موسیقار ایم ارشد سے ایک ملاقات



”نوٹیشن کس سے کرواتے تھے؟“

”شروع ہی سے بھائی نامدار خان صاحب ابا جی کے پسندیدہ نوٹیشن لکھنے والے تھے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے بھی بھائی نامدار صاحب سے ہی اپنی موسیقی کا آغاز کیا۔ میں نے سالوں ان کے ساتھ اپنے گانوں کی نوٹیشن کروائیں۔ ابھی پچھلے دنوں ان کا انتقال ہوا ہے۔ پھر ان کے بیٹے سلیم خان صاحب نے نوٹیشن کا کام شروع کر دیا۔“

”موسیقار کا کام پھولوں کی سیج بالکل بھی نہیں۔ مجھے رات کو فکر ہوتی کہ صبح 50 میوزشن آئیں گے۔ ہاتھ کے ہاتھ میں کیا سوچوں گا اور کیا میوزک بناؤں گا! دو دو دن رات کو نیند نہیں آتی تھی کہ گانے کا اسٹارٹ کہاں سے لوں؟ پہلا انٹر لیوڈ کیا ہو؟ سب سے پہلے میں ایک فہرست بنا لیتا کہ ساز کون سے استعمال کرنے ہیں۔ یہ کام میں نے اپنے والد صاحب سے سیکھا۔ وہ کہا کرتے تھے : ’صرف میں ہی تمہارا استاد نہیں بلکہ تمام میوزک ڈائریکٹر ہی تمہارے استاد ہیں۔ جس کو جہاں دیکھو اس کے چرنوں کو ہاتھ لگاؤ۔ پیار کرو اور سب کی دعائیں لو۔ موسیقی کے کام میں دعاؤں کی بے حد اہمیت ہے۔ دعائیں لیتے رہو گے تو کچھ مقام پا لو گے‘ ۔

یہ ساری چیزیں ہی مجھے ان سے ملی ہیں۔ بات ہو رہی تھی راتوں کو جاگ کر میوزک بنانے کی۔ میں نوٹیشن کر کے اور ٹیپ ریکارڈر پر اپنا بنایا ہوا میوزک ریکارڈ کر کے سوتا تھا۔ جیسے ستار کا پیس ہارمونیم پر ریکارڈ کرنا۔ کیوں کہ کچھ چیزیں نو ٹیشن میں آجاتی تھیں تو کچھ دیسی والی نہیں بھی آتی تھیں۔

میں ایسی چیزیں ٹیپ کر لیتا تھا۔ تا کہ صبح ہی جا کر اپنے بنائے ہوئے پیس کو جناب شریف خان پونچھ والوں سے ستار پر سن لوں۔ اب ایسے میوزشنوں کے سامنے آپ ہوم ورک کر کے گئے ہوں گے تو کچھ کر بھی سکیں گے۔ نہیں تو سامنا کیسے کر سکیں گے؟ یہ کام میرے ابا جی بھی کرتے تھے۔ بس پھر یہ سلسلے چلتے رہے اور محنتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد ابا جی نے بیک گراؤنڈ میوزک میں بھی اسی طرح ڈال دیا ”۔

”ارے! یہ تو دلچسپ کہانی بنتی جا رہی ہے!“ میں نے بے ساختہ سوال کیا۔

” اس کا پس منظر یہ ہے کہ شبابؔ صاحب کی کوئی پکچر تھی۔ ابا جی نے مجھے کہا کہ یہ ریل اب تم کرو گے۔ یعنی اس ریل کا بیک گراؤنڈ میوزک تم نے بنانا ہے۔ میں تو کانپ اٹھا۔ پسینے آنا شروع ہو گئے کہ یہ کام میں کیسے کروں گا؟ آپ دیکھیں کہ میرے والد صاحب نے مجھے مناسب وقت پر فلمی موسیقی سے متعلق ہر ایک کام میں باقاعدہ دھکیلا۔ گویا کہہ رہے ہوں : ’چھلانگ لگا دو! پھر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ نہیں کر سکو گے نا! میں دوبارہ تمہیں سمجھا دوں گا‘ ۔ بہرحال اس روز میں نے ایک ریل انہیں کر کے دکھائی۔ انہوں نے اس میں کچھ غلطیاں بھی نکالیں کہ بیٹا اس چیز کو ایسا کرنا۔ سین، کردار اور موڈ کے لحاظ سے یہ کام کیا جا نا چاہیے، یہی تو اصل بیک گراؤنڈ میوزک ہے۔ اسی حساب سے ارینج ہونا ضروری ہے“ ۔

” آج کل جو بیک گراؤنڈ میوزک چل رہے ہیں جس میں پانچ پانچ منٹ فلم بغیر میوزک کے جا رہی ہے آپ اس کو کیا کہیں گے؟“ نعیم وزیر نے ایم ارشد سے سوال کیا۔

”نعیم بھائی! جہاں انہیں سمجھ نہیں آتا کہ کیا کرنا ہے وہاں وہ کہتے ہیں کہ ’پاز‘ دے دو۔ پتا یہ چلتا ہے کہ پاز تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ بات وہیں آ گئی کہ کسی سے سیکھا ہو گا، کسی کے پاؤں میں بیٹھے ہوں گے تو ہی تو کچھ کر سکیں گے۔ یہ تو پاؤں میں بیٹھنے والوں کا کام ہے“ ۔

”آپ کا تو ایک لیکچر ہونا چاہیے کہ بیک گراؤنڈ میوزک کیسے کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے شخص سے جس نے خود 500 فلموں کا بیک گراؤنڈ کیا ہو۔ آج کل کے بیک گراؤنڈ والے آپ ہی کے ہم عمر ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ پرانے زمانے کا کوئی تکنیک کار بابا لیکچر دینے آ گیا“ ۔

”نعیم بھائی! ہم نے بھی ایسے ہی سیکھا ہے۔ ہمارے دور میں کون سی میوزک اکیڈمیاں تھیں؟ ہم نے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کو اکیڈمیاں سمجھا۔ ہمارے تو خون میں میوزک شامل تھا۔ مجھے اس وقت بہت افسوس ہوتا ہے جب کوئی نیا یا پرانا فنکار فخریہ کہتا ہے کہ میرا تو کوئی استاد ہی نہیں۔ میں نے میوزک کسی سے بھی نہیں سیکھا! یہ تو بری بات ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ کسی بھی کام کی الف بے کے بغیر وہ کام کیسے صحیح طور پر ہو سکتا ہے“ ۔

”کیا آج کل کے فلمی بیک گراؤنڈ میوزک سے آپ مطمئن ہیں؟“ نعیم وزیر نے بر محل سوال کیا۔

”آج کی فلمیں ہی وہ نہیں تو بیک گراؤنڈ میوزک کیا ہو گا! فلموں کا کوئی اسکرپٹ ہو تو بیک گراؤنڈ میوزک بنے بھی! سامنے کچھ ہے ہی نہیں۔ میں نے تو ان ان لوگوں کا بیک گراؤنڈ کیا کہ جن کو سامنے دیکھ کر ٹانگیں کانپنا شروع ہو جاتی تھیں۔ جیسے : حسن طارق صاحب، پرویز ملک صاحب، نذر الاسلام صاحب، حیدر چودھری صاحب وغیرہ۔ میرا ایک بڑا خطرناک دور بھی گزرا ہے جب میں دوسرے میوزک ڈائریکٹروں کا بیک گراؤنڈ کرتا تھا۔

یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میری تو عجیب کیفیت ہوتی تھی۔ رات کو اپنی ماں کی خدمت کرتا اور کہتا: ’ماں! دعا کرنا۔ دو ریلیں پھنسی ہوئی ہیں۔ اس میں کچھ کرنا ہے لیکن دماغ بند ہے۔ کل کیا کروں گا؟‘ تو وہ کہتیں کہ جا بیٹا تیرا کام ہو جائے گا۔ اگلے دن میں نوٹیشن کے لئے جب کاغذ پکڑتا تھا تو میرا مولا جانتا ہے کہ نہ جانے کیسے میرا ہاتھ چلنا شروع ہو جاتا تھا۔ وہی پھنسا ہوا کام اس طرح حل ہو جاتا تھا کہ میں خود حیران ہوتا کہ جیسے کوئی میرے قلم کو پکڑ کر لکھوا رہا ہو ”۔

باتوں سے بات نکلنے لگی تو نعیم وزیر نے انکشاف کیا کہ ایم ارشد وقت کے بہت پابند ہیں۔ صبح 9 بجے دیے گئے وقت میں وہ اسٹوڈیو ساڑھے آٹھ بجے موجود ہوتے ہیں۔ اس بات کو بھی انہوں نے اپنے والد صاحب کی تربیت کا حصہ بتایا۔ ارشد نے یہ بھی بتایا کہ میرے والد اکثر میوزیشنوں سے گھنٹہ پہلے ٹائی سوٹ پہنے اسٹوڈیو میں موجود ہوتے۔ وہ بھی تر و تازہ! ابا جی راتوں کو کام مکمل کر کے چار پانچ بجے کہیں جا کر سوتے۔ پھر صبح سات بجے اٹھ کر ناشتہ کر کے اور تیار ہو کر آٹھ بجے اسٹوڈیو کے لئے نکل پڑتے۔ میں نے وقت کی پابندی اسی طرح ان سے سیکھی ”۔

”آپ میوزک ڈائریکٹر مشہور ہو گئے اور بیک گراؤنڈ میوزک کے ماہر اور ارینجر بھی۔ اب جو استاد نصرت فتح علی خان کو شوق ہوا کہ میں بھی کچھ کروں تو آپ اس منصوبے میں کیسے آئے؟ یہ کیسے طے ہوا کہ یہ سارا کام آپ کریں گے؟“ نعیم نے سوال کیا۔

”اصل میں ہوا یہ کہ مزنگ چنگی (لاہور) میں بڑے پیار سے استاد نصرت فتح علی نے ایک آڈیو اسٹوڈیو بنایا۔ فاروق ریکارڈسٹ کو وہ فیصل آباد سے لے کر آئے تھے۔ ان دنوں خاں صاحب ’پیٹر گیبرئیل‘ کا کیا ہوا اپناکام لے کر آئے تھے۔ جو صرف مکھڑے تھے۔ جیسے ’دم مست قلندر مست‘ ۔ یہ مجھے فاروق صاحب نے سنوائے اور کہا کہ اس کو سامنے رکھ کر تین اور چار انتروں کے ساتھ پورے آئٹم بنانے ہیں۔ میں نے کہا کہ انشا اللہ ضرور بنائیں گے۔

اس نے کہا کہ تم فلاں تاریخ کو آنا میں خاں صاحب سے ملواؤں گا۔ وقت مقررہ پر میں گیا لیکن خاں صاحب مصروفیت کی بنا پر نہ آ سکے اور ملاقات نہ ہو سکی۔ میں ان دنوں ای ایم آئی (گراموفون کمپنی آف پاکستان) اپنے گانوں کی ایڈیٹنگ کے لئے جاتا تھا۔ وہاں پر ایک دن نصرت فتح علی خان آ گئے۔ اس وقت گلوکار رجب علی بھی وہاں موجود تھے۔ ان دونوں کا آپس میں بہت دوستانہ تھا۔ تو رجب علی نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’بابا جی! اس بچے کو سنو! کمال کام کرتا ہے۔ اس سے کام کرواؤ!‘ یہ خاں صاحب سے میری پہلی ملاقات تھی ”۔

”خیر۔ بات آئی گئی ہو گئی اور میں بھی اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ قدرت کو ہمارا ملانا مقصود تھا۔ اللہ نے کرم کیا۔ خاں صاحب نے مجھے فون کر کے بلوایا لہٰذا ہم ملے۔ مجھے ’دم مست قلندر مست‘ سنوایا کہ یہ کرنا ہے۔ میں نے سن کر کہا: ’خاں صاحب! اس سلسلے میں میری بھی کچھ ضروریات ہیں جو میں نے اس میں شامل کرنا ہے۔ جو کام سنوایا گیا وہ میں نہیں کروں گا بلکہ کچھ اپنا کام کروں گا‘ ۔ وہ کہنے لگے ٹھیک ہے۔

پھر میں نے کہا: ’آپ کے ساتھ جو ہم نوا تالیاں بجاتے ہیں وہ آپ کی بات کا جواب نہیں دیں گے۔ ان کے بجائے میں وہ کلام لڑکیوں سے کہلواؤں گا‘ ۔ وہ حیران ہو گئے کہ یہ کیسے ہو گا؟ میں نے کہا کہ اب تک تو مرد ہی آپ کا ساتھ دیتے تھے اب لڑکیاں یہ کام کریں گی۔ اب جدید دور ہے میں نے بھی کچھ نیا کرنا ہے۔ اس قوالی میں فلم کا ٹچ لاؤں گا۔ انہوں نے میری بات مان لی۔ میں نے کہا کہ خاں صاحب وہ زمانے گئے جب سارنگی گویے کا جواب دیتی تھی۔ اب آپ کی سرگم کا جواب ’لیڈ گٹار‘ دے گی۔ وہ کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو گا؟ میں نے کہا ہو جائے گا۔ وہ اس بات کے ساتھ اور بہت ساری چیزیں بھی مان گئے جو میں کرنا چاہتا تھا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ اب ریکارڈنگ شروع کرو۔ اس البم میں 6 آئٹم تھے۔ اس زمانے میں گلوکار عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا ’مندری دا تھیوا۔‘ ، ’قمیض تیری کالی۔‘ بڑے مقبول جا رہے تھے۔ مجھے خود بھی بالکل علم نہیں تھا کہ خواجہ پرویز کے لکھے اور میرے بنائے ہوئے خاں صاحب کے یہ چھے گانے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ ڈالیں گے۔

دیکھیں مولا کا کیسے کرم ہوتا ہے! خیر یہ ریکارڈنگ شروع ہوئی۔ میں نے گٹاروں پر سرگمیں کروائیں، کورس کروایا۔ پھر اس کا ’ماسٹر‘ تیار ہوا اور وہ البم ریلیز کے لئے تیار ہو گیا ”۔

” اب مزے کی بات سنیں۔ میں خاں صاحب کے ساتھ عمران خان کے اسپتال کے لئے ’دس شوز‘ کرنے برطانیہ گیا۔ ہم وہ ’آڈیو ماسٹر‘ ایگل کمپنی کو ریلیز کرنے کے لئے دے کر آئے تھے۔ ہم لوگ واپس آئے تو ایگل والوں نے کہا کہ ہم جہاں بھی اپنا مال بیچنے کے لئے بھیجتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ آپ نے ہمیں کیا بھیج دیا۔ یہ تو کچھ نہیں ہے۔ آپ یقین کریں کہ صرف ایک ہفتے کے بعد وہی کیسٹ جو اگر 6 روپے کا نہیں بک رہا تھا وہ 100 گنا زیادہ قیمت پر فی کیسٹ 600 روپے کا بکا۔ وہی کیسٹ جس کے نہ بکنے کا کہا جا رہا تھا اس سے ایگل کمپنی نے تین کروڑ روپے بنائے۔ یہ صرف 32 سال پرانی ہی بات ہے۔ پھر ہمارے اس البم کے سامنے آئندہ دس سال تک کوئی البم نہیں جم سکا“ ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3