کیا سر سید احمد خان فرنگیوں کے ایجنٹ تھے؟
1885 میں کانگریس کی بنیاد رکھی گئی تو کانگریس نے حکومت کے سامنے کچھ مطالبات پیش کیے۔ سر سید احمد خان مطالبات کی سیاست مسلمانوں کے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ سر سید احمد نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان برطانوی سرکار سے بطور استحقاق کچھ طلب کریں۔ وہ عرصہ دراز سے مسلمانوں کو آنکھیں بند کر کے گورنمنٹ پر بھروسہ کرنے کا درس دے رہے تھے۔۔۔ آزادی کی تحریکوں میں تیزی آئی تو ہندوؤں کی عددی اکثریت کو مسلمانوں کے مفادات کے لئے خطرہ سمجھنے والے مسلمان طبقے نے آزادی سے قبل آئینی تحفظات کا مطالبہ شروع کیا لیکن اسے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا تھا۔ اس موقع پر مسلمانوں کے لئے تشفی بخش آئینی تحفظات کا بندوبست ہو جاتا، مسلمانوں کے وسوسوں اور اندیشوں کو دور کر دیا جاتا تو مسلمان آئینی تحفظات کی قابل یقین ضمانت کے عوض متحدہ ہندوستان میں ایک قوم بن کر بخوشی رہنے کو تیار تھے لیکن ہندو عوام کے تعصب، تنگ نظری اور معاشرتی چھوت چھات نیز بعض ہندو قائدین کے بے لچک رویے سے حالات بگڑتے گئے۔ اگر یہ لوگ اپنی روایات کے مطابق فراخدلی کا مظاہرہ کرتے تو حالات انتہا کو نہ پہنچتے۔ تاہم ان کی روش میں روز بروز شدت آنے سے مصلحت اور مفاہمت کی تمام راہیں مسدود ہو گئیں۔
دو قومی نظریہ کے حامی اکابرین اپنی زندگی کے ابتدائی ادوار میں متحدہ ہندوستانی قومیت کے زبردست حامی، علمبردار اور مبلغ تھے۔ یہ لوگ دین کے علم سے بھی اچھی طرح بہرہ ور تھے۔ اگر ان کے نزدیک دو قومی نظریہ کی حیثیت عقیدہ کی سی ہوتی تو یہ حضرات اسے روز اول ہی دیگر عقائد کی طرح اختیار کر لیتے لیکن ان کی ابتدائی زندگی میں دو قومی نظریہ بطور عقیدہ تو کجا بطور سیاسی حکمت عملی بھی شامل نہ تھا بلکہ وہ اس کے برعکس ہندو مسلم اتحاد کے بڑے مخلص علمبردار اور مبلغ تھے۔ ان کی تمام توانائیاں ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک قوم بنانے میں صرف ہوئیں۔ بعد میں حالات کے جبر نے انہیں دو قومی نظریہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ یہاں صرف سرسید احمد خان کی سیاسی زندگی کا ابتدائی عہد بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ان سے مسلم لیگی سوچ کے ان اصحاب کے خیال کی تردید ہوتی ہے جو دو قومی نظریہ کو عقیدہ کی حیثیت دینے پر اصرار کرتے ہیں۔
پہ نظر ڈالتے ہیں۔1857 کے خون ریز المیہ کے بعد سر سید احمد خان کا کردار بڑا اہم ہے۔ سر سید احمد خان کسی وقت دو قومی نظریہ کے برعکس متحدہ ہندوستانی قومیت کے زبردست پرچارک تھے۔ انہوں نے ہندوستانی قوم کو ایک ناقابل تقسیم وحدت سے تعبیر کیا اور اس نظریہ کی وسیع پیمانہ پر علی الاعلان تشہیر کی۔ 1884 میں سر سید دورہ پنجاب پر لاہور تشریف لائے۔ ینگ انڈین ایسوسی ایشن نے ان کا اعزاز میں ایک استقبالیہ ترتیب دیا جس میں تقریر کرتے ہوئے سر سید احمد خان نے ہندو مسلم اتحاد پر بڑا زور دیا۔ انہوں نے بڑے پر جوش، زبردست اور دلفریب استدلال میں ذیل کے الفاظ ادا کئے:
\”میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مثل اپنی دو آنکھوں کے سمجھتا ہوں۔ اس کہنے کو بھی پسند نہیں کرتا کیوںکہ لوگ علی العموم اسے فرق قرار دیں گے کہ ایک کو دائیں آنکھ اور دوسری کو ایک بائیں آنکھ کہیں گے۔ مگر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو بطور ایک آنکھ سمجھتا ہوں۔ اے کاش میرے صرف ایک آنکھ ہوتی کہ اس حالت میں عمدگی کے ساتھ ان کو اس آنکھ کے ساتھ تشبیہ دے سکتا۔\”
سر سید احمد کے خیالات بالکل صاف اور واضح ہیں۔ وہ ہندوستان میں آباد تمام مذھب کے لوگوں کو یکساں خیال کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا ماضی الضمیر سمجھنے کے لئے ہند کے دو بڑے مذاہب کے پیروکاروں کا نام لیا ہے۔ لیکن جب وہ ایسا کہتے ہیں تو ان کی مراد تمام مذاہب سے وابستگان ہندوستانیوں سے ہے۔ ان کی قلبی کیفیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کسی فریق کو دائیں یا بائیں آنکھ سے تعبیر کرنے پر بھی تیار نہیں تھے۔ مبادا اس سے کسی ایک کی دل آزاری ہو کیونکہ اس سے کسی کی برتری یا کمتری کا احسان پیدا ہوسکتا ہے۔ وہ اتحاد کی غرض سے ایک ایک کی دل جوئی کو مقدم خیال کر رہے تھے اور معمولی سی تفریق بھی گوارا کرنے پر تیار نہیں تھے۔ وہ عام آدمی کو اپنے خیالات و نظریات کی یقین دہانی کے لئے مبالغہ آمیزی کی حد تک چلے گئے ہیں تاکہ ان کے دل و دماغ میں کوئی وسوسہ یا اندیشہ باقی نہ رہے۔ اس تقریر میں وہ آگے چل کر \”قوم\” کی تشریح بڑے دلکش پیرایہ میں کرتے ہیں:
\”لفظ قوم سے میری مراد ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے۔ یہی وہ معانی ہیں جن میں میں لفظ نیشن (قوم) کی تعبیر کرتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ امر چنداں لائق لحاظ نہیں کہ ان کا مذہبی عقیدہ کیا ہے۔ ہم سب ہندو یا مسلمان ایک ہی سرزمیں پر رہتے ہیں۔ ایک ہی حاکم کے زیر حکومت ہیں۔ ہم سب کے قاعدے کے مخرج ایک ہیں۔ (یعنی ہماری زبان ایک ہے) ہم سب قحط کی مصیبتوں کو برداشت کرتے ہیں۔ یہی مختلف وجوہات ہیں جن کی بنا پر میں ان کو جو ہندوستان میں آباد ہیں ایک لفظ سے تعبیر کرتا ہوں یعنی ہندوستان میں رہنے والی قوم\” (سرسید احمد خان کا سفر نامہ پنجاب از مولوی سید اقبال علی)
انہوں نے ان خیالات کا اظہار کئی مرتبہ کیا۔ انہوں نے قوم کی بہترین تشریح کی ہے جس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ ایک قوم کی تشکیل کے لئے جن اجزائے ترکیبی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے سب کا ذکر نہایت عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ وہ اپنے اس دورہ میں گورداسپور پہنچے تو یہاں بھی انہوں ایک اجتماع سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ اس اجتماع میں ان کی تقریر کا انداز، مواد اور اسلوب پہلے جیسا ہی تھا۔ انہوں نے یہاں بھی ہندوستان کی متحدہ قومیت کے موضوع پر پر زوردار تقریر کی جسے حاضرین نے بہت پسند کیا اور اس کا گرم جوشی اور تالیوں سے استقبال کیا۔
\”پرانی تاریخوں اور پرانی کتابوں میں سنا ہو گا اور اب بھی دیکھتے ہیں کہ قوم کا اطلاق ایک ملک کے رہنے والوں پر ہوتا ہے۔۔۔ اے ہندو اور اے مسلمانو! کیا تم ہندوستان کے سوا اور ملک کے رہنے والے ہو۔ کیا اس سرزمیں پر تم دونوں نہیں بستے؟ کیا اس زمیں میں تم دفن نہیں ہوتے ہو یا اس زمیں کے گھاٹ پر جلائے نہیں جاتے ہو۔ اسی پر مرتے اور اسی پر جیتے ہو۔ یاد رکھو کہ ہندو اور مسلمان ایک مذہبی لفظ ہے۔ ورنہ ہندو، مسلمان اور عیسائی بھی جو اس ملک میں رہتے ہیں، اس اعتبار سے سب ایک قوم ہیں (تالیاں) ۔۔۔۔ (سرسید احمد خان کا سفر نامہ پنجاب از مولوی سید اقبال علی)
اس قسم کے کئی اقتباسات ان کی تحریروں سے پیش کیے جاسکتے ہیں کہ وہ اس عہد میں دو قومی نظریہ کی بجائے ایک ہندوستانی قومیت کے علمبردار تھے۔ اگرچہ سر سید بعد میں اس موقف سے منحرف ہوگئے لیکن ان کی زندگی کے اس حصہ پر بحث کی گنجائش نہیں۔
سر سید احمد خان کی طرف سے اتحاد کی تلقین کے پس سپردہ خاص مقصد کارفرما تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ سارے اہل ہند مل کر برطانوی سرکار کی اطاعت قبول کر لیں۔ عاجزی اختیار کریں اور انکساری سے خدمت بجا لائیں۔ جب اتحاد و یگانگت نے مختلف روپ اختیار کیا تو ان کے پند و نصائح کے انداز یکسر بدل گئے۔ اتفاق کی جگہ نفاق اور اتحاد کی بجائے انتشار کا پرچار ہونے لگا۔ جب غیر مسلموں پر ان کا فسوں کارگر نہ ہوا تو انہوں نے صرف مسلموں کو انگریز کی غلامی کا جوا قبول کیے رکھنے پر آمادہ کرنا چاہا۔ ان کی خواہش تھی کہ اگر تمام ہندوستانی نہیں تو کم از کم مسلمان ہی انگریزوں کے کاسہ لیس بن کر رہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اسلام کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہا اور انگریزوں کی اطاعت کو برؤے اسلام لازمی قرار دیا۔ فرماتے ہیں:
\”تمام ہندوستان کے باشندوں کی بالتخصیص مسلموں کی خیر و عافیت اسی میں ہے کہ سیدھی طرح انگلش گورنمنٹ کے سایہ عاطفت میں اپنی زندگی بس کریں اور خوب سمجھ لیں کہ مذہب اسلام کی یہی ہدایت ہے جن کی ہم رعایا ہو کر مستامن ہو کر رہتے ہیں، ان کے ساتھ وفادار ہیں اور ان کی بد خواہی نہ کریں نہ بد خواہوں کے ساتھ شریک ہوں۔ ان کو دنیوی شہنشاہ سمجھیں۔\” (مقالات سرسید جلد 9 صفحہ 20)
جب متحدہ قومیت عملی روپ دھار کر کانگریس کی صورت میں نمودار ہوئی تو سرسید احمد خان اس سے بالکل ناخوش تھے۔ حالانکہ یہ ان کی محنتوں کا ثمر اور آرزوں کی تکمیل تھی لیکن وہ کانگریس کے مطالبات سے بہت پریشان نظر آتے تھے۔ وہ ہندستانیوں کو برطانوی تابعداری کے لئے متحد کرنا چاہتے تھے لیکن جب کانگریس نے برطانوی سرکار سے حقوق کا مطالبہ کیا تو وہ اس اتحاد کے زبردست مخالف بن گئے اور انہوں نے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ اعلی تعلیم یافتہ طبقہ نے مقامی باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ تعلیم یافتہ طبقہ کا رویہ انہیں قطعا پسند نہ آیا۔ تعلیم کے نتائج ان کی توقع کے برعکس برآمد ہوئے تو انہوں نے نہات بے دلی کے ساتھ اس امر کا اعتراف کیا کہ ۔۔۔\”ہندوستان میں اعلی تعلیم کے فروغ سے کوئی اچھا پھل ہاتھ نہیں لگا\”۔ (مقالات سرسید جلد 8 صفحہ 33)
کانگریس کا تیسرا اجلاس 1887 میں بمقام مدارس زیر صدارت جسٹس بدرالدین طیب جی منعقد ہوا جس میں پچھتر مسلمان مندوبین نے شرکت کی۔ سرسید کو یہ بہت ناگوار گزرا۔ چنانچہ انہوں نے ایم اے او کالج علی گڑھ کے پرنسپل مسٹر تھیوڈور بیک کی اعانت سے 1888 میں یونائیٹڈ پیٹریاٹک ایسوسی ایشن کے نام سے الگ جماعت قائم کر لی تاکہ لوگوں کو کانگریس میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرسید نے مسلمانوں کو کانگریس میں ہندوؤں کی وجہ سے شامل ہونے سے منع کیا تھا لیکن ان کی اپنی جماعت کے دروازے تمام اہل ہند پر کھلے تھے۔ چنچاںہ راجہ شیو پرشاد (سی آئی) لندن ان کی جماعت کے سرگرم رکن تھے۔ انہوں نے اپنی نو ساختہ جماعت کے دفتر کی دیکھ بھال اور نشر و اشاعت کے کام کے لئے کسی انگریز کو مامور کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس جماعت کا اصل کام کانگریس کی سرگرمیوں سے برطانوی سرکار کو مطلع کرنا تھا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو سیاست اور خاص کر ایجی ٹیشن سے الگ رکھنا تھا۔ تاکہ برطانوی مفادات کو مسلمانوں سے کوئی گزند نہ پہنچے۔
دسمبر 1893 میں سر سید نے ایک اور تنظیم اینگلو اورینٹل ڈیفنس ایسوسی ایشن آف انڈیا قائم کی۔ یہ خالص مسلمانوں کی تنظیم تھی اور اس کا مقصد مسلمانوں کو سیاسی احتجاج سے دور رکھنا تھا۔ (تحریک آزادی صفحہ 198 از صلاح الدین ناسک)
سر سید احمد خان کے انتقال سے دو برس قبل ان کے صاحبزادے سید سلیم نے ایک سکیم پیش کی۔ اس میں مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم کہا گیا تھا۔ مسلماناوں کی روایات، مذہب اور مفادات کو ہندوؤں سے بالکل مختلف قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح متحدہ ہندوستانی قومیت کی بجائے مسلمانوں کی علیحدہ قوم کا نظریہ بتدریج وجود میں آیا۔
سرسید کی تعلیمات کے مسلمانوں پر اثرات کے ضمن میں ان کے اپنے مکتب فکر کے رہنما سید رضا علی اپنی خود نوشت \”اعمال نامہ\” میں لکھتے ہیں
\”گورنمنٹ پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ کرنے کا جو سبق سرسید احمد خان اور مسٹر بیک نے مسلمناوں کو عرصہ دراز سے پڑھایا تھا، اس کو یک قلم فراموش کرنا مشکل تھا۔۔۔۔ ان رہنماؤں نے عام مسلمانوں کے یہ ذہن نشین کیا کہ سیاسی مسائل پر مردے کی طرح خاموشی اختیار کرو۔ سیاست برا خطرناک کھیل ہے۔ کہین بھولے سےبھی اس کے پاس نہ جاؤ۔ اس سیاسی درس کا یہ نتیجہ ہوا کہ مسلمانوں کے دلوں سے حوصلہ مندی کے نقوش مٹ گئے۔ جب کبھی سیاسی حقوق طلبی کا وقت آیا تو عام مسلمانوں نے اپنے رہنماؤن کے اتباع میں کبھی حرف شکایت زبان پر نہ آنے دیا۔ جوں جون وقت گزرتا گیا، اس جمود میں ترقی ہوتئی گئی تاآنکہ سیاسی خاموشی حکمت عملی کی بجائے اپنی جگہ پر ایک مقصد بن گئی۔۔۔۔\” (اعمال نامہ ۔۔۔ صفحہ 108)
- لینن کی خفیہ محبوبہ انیسا آرمنڈ کی کہانی (2) - 07/05/2022
- لینن کی خفیہ محبوبہ انیسا آرمنڈ کی کہانی(1) - 06/05/2022
- ڈاکٹر شازیہ خالد کیس میں محسن بیگ کا کردار - 18/02/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).