نسیم حجازی ایک طعنہ کیوں بن گئے ہیں؟


ہمارے کئی صالح مجاہد والے دانشور بھائی اس بات پر خوب حیران ہوتے ہیں کہ ان کی مخلصانہ اور ملت و قوم کے درد میں ڈوبی ہوئی تحریر پڑھ کر شریر اور گمراہ قسم کے لبرل لوگ ان پر نسیم حجازی کی پھبتی کیوں کستے ہیں۔ ان میں سے چند صالحین تو قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے پر اتر آتے ہیں کہ انہوں نے نسیم حجازی کا کوئی ناول نہیں پڑھا ہے، یا اگر پڑھا تھا تو مڈل سکول کے زمانے میں پڑھا تھا، اس کے باوجود ان کو نسیم حجازی سے متاثرہ قرار دینا ان کی سمجھ سے قطعاً بالاتر ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ ان پر یہ راز افشا کر دیا جائے کہ یہ نسیم حجازی کی پھبتی کیوں کسی جاتی ہے اور کس پر کسی جاتی ہے۔

کیونکہ صالح مجاہدین دانشور بھائیوں کے بیان کے مطابق انہوں نے نسیم حجازی کو نہیں پڑھا ہے، تو بہتر ہے کہ پہلے نسیم حجازی کا تعارف کرا دیا جائے۔

نسیم حجازی سنہ 1914 میں گورداس پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شریف حسین تھا۔ روایت ہے کہ سکول کے زمانے میں ایک مرتبہ ان کے استاد نے جب ان کو بتایا کہ ارائیں قبیلہ سرزمینِ حجاز سے ہندوستان آیا تھا، تو وہ اپنی برگزیدگی سے اتنا متاثر ہوئے کہ خود کو حجازی لکھنے لگے۔ انہوں نے 1996 میں راولپنڈی کے عسکری شہر میں وفات پائی۔

نسیم حجازی نے کچھ طنزیہ کتابیں بھِی لکھیں جن میں سے ’سفید جزیرہ‘ ہماری پسندیدہ ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ لیکن ان کی اصل وجہ شہرت ان کے عسکری تاریخی ناول ہیں۔ یہ کتابیں پڑھے ہوئے کچھ مدت بیت گئی ہے لیکن یاد پڑتا ہے کہ ان کے ناول ’محمد بن قاسم‘، ’آخری معرکہ‘، ’قیصر و کسرٰی‘ اور ’قافلہ حجاز‘ اس دور کے متعلق ہیں جب اسلامی سلطنت فتوحات حاصل کر رہی تھی۔ جبکہ ’یوسف بن تاشفین‘، ’کلیسا اور آگ‘، ’اندھیری رات کے مسافر‘ اور ’شاہین‘، اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے دور کے بارے میں ہیں۔ ’آخری چٹان‘ میں چنگیز خان کے ہاتھوں خوارزم شاہی سلطنت کی شکست کا ماجرا رقم ہے۔ ’معظم علی‘ اور ’اور تلوار ٹوٹ گئی‘ برصغیر میں انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی شکست کے بارے میں ہیں۔

ان ناولوں میں عام طور پر ہیرو ایک نہایت صالح، بہادر، فنون جنگ کا ماہر، حکمرانوں یا سپہ سالاروں کی آنکھ کا تارا نوجوان ہوتا ہے جس کی بہادری اور کردار کو دیکھتے ہی ہر ملنے والی، بلکہ قریب سے گزرنے والی حسین ترین لڑکی بھی (جو کہ عام طور پر لشکر کفار میں سے ہوتی ہے) اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کر کے اس کے نکاح میں آنے کو بے قرار ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ناول میں کئی حسینائیں ہوتی ہیں تو ہیرو اچھی بھلی مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ ناول کی فضا ایسی سحر انگیز ہوتی ہے کہ پڑھنے والا جوش سے بھر جاتا ہے اور اس کا بس نہیں چلتا کہ کسی قریبی کافر سے لڑ مرے۔

آپ نے شاید وہ لطیفہ سن رکھا ہو کہ جب انگریز پنجاب میں آئے تو سرداروں کو فٹ بال سکھانے پر کمربستہ ہوئے۔ گیارہ سرداروں کو فٹ بال کے میدان میں لے جایا گیا۔ انگریز ماہر نے انہیں بتایا ’دیکھو، یہ کھِیل ایک گیند کی مدد سے کھیلا جاتا ہے۔ تم نے گیند کو اپنے قریب دیکھتے ہی مخالف ٹیم کے گول کی طرف منہ کر کے پوری قوت سے کک دے مارنی ہے۔ اب کچھ دیر میں گیند آتی ہے تو کھیل شروع کرتے ہیں‘۔ فٹ بال آنے میں کچھ تاخیر ہوئی تو ایک سردار صاحب نے فرمایا ’موتیاں والو، ٹائم ضائع کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔ فٹ بال نہیں ہے تو کیا ہوا، مخالف ٹیم کے کھلاڑی تو موجود ہیں۔ ککیں مارنا شروع کرتے ہیں‘۔

جب نسیم حجازی کی ذہنیت کا طعنہ دیا جاتا ہے، تو یہی کہا جاتا ہے کہ آپ ہر مسئلے کا حل طاقت کے استعمال کو سمجھتے ہیں۔ یہ دیکھے بغیر کہ حالات کیا ہیں، اسباب کیا ہیں، کیا جنگ لڑے بغیر اپنا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ فٹ بال ہو یا نہ ہو، آپ انتظار کیے بغیر گیم شروع کرنے کو بے قرار ہوئے جاتے ہیں۔ ایک مدبر فرما گیا ہے کہ جنگ اتنا نازک معاملہ ہے کہ اسے جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن آپ ہر معاملے کا پہلا حل جنگ ہی کو قرار دیتے ہیں۔

پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ دشمن کی مرغی مارنے کے لئے اگر اس پر اپنی دیوار گرانی پڑے تو گرا دو۔ یعنی دشمن کو معمولی سی زک پہنچانے میں خود بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑے تو سوچو مت اور زک پہنچا دو۔

ہم یہی دیکھتے ہیں کہ نسیم حجازی کے مجاہدین نعرہ بلند کرتے ہیں کہ افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کو شکست فاش ہوئی ہے اور وہ تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ جبکہ ہمیں زمین پر یہ نظر آتا ہے کہ روسی اور امریکی اپنے گھر میں سکون سے بیٹھے ترقی کر رہے ہیں اور افغانستان کا کھنڈر بن چکا ہے اور افغانی دربدر ہوئے پھرتے ہیں۔ یہی حال شام، لیبیا اور عراق کا بھی ہوا ہے۔ ’ فتح انگلش کی ہوتی ہے، قدم جرمن کے بڑھتے ہیں‘۔

جو لوگ حکمت و دانش سے کام لینے کو بزدلی، اسلام سے دشمنی اور پاکستان سے غداری قرار دیتے ہوئے بس ہر مسئلے کا حل جنگ اور ایٹم بم کے استعمال کو قرار دیتے ہیں، ان کو نسیم حجازی سے متاثر ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔

برما میں بنگالی النسل روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے؟ پاکستان وہاں ایٹم بم مار دے تاکہ ہر مسلم روہنگیا کے بدلے سو برمی بدھ مریں اور ایک منتفس بھی زندہ نہ بچے۔ مگر سوال یہ ہے کہ برما ہمارا پڑوسی نہیں ہے، اسے ایٹم بم مارنے کے لئے ہمارے مجاہدین کو بھارت، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ یا چین سے اپنا ایٹم بم میزائیل گزرنے کی اجازت درکار ہو گی مگر وہ نہیں ملے گی کیونکہ ان ممالک کے حکمرانوں نے نسیم حجازی کے ناول نہیں پڑھے ہیں۔

چلیں چھوڑیں اس بھارت، چین اور تھائی لینڈ کو۔ یہ تو کفار ہیں۔ بنگلہ دیش بھی انہیں کے حکم میں ہے کیونکہ وہ سیکولر ملک ہے۔ ایسا کرتے ہیں اسرائیل پر ایٹم بم مار کر وہاں کے تمام یہودیوں کو مار دیتے ہیں۔ ساتھ تمام فلسطینی بھِی مریں گے مگر خیر ہے، کیونکہ اس طرح صیہونیوں کا پیدا کردہ اسرائیلی ناسور تو ختم ہو جائے گا۔ مگر سوال یہی ہے کہ اسرائیل تک ایٹمی میزائیل کیسے پہنچے گا؟ کیا سعودی عرب، قطر، یمن، عراق، اردن، مصر، شام وغیرہ وغیرہ ہمارے ایٹم بم سے مسلح میزائیل کو اپنی فضاؤں سے گزرنے دیں گے؟ مسئلہ بظاہر پیچیدہ ہے مگر حل آسان ہے۔ نسیم حجازی کے ناولوں کا عربی ترجمہ کر کے مشرق وسطی میں مفت تقسیم کیا جائے تو اجازت مل سکتی ہے۔

یا پھر ممکن ہے کہ اسرائیل اور برما ہمارے ایٹم بموں سے نہ ڈریں۔ ان پر کوئی دوسرا دباؤ ڈالنا ہو گا۔

کیا وجہ ہے کہ جاپان نے فوج کشی سے توبہ کی مگر آج پہلے سے بہت بڑی طاقت مانا جاتا ہے؟ امریکہ کیوں دنیا میں اپنی فوجیں اتارنے کی پالیسی ترک کر چکا ہے اور اب عقب سے قیادت کرنے کا پرچارک ہو گیا ہے؟ چین ارد گرد کے ہمسایوں پر فوجیں کیوں نہیں چڑھاتا ہے؟

حضرت آپ کو خبر ہووے کہ جنگ اب معیشت کی ہووے ہے۔ آپ کی معیشت میں دم ہے تو آپ سائنس اور ٹیکنالوجی پر پیسہ لگا سکتے ہیں اور رنگ رنگ کے ہتھیار بنا کر کم فوج کے ذریعے بھی زیادہ طاقت پا سکتے ہیں۔ معیشت بیکار ہے تو صدام حسین کی دس لاکھ نفوس پر مشتمل مانگے کی فرسودہ ٹیکنالوجی والی فوج بھی مختصر سی جدید فوج سے شکست کھا سکتی ہے۔

نریندر مودی کی آؤ بھگت امریکہ سے روس تک ہندوستانی معیشت کی وجہ سے ہی ہو رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات سے سعودی عرب تک کے حکمران نریندر مودی کی داڑھی پر نہیں بلکہ اس کی جیب پر قربان ہوئے جا رہے ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی ہر سوال پر سے قدغن اٹھا کر منطقی انداز میں سوچنا سکھانے سے آتی ہے۔ معیشت امن سے آتی ہے، پیسہ جنگ سے دور بھاگتا ہے۔ طاقت پانی ہے تو پیسہ بنانے کی کوشش کرو، خواہ یہ پیسہ دوست سے تجارت کرنے سے بنے یا دشمن سے۔ غریب کو تو سگا رشتے دار بھی نہیں پوچھتا ہے، امیر کے تو غیر بھی سگے رشتے دار بن جاتے ہیں۔

اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے علم اور معیشت کی طاقت پانا لازم ہے۔ پہلے وہ حاصل کریں، پھر ہی دنیا آپ کی بات سنے گی۔ ورنہ پھر فسانہ آزاد کے میاں خوجی کی طرح آپ کی بہادری صرف آپ کی اپنی کہی گئی داستانوں میں ہی ہو گی۔
 Dec 3, 2016


نسیم حجازی ایک طعنہ نہیں بلکہ ایک تمغہ ہیں
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments