنچا۔ ہندوستان سے ٹرک میں بیٹھ کر زینب پاکستان کے اس گاﺅں میں پہنچی ہی تھی کہ چند گھنٹوں کے اندر اس کی شادی دور کے ایک رشتہ دار سے کر دی گئی۔ بیچارہ بوٹا سنگھ روتا پیٹتا رہ گیا۔ ”میری بیوی مجھے واپس کر دو۔ میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔“

زینب کے بھائیوں اور رشتہ داروں نے مل کر بوٹا سنگھ کو بری طرح مارا پیٹا اور پولیس کے حوالے کر دیاکہ یہ بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے پاکستان میں داخل ہوا ہے۔

عدالت میں بوٹا سنگھ نے گڑگڑا کر کہا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کی بیوی اسے واپس کر دی جائے۔ اگر اسے ایک بار بیوی سے ملنے کا موقع دیا جائے تو وہ خود یہ پوچھ کر تسلی کر لے گا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ رہنے کے لیے ہندوستان واپس جائے گی یا وہ اپنی مرضی سے پاکستان میں رہنا چاہتی ہے۔

اس کی رقت آمیز التجا سے متاثر ہو کر عدالت نے اس کی درخواست منظور کر لی اور ایک ہفتہ بعد زینب کو عدالت میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ اخباروں کے ذریعہ اس معاملے کی خبر پھیل چکی تھی اور جب معینہ تاریخ پر زینب عدالت میں لائی گئی تو وہ بری طرح سہمی ہوئی تھی۔ اسے اپنے بہت سے رشتہ داروں کے ہجوم میں جج کے سامنے حاضر ہونا پڑا۔

جج نے بوٹا سنگھ کی طرف اشارہ کیا — ”کیا تم اسے جانتی ہو؟“

زینب نے کانپنی ہوئی آواز میں جواب دیا ”ہاں! یہ بوٹا سنگھ ہے۔ میرا پہلا شوہر“۔ زینب نے اپنی لڑکی کو بھی پہچانا۔

”کیا تم ان لوگوں کے ساتھ ہندوستان واپس جانا چاہتی ہو؟“

زینب کا جواب سننے کے لیے عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ ایک طرف بوٹا سنگھ اور اس کی بچی کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ دوسری طرف اس کا موجودہ شوہر اور اس کے تمام رشتہ دار اس کی طرف آنکھیں لگائے ہوئے تھے۔

زینب نے سر ہلایا اور دھیرے سے کہا — ”نہیں؟“

اس کے رشتہ داروں نے زینب کو سمجھا دیا تھاکہ بوٹا سنگھ سکھ ہے اور سکھ ہی رہے گا۔ اس نے اگر اسلام کے خلاف ایک لفظ نکالا تو اس کے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔

زینب کی زبان سے انکار سن کر بوٹا سنگھ کے پیروںتلے زمین سرک گئی۔ وہ جس امید کی کرن کی تلاش میں اپنا ملک اور مذہب چھوڑکر یہاں تک چلاآیا تھا وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ وہ اس بری طرح لڑکھڑایا کہ اسے عدالت کے جنگلے کا سہارا لینا پڑا۔ جب اس نے اپنے آپ کو سنبھالا تو بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر زینب کی طرف بڑھا۔

”ٹھیک ہے …. لیکن میں تم سے تمہاری بیٹی نہیں چھین سکتا۔ میں اسے تمہارے سپرد کیے جاتا ہوں“۔ اس نے اپنی جیب سے سارے نوٹ نکال کر اپنی بیٹی کی جیب میں ڈال دیئے۔ اس نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”میری زندگی میں اب کیا رہ گیا ہے“۔

جج نے زینب سے پھر پوچھا کہ کیا وہ اپنی بیٹی کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتی ہے۔ عدالت میں موجود زینب کے رشتہ داروں نے غصہ میں سر ہلا دیا۔ وہ اپنے خاندان میں سکھ کا خون نہیں چاہتے تھے۔

زینب سہم گئی۔ اس نے اچٹتی ہوئی نگاہ اپنی بچی پر ڈالی۔ بچی کو ساتھ رکھنے کامطلب یہ ہوتا کہ بے چاری ساری زندگی طعنے سنتی رہے۔ اسے اتنا ستایا جائے گا جس کا کوئی حساب نہ ہو گا۔ زینب کا سارا وجود سسکیوں میں ڈوبا جا رہا تھا۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

”نہیں“

اب بوٹا سنگھ کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی دھار بہہ نکلی۔ چند لمحوں تک وہ اپنی بیوی کو دیکھتا رہا جس کی آنکھیں آنسوﺅں سے نم تھیں۔ بوٹا سنگھ اس چہرے کو ہمیشہ کے لیے اپنے آنکھوں میں بسا لینا چاہتا تھا۔

اس نے بڑے پیار سے اپنی بچی کو گود میں اٹھا لیا اور بغیر کچھ کہے اور بغیر کسی کی طرف دیکھے وہ عدالت سے نکل گیا۔ بوٹا سنگھ کا دل ہمیشہ کے لیے ٹوٹ چکا تھا۔ وہ رات اس نے داتا گنج بخش کی درگاہ میں رونے اور دعائیں مانگنے میں گذاری۔ اس کے قریب ایک کھمبے کے پاس اس کی بچی سو رہی تھی۔

جب صبح ہوئی تو بوٹا سنگھ بچی کو بازار لے گیا۔ پچھلے دن دوپہر کو اس نے جو روپے بچی کے جیب میں بھر دیئے تھے‘ ان سے اس نے بچی کے لیے نئے کپڑے خریدے اور پہنا دیئے۔ سنہری کامدار جوتیاں بھی خرید کر پہنا دیں۔

ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے باپ بیٹی قریب کے ریلوے اسٹیشن کی طرف چلے۔

پلیٹ فارم کی طرف بڑھتی ہوئی گاڑی کی سیٹی دور سے سنائی دی۔

بوٹا سنگھ نے بے حد پیار سے بیٹی کو اٹھایا اور چوم لیا۔ اسے گود میں بھر کر بوٹا سنگھ پلیٹ فارم کے کنارے کھڑا ہو گیا۔ بھاپ کے بادل اڑاتا ہوا انجن جھپٹا چلا آرہا تھا۔

 بچی نے محسوس کیا کہ بوٹا سنگھ کی گرفت اس پر زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔

بوٹا سنگھ نے بچی کے ساتھ اچانک انجن کے سامنے چھلانگ لگا دی لیکن بچی سامنے کی طرف گر گئی۔ اس نے انجن کی سیٹی اوراس کا بھیانک شور سنا جس میں اس کی اپنی چیخیں شامل تھیں۔ اگلے لمحہ وہ انجن کے نیچے پڑی تھی۔

بوٹا سنگھ فوراً مر گیا۔ لیکن معجزاتی طور پر بچی کے بدن پر ایک خراش تک نہیں آئی۔ بوٹا سنگھ کی خون میں لت پت لاش سے پولیس کو وہ الوداعی خط ملا جو اس نے اپنی بیوی کے نام لکھا تھاجس نے اسے ٹھکرا دیا تھا۔

”میری پیاری زینب‘

تم نے ہجوم کی آواز سنی لیکن ایسی آواز کبھی سچی نہیں ہوتی۔ اب بھی میری آخری خواہش یہ ہے کہ تمہارے ساتھ رہوں۔ مجھے تم اپنے ہی گاﺅں کے قبرستان میں دفن کرنا اور کبھی کبھی آکرمیری قبر پر پھول چڑھا دیا کرنا“۔

بوٹا سنگھ کی خودکشی نے سارے پاکستان کو ہلا دیا اس کے جنازے کو ایک اہم واقعہ کی حیثیت حاصل ہوئی۔

نہ صرف زینب کے خاندان نے بلکہ اس کے گاﺅں کے سب لوگوں نے اپنے قبرستان میں بوٹا سنگھ کی تدفین کی اجازت نہیں دی۔ گاﺅں کے مردوں نے جن کی قیادت زینب کا دوسرا شوہرکر رہا تھا‘ 22 فروری 1957ءکو گاﺅں کے باہر بوٹا سنگھ کا جنازہ روک دیا۔

بوٹا سنگھ کی المناک قربانی سے متاثر ہو کر ہزاروں مسلمان اس کے جنازے کے ساتھ  گاﺅں میں آئے تھے۔ افسروں نے ہدایت کی کہ وہ جھگڑا فساد کرنے کے بجائے بوٹا سنگھ کو لاہور میں دفن کریں۔

لاہور میں اس کی قبر پر لوگوں نے اتنے پھول چڑھائے کہ پھولوں کے ڈھیر لگ گئے۔

بوٹا سنگھ کو اتنی زیادہ عزت ملنا زینب کے خاندان والوں کو گوارا نہیں ہوا۔ انہوں نے ایک گروہ لاہور بھیجا جس نے بوٹا سنگھ کی قبر کو نہ صرف توڑا پھوڑا بلکہ اسے ناپاک بھی کر دیا۔ اس وحشیانہ حرکت سے سارے لاہور کے لوگ سناٹے میں آگئے۔ لاہور والوں نے بوٹا سنگھ کو دوبارہ دفن کیا اور اس کی قبر کو ایک بارپھر پھولوں کے پہاڑ سے ڈھک دیا۔ اس بار سینکڑوں مسلمان اس کی قبر کی حفاظت کے لیے تعینات ہو گئے۔ بوٹا سنگھ کی بیٹی سلطانہ کو لاہور کے ایک خاندان نے منہ بولی بیٹی بنا کر پالا۔ اب وہ اپنے انجینئر شوہر اور تین بچوں کے ساتھ لیبیا میں رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments