قرضہ معاف کروانے اور پارلیمنٹ سے منہ چھپانے والے


\"edit\"اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے سینیٹ کی کمیٹی کو ان لوگوں کی فہرست فراہم کرنے سے انکار کیا ہے جنہوں نے گزشتہ پانچ برس کے دوران اپنے قرضے معاف کروائے ہیں۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بنک اور وزارت خزانہ کے حکام نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے قانونی ماہرین سے مشورہ کے بعدیہ فیصلہ کیا ہے۔ اس رائے کے مطابق اسٹیٹ بنک لوگوں کے بنک کھاتوں اور حاصل ہونے والی سہولتوں کے بارے میں اخفائے راز کا پابند ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا اس پابندی کا اطلاق ملک کے قانون سازوں پر بھی ہو تا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی 4 نومبر کو ایک رولنگ میں واضح کرچکے ہیں کہ مالیاتی ادارے سینیٹ کی درخواست پر معلومات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ انہوں نے معلومات فراہم کرنے سے انکار کرنے یا غلط معلومات دینے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا تھا۔

وزارت خزانہ کے افسروں کی توجہ جب اس طرف مبذول کروائی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ چیئرمین سینیٹ سے اس رولنگ کو تبدیل کرنے کی درخواست کریں گے کیوں کہ یہ ملک کے نافذالعمل قانون کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف سینیٹ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر ڈاکٹر جہاں زیب جمالدانی کا کہنا ہے کہ ملک کی خفیہ ایجنسیاں بھی حساس معلومات بند اجلاس میں سینیٹ کی درخواست پر فراہم کرتی ہیں۔ اس صورت میں اسٹیٹ بنک کا عذر بے بنیاد اور غیر ضروری ہے۔ سینیٹ کمیٹی نے ماہرین قانون سے رائے لینے کے بعد اس حوالے سے اقدام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے باوجود اسٹیٹ بنک ابھی تک اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر راضی نہیں ہے۔

ملک میں قانون بنانے والی پارلیمنٹ کو بعض افراد کے مالی معاملات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکار دراصل جمہوری روایت اور جوابدہی کے طریقہ کار کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ ملک میں اسی لئے جمہوری روایت کی حمایت کی جاتی ہے کہ لین دین میں شفافیت ہو اور سارے پبلک فنڈز کے استعمال کے حوالے سے معاملات سب کے سامنے لائے جا سکیں تاکہ یہ جانا جا سکے کہ اس عمل میں کہاں کوتاہی ہوئی ہے اور کہاں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ملک کے وزیر اعظم اس وقت سپریم کورٹ میں مالی بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔ وہ قوم سے خطاب کے علاوہ پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے اپنی بے گناہی کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہر قسم کے مالی لین دین میں شفافیت دکھانے اور کرپشن کو برداشت نہ کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔ اس لئے ان کی حکومت کی وزارت اور اس کے تحت کام کرنے والا اسٹیٹ بنک اگر اس سلسلہ میں رکاوٹ بنتا ہے تو اس کی ذمہ داری براہ راست وزیر اعظم پر عائد کی جائے گی۔

جو لوگ ماضی میں بنکوں سے بھاری قرض معاف کرواتے رہے ہیں ، وہ ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ یہ رقوم کسی نہ کسی صورت عام لوگوں کی جیب سے ادا کی جاتی ہیں۔ خاص طور سے جب سیاسی اثر و رسوخ یا تعلقات کی بنیاد پر جعلی منصوبوں پر حاصل کئے ہوئے بھاری قرضے جاری ہوں اور پھر معاف کردئے جائیں تو اس سے بدعنوانی کی حوصلہ افزائی ہی ہوتی ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں کے نام سامنے لانے سے یہ بات واضح ہو سکتی ہے کہ کون لوگ قرضے معاف کروانے کے باوجود رئیسوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں اور غریب ملک کے خزانہ سے اپنی مالی بد اعتدالی کی قیمت وصول کرتے ہیں۔

اس طریقہ کار کا تدارک کرنا کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ لیکن اس حقائق چھپانے کی کوشش سے شبہات یقین میں بدلنے لگتے ہیں جو ملک میں سیاسی اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے حوالے سے مناسب رویہ نہیں ہے۔ حکومت کو فوری طور پر اس معاملہ پر غور کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہئے۔ اگر کوئی قانون واقعی اسٹیٹ بنک کے لئے مشکل کا سبب بنا ہؤا ہے تو اسے فوری طور سے نئے قانون کے ذریعے تبدیل کیا جائے۔ جو لوگ عوام کے پیسہ سے اپنا نقصان پورا کرتے ہیں ان میں اس کا اعتراف کرنے اور سامنے آنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments