لکھنوی بیگمات کی شاعری


\"aasem-bakhshi\"

اچھی طرح یاد نہیں، شاید پچھلے سال کی بات ہے، ایک دن پروفیسر عزیز ابن الحسن صاحب کی فون کال آئی کہ ایک دو گھنٹے کے اندر اندر اردو ادب کی ایسی دو تین خواتین کے بارے میں مثالوں کے ساتھ دو چار سطریں لکھی ہوئی درکار ہیں جن کا تعلق اردو ادب کے قدیم ترین زمانوں سے ہو۔ ان دنوں اتفاق سے برادر بزرگ قبلہ سلمان آصف صاحب سے واجد علی شاہ اختر کی بیگم مشغلۃ السلطان نواب آبادی جان بیگم کے خطوط عاریتاً کاپی کروانے کے لئے لایا ہوا تھا۔ بس فوراً اس کا ایک مزیدار اقتباس اور چند سوانحی سطریں درج کر دیں اور باقی ایک دو مثالیں ایک آدھ اور کتاب اور ریختہ وغیرہ سے تلاش کیں۔ ابھی کچھ پرانی فائلیں ڈلیٹ کر رہا تھا کہ بکھری ہوئی دلچسپ معلومات لئے یہ تحریر سامنے آ گئی۔ چونکہ ایک طرف عزیزم عامر منیر ’’صرصر سپیشل: گلدستہ اقتباسات از داستان طلسم ہوشربا‘‘ پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف برادرم عاطف حسین بھی کچھ اسی قسم کے مشاغل میں مصروف ہیں تو خیال آیا کہ یہ تحریر بھی ایک ضمیمے کے طور پر یہاں پیش کر دی جائے۔


1۔ ماہ لقاء چندا (1768۔ 1834)

مختصر سوانح۔ نام چندا بی بی، ماہ لقا بائی خطاب، چندا تخلص۔ 18؍اپریل 1768ء کو حیدرآباد (دکن) میں پیدا ہوئی۔ ایک خوبصورت طوائف تھی جسے موسیقی میں خاص دستگاہ حاصل تھی۔ اکثر تذکرہ نویس شیر محمد خاں ایمان کا شاگرد بتاتے ہیں جبکہ میر عالم بہادر اسے اپنا شاگرد کہا کرتے تھے۔ ماہ لقا نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ یہ ہمیشہ سیکڑوں سپاہیوں کے باڈی گارڈ کے آگے اسلحہ لگائے گھوڑے پر سوار سیروتفریح کو نکلا کرتی تھی۔ اردو کی یہ پہلی دیوان شاعرہ ہے۔ وفات 34۔ 1833ء حیدرآباد(دکن)۔

\"lucknow

(بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)، محمد شمس الحق، صفحہ:117)

چند نمائندہ شعار۔

کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوفِ خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لئے بیٹھی ہے

چھپایا رازِ محبت کو دل میں پر ہیہات
کرے ہے نام مرا بد یہ چشمِ نم گستاخ

جب سے یہ مژگاں ہوئے در پر ترے جاروب کش
روبرو تب سے مری آنکھوں کی ٹل جاتی ہے نیند

دلچسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ ان کی غزل کہ ہر مقطع میں کسی نہ کسی طرح حضرت علی کا ذکر ہے یعنی اپنے تخلص چنداؔ کے ساتھ ساتھ حضرت علی کے لئے کوئی حرف ندائیہ وغیرہ استعمال ہوا ہے۔ چند مقطعات مندرجہ ذیل ہیں۔

چندا کو تم سے چشم یہ ہے یا علی کہ ہو
خاک نجف کو سرمۂ ابصار دیکھنا

یا علی حشر میں دو چندا کو
آب کوثر کی خوشگوار شراب

نہ چندا کو طمع جنت کی نہ خوفِ جہنم ہے
رہے ہے دو جہاں میں حیدر کرار سے مطلب

اشک تو اتنے بہے چندا کے چشم خلق سے
قرۃالعینِ علی کے غم میں بہہ جاتی ہے نیند

2۔ بیگم لکھنوی

\"lucknow

مختصر حالات۔ میرؔ تقی میر کی ایک صاحبزادی کا ذکر بعض تذکروں میں ملتا ہے کہ وہ بھی شاعرہ تھیں اور ’بیگم‘ تخلص تھا۔ ان کے بارے میں یہ روایت بھی مشہور چلی آتی ہے کہ شادی کے معاً بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا جس سے میرؔ کو بہت صدمہ ہوا اور انہوں نے یہ شعر کہا

اب آیا دھیان اے آرام جاں اس نامرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں

مگر یہ شعر نہ میرؔ کے کلیات مطبوعہ میں ملتا ہے نہ کسی قلمی نسخے میں۔ کسی ہم عصر تذکرہ نگار نے بھی اسے میرؔ کی طرف منسوب نہیں کیا۔ ظاہر ہے یہ واقعہ اختراعی ہے اور یہ شعر امیر اللغات جلد اول میں نادرؔ سے منسوب ہوا ہے اورسب سے پہلے تذکرہ شمیم سخن نے اسے میر کا زائیدہ لکھا ہے۔ اس کی روایت کمزور ہے۔ میر کی اس لڑکی کا ذکر مختلف تذکروں میں ملتا ہے۔ بیگم تخلص تھا قیاس کہتا ہے کہ بیگم میر کلو عرش کی بہن تھیں۔ میر نے دوسری شادی لکھنؤ میں کی تھی۔

(بحوالہ دیوان عرش، مصنفہ ایم حبیب خاں، مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند، اشاعت 1987)
ایک ہی غزل دستیاب ہو سکی۔ اس کے تین اشعار۔

کچھ بے ادبی اور شبِ وصل نہیں کی
ہاں یار کے رخسار پہ رخسار تو رکھا

وہ ذبح کرے یا نہ کرے غم نہیں اس کا
سر ہم نے تہہ خنجرِ خوں خوار تو رکھا

اس عشق کی ہمت کے میں صدقے ہوں کہ بیگم
ہر وقت مجھے مرنے پہ تیار تو رکھا

3۔ مشغلۃ السلطان نواب آبادی جان بیگم

\"wajid_ali_shah_1\"

مختصر تاریخ و سوانح۔ واجد علی شاہ اختر نے اپنی تمام بیگمات کو خطوط لکھے جو وہ محفوظ رکھتی تھیں۔ بعد میں اس نے ہر بیگم کو تاکید کی کہ وہ خطوط ایک خوبصورت کتابی شکل میں اسے ارسال کرے۔ بالعموم ان مجموعوں کے تمام بیگمات نے وہی نام رکھے ہیں جو شاہ اختر نے خود تجویز کیے تھے مثال کے طور پ تاریخ جمشیدی، تاریخ ممتاز، تاریخ نور، تاریخ بدر، تاریخ فراق، تارٰک غزالہ وغیرہ۔ تاریخ مشغلہ اس لئے اہم ہے کہ اس کا ایک ہی نادر نسخہ تھا جو ہندوستان سے غائب ہو گیا اور آسٹریا جا پہنچا اور ویانا میں موجود مخطوطات میں موجود ہے۔ نثر کمال کی ہے اور اس میں واجد علی شاہ کے کئی خوبصورت شعر اور غزلیں شامل ہیں۔ کسی کسی جگہ بیگم آبادی جان کے جوابات بھی ہیں جن میں سے ایک طویل عبارت کا ٹکڑا نمونے کے طور پر نقل کیا جاتا ہے۔ وہ ذکر کر رہی ہے اس گھڑی کا جب واجد علی شاہ اختر نے قید سے چھٹکارا پایا۔

’’جس دم وہ برقِ تجلیِ انور کا بکا نظر آیا، قدرت الہی کا تماشا نظر آیا۔ تجلی حسن دیکھ کر مثلِ موسیٰ غش کر گئی، ہوش آیا تو کہا ظلمتِ شبِ ہجر کدھر گئی۔ دل نے جواب دیا کہ وہ شمعِ سحر کی طرح کافور ہو گئی، طلوع، خورشیدِ جمالِ اختر سے مانندِ شبنم پردۂ عدم میں مستور ہو گئی۔ پھر تو تابِ توقف کہاں تھی، تصویرِ شوقِ سراپا سے عیاں تھی۔ جھپٹ کر اپنے گل سے مثلِ بلبل ہم آغوش ہوئی، بادۂ عیش و سرور سے عین ہشیاری میں مدہوش ہوئی۔ کیا کہوں کیسے مزے ہمکناری کے لوٹے، دامنِ دل سے داغ ہائے ہجرو فراق شست و شوئے وصل سے پھوٹے۔ خوب جی بھر کرپیار کیا، نقدِ دل ہزار جان سے نثار کیا۔ تادیر سینہ بہ سینہ لب بہ لب رہے، صائم کی طرح مائل رُطب رہے۔ بارِ فراق سر سے پھینک کر بدن پھول کی طرح ہلکا ہو گیا، شراب وصل سے سرشار ہو کر شیر کی مانند اس طرح ڈگاری کہ نشۂ فراق ہرن ہو گیا۔ اوس دم کا مزہ عمر بھر فراموش نہ ہوگا، ایسی بلبل شیدا نہ ہوگی، ایسا محبوب گل پوش نہ ہو گا۔ الہی جب تک حسن و عشق کا چرچا رہے، معشوق میرا اختؔر پر باہم بغل مجھ سے صبح و مسار ہے۔ آمین ثم آمین۔ ‘‘

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments