کوہستان ویڈیو… ہے ذات رقص میں، کہیں گرداب رقص میں


\"ramish-fatima\"کوہستان ویڈیو سکینڈل شاید مزید کچھ سال یونہی کبھی کبھار خبروں میں آئے گا، کبھی یہ خبر آئے گی کہ ایک ویڈیو جس میں دو لڑکے رقص کر رہے تھے اور لڑکیاں تالیاں بجا رہی تھیں جرگے نے انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ کیا، کبھی یہ خبر آئے گی ان میں سے لڑکے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور ان کے رشتے دار مارے گئے، کوئی یہ کہے گا کہ لڑکیاں تو زندہ ہیں اور کوئی یہ کہے گا کہ سب کو مار دیا گیا ہے۔ دو ہزار بارہ سے اب تک کی مختلف اطلاعات کے بعد کل عدالت میں یہ بات ہوئی کہ کمیشن کے سامنے پیش کی جانے والی لڑکیاں ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں سے مختلف ہیں ، یا تو وہ زندہ نہیں یا پھر لاپتہ ہیں۔ مبینہ طور پہ یہ ویڈیو سکینڈل آٹھ انسانوں کی جان لے چکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں ہمارے علاقے کی روایات سے ناآشنا افراد اس معاملے کو اٹھائیں گے تو یونہی مزید جانیں ضائع ہوں گی کیونکہ ہم خواتین کی بےحرمتی برداشت نہیں کر سکتے اور رشتےدار کہتے ہیں ہم یوں اپنے گھروں کی خواتین کو کسی کے سامنے نہیں لا سکتے۔

‎رقص کے تعاقب کا یہ بھیانک سفر کئی انسانوں کی جانیں لے چکا ہے ۔ اگر یہ کوشش ہے کہ جن کے ساتھ ظلم ہوا، ان مظلوموں کو انصاف فراہم کیا جائے یا ظالم تک پہنچا جائے، تو بھی رائیگاں ہی ہے کہ چکی میں گھن گیہوں کے ساتھ پس چکا، اثر و رسوخ رکھنے والے تو حقائق سے چشم پوشی کو ہی ترجیح دیں گے، اور کیوں نہ دیں، انہیں کیا روگ لگا ہے جو زمانے کو بدلنے نکل پڑیں۔ لوگ روایات کا سہارا لے کر اپنے نوجوانوں پر ظلم کرتے ہیں، جبر سے کام لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہی ظلم و جبر ہماری روایات ہیں۔ ظلم، جہالت اور جبر کی تعظیم و تکریم دوسرے کیوں نہیں کرتے؟ ایسا کس جہان میں ممکن ہے، عقل کو ہاتھ ماریں۔ آپ روایات ، اقدار کسی کا بھی سہارا لیں دو چار لوگوں سے جینے کا حق چھین لیں اور پھر کہیں کہ آخر کیا مسئلہ ہے؟ لکیر ہے جو ہم نے کھینچ رکھی ہے اس سے باہر نکلنے کی کوشش جو کرے گا وہ انجام کا ذمے دار خود ہو گا، باقی آپ کے مزے ہیں اس لکیر کے اندر رہتے ہوئے، جتنی آزادی ہے اس سے لطف اندوز ہو لیں۔\"african-dance-acrylic-on-canvas\"

‎چیندور ،اسٹاپو، اشٹاپو شاید اور بھی بہت سے نام ہوں اس کھیل کے، بچیوں کا ایک ایسا کھیل جو پنجاب اور پختونخواہ کی مختلف مگر خوبصورت ثقافتوں میں قدرِ مشترک ہے۔ آج سوچتی ہوں تو احساس ہوتا ہے بچپن میں بس یہ فکر تھی کہ اس لکیر پہ پیر نہ آ جائے ورنہ باری ختم ہو جائے گی اور پھر سے باری کے انتظار میں بیٹھنا پڑے گا، مگر یہ سب بچپن کے کسی کھیل میں ہی ہو سکتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ سب لکیریں روایت و اقدار کا روپ دھار لیتی ہیں، اگر کوئی لڑکی بےدھیانی میں یا شعوری طور پہ ایسی کسی لکیر پہ پیر رکھ دے تو اب اسے قیمت چکانی پڑے گی ۔ لکیر پہ پیر رکھے بغیر خواب ادھورے رہ جاتے ہیں اور پیر رکھ لو تو آنکھیں بےنور ہو جائیں۔

لیکن یہ خواب ہے، بہت سے لوگوں کا، کہ کسی روز خواب کا یہ منظر بغیر آواز پیدا کئے بدل جائے گا کیونکہ فیض نے اس سفر کی ابتدا بیان کر دی تھی، سو پیکاں تھے پیوست گلو، جب ہم نے رقص آغاز کیا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments