بلاول وزیراعظم بننے سے پہلے پارٹی سنبھالیں


\"edit\"پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمانی جمہوری نظام کا حصہ بنتے ہوئے لاڑکانہ کے حلقہ 207 سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ پشاور میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف تین بار اس عہدہ پر فائز رہنے کے باوجود امور مملکت مناسب طریقے سے چلانے میں کامیاب نہیں ہیں۔ لیکن میں 28 برس کا ہوں اور ملک کا وزیراعظم بن کر درپیش مسائل کا سامنا کرنے کےلئے تیار ہوں۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ پیپلز پارٹی ایک قومی پارٹی کے طور پر کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ 2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو سب صوبوں میں کامیابی حاصل ہوگی اور چاروں صوبوں میں ان کی پارٹی حکومت بنائے گی۔ ملک کو نوجوان اور پرعزم قیادت کی ضرورت ہے۔ پاکستانی ایک نوجوان قوم ہیں جن میں 15 سے 35 برس عمر کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ لیکن ملک کے ناقص سیاسی پارٹی نظام کی وجہ سے عمر رسیدہ لوگ پارٹی کی قیادت اور سرکاری عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی میں نئے خون کو شامل کرنے اور قیادت کو باقاعدگی سے تبدیل کرنے کا رواج نہیں ہے۔ اس کی بجائے پارٹیوں کو خاندانوں اور افراد کی میراث میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بلاول بھی 18 برس کی عمر میں بے نظیر بھٹو کی بے وقت شہادت کے سبب پارٹی کے چیئرمین بنے تھے۔ اسی لئے ان کے نام میں بھٹو کا اضافہ کیا گیا تھا تاکہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی میراث کو لے کر آگے بڑھ سکیں۔

بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بلاول کو پارٹی کا چیئرمین بنانے کے باوجود اصل اختیارات آصف علی زرداری کو تفویض ہو گئے تھے جنہیں معاون چیئرمین کا عہدہ دیا گیا ہے۔ دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح پیپلز پارٹی میں بھی انتخابات کی کوئی روایت موجود نہیں ہے اور پارٹی کا چیئرمین نامزدگیوں کے ذریعے پارٹی چلاتا ہے۔ پارٹی چونکہ بھٹو کے نام پر آگے بڑھتی ہے، اس لئے کسی کو اس پر اعتراض بھی نہیں ہوتا۔ آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد حاصل ہونے والی عوامی ہمدردی کی وجہ سے 2008 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اگرچہ انہوں نے خود وزیراعظم بننے سے گریز کیا اور اس مدت میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اس عہدہ پر فائز رہے۔ آصف زرداری پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے کا سہرا بھی اپنے سر باندھتے رہے ہیں لیکن اس مدت میں پارٹی اور حکومت کے سارے اختیارات ان کے ہی ہاتھ میں مرتکز تھے۔ وہ ایوان صدر سے بیک وقت پارٹی اور حکومت کے معاملات پر چلاتے رہے تھے۔ اس دور میں مختلف پارٹیوں کے ساتھ سیاسی مفاہمت سے کام لے کر اور فوج کے سربراہ کو مدت ملازمت میں توسیع دے کر انہوں نے سیاسی بادشاہ گر کی شہرت بھی حاصل کی۔ لیکن ان کی ہی قیادت میں پارٹی کو 2013 کے انتخابات میں ہتک آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب کو اپنی سیاست کا گڑھ بنایا تھا۔ 1986 میں ضیا الحق کے دور میں لاہور میں ہی بے نظیر بھٹو کا فقید المثال استقبال ہوا تھا۔ لیکن آصف علی زرداری کی قیادت میں 2013 کے انتخابات میں ملک کے سب سے بڑے صوبے سے پیپلز پارٹی کا صفایا ہو گیا تھا۔

2018 کا انتخاب جیتنے کےلئے بلاول بھٹو زرداری کو پنجاب کے عوام کے دل جیتنے ہوں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس صوبے میں اب بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ محبت کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ حالانکہ اس وقت جو نسل ملک میں موجود ہے، اس نے ذوالفقار علی بھٹو کا دور نہیں دیکھا لیکن اس کے باوجود ان کے انقلابی نعروں اور عوام دوست حکومت کا خواب اب بھی بہت سے دلوں میں زندہ ہے۔ یہ لوگ بعد کے ادوار میں پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے صرف سیاسی اقتدار کےلئے جوڑ توڑ کرنے کی حکمت عملی کے سبب پارٹی سے دور ہو چکے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ پارٹی میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ پارٹی قیادت نے بھی براہ راست عوامی رابطہ مہم چلانے اور پارٹی کے ڈھانچے کو نوجوان کارکنوں کے ذریعے متحرک کرنے کی بجائے سیاسی خاندانوں کے ذریعے پارٹی کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ یہ پالیسی بھٹو عہد کے اس خوابناک وعدے کے برعکس ہے جس میں عام آدمی اپنی محنت اور وفاداری کی وجہ سے پارٹی میں اپنی جگہ بنانے کے قابل ہو سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی کو دوبارہ عوام کے دلوں کی دھڑکن بنانے کےلئے بلاول بھٹو زرداری کو گراس روٹ پر موجود پیپلز پارٹی یا ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے شیدائیوں کے ساتھ براہ راست رابطہ کا کوئی طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا۔ اگر انہوں نے سیاسی جغادریوں اور برادریوں کی بنیاد پر سیاست کرنے اور نشستیں جیتنے کی پالیسی برقرار رکھی تو وہ بہت بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ پنجاب اور پاکستان کا عام آدمی ایسی پارٹی اور اس کے قائدین کے ساتھ رشتہ استوار کرنے میں ناکام رہے گا۔ اس کے علاوہ پنجاب میں طویل عرصہ تک حکومت کرنے والی مسلم لیگ (ن) برادری اور گروہی سیاسی جوڑ توڑ میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں زیادہ کامیابی ثابت ہوتی رہی ہے۔

 ملک کو نوجوان قیادت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ملک کی آبادی کی بہت بڑی اکثریت بھی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور بدلتے ہوئے حالات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کےلئے نوجوان قائدین بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کا یہ دعویٰ کہ وہ 2018 کا انتخاب جیت کر ملک کے وزیراعظم بنیں گے، نہایت خوش آئند ہے۔ لیکن صرف اعلان کرنے یا نعرہ لگانے سے ملک کا اقتدار حاصل کرنے کا مقصد پورا نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں حقیقی معنوں میں پارٹی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے معمر اور جہاں دیدہ سیاسی سرپرستوں کے چنگل سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت بلاول بھٹو زرداری نوجوانوں کے مقابلے میں بزرگوں کے جلو میں دکھائی دیتے ہیں۔ اگر وہ اپنے اردگرد نوجوان قیادت اکٹھی کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے تو وہ ملک کی نوجوان آبادی اور عہد جدید کے تقاضوں کو کیوں کر پورا کرسکیں گے۔ بلاشبہ انہیں موجودہ سیاسی حیثیت بھٹو خاندان کے سیاسی کام اور قربانیوں کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ سیاسی وارث بننے میں کوئی ہرج نہیں ہے لیکن وہ اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں اگر وہ اس وراثت کو آگے بڑھانے کا فرض ادا کریں گے۔ یعنی عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور ان کے بنیادی مسائل حل کرنے کےلئے جوش و ولولہ کو انگیخت کرتے ہوئے، ملک میں جمہوری انقلاب کی فضا پیدا کرسکیں گے۔

ابھی تو یوں لگتا ہے کہ وہ تقریروں سے لے کر پارٹی معاملات چلانے تک اپنے والد آصف علی زرداری کی انگلی پکڑ کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا بھی ہے کہ وہ جزوی طور پر بلاول کو ’اسپیس‘ دینے کےلئے ملک سے باہر مقیم ہیں۔ تاہم جنرل راحیل شریف کے ریٹائر ہوتے ہی انہوں نے وطن واپس آنے کا اعلان کیا ہے۔ اب یہ فیصلہ بھی بلاول بھٹو زرداری کو ہی کرنا ہے کہ وہ بدستور آصف زرداری کی سرپرستی میں آگے بڑھیں گے یا سیاسی لیڈر کے طور پر اپنی شناخت پیدا کریں گے۔ اگر انہوں نے آصف علی زرداری کی بجائے خود پارٹی اور اس کی سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کےلئے اقدام نہ کیا اور پارٹی آصف علی زرداری کے پرانے آزمودہ ’سنہری گٹھ جوڑ‘ کے اصولوں کے تحت ہی 2018 کے انتخابات میں سامنے آئی تو اسے چونکا دینے والی کامیابی ملنے کا امکان نہیں۔ 2008 کے مقابلے میں ہو سکتا ہے پارٹی چند مزید نشستیں حاصل کرلے لیکن حکومت بنانے کےلئے اسے ایک سے زیادہ پارٹیوں کے ساتھ سیاسی اشتراک کرنا پڑے گا۔ ایسے میں بلاول اگر وزیراعظم بن بھی گئے تو ان کی حیثیت یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سے مختلف نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اگر وہ پارٹی کو اپنے اختیار میں لینے ، پرانی نسل کے لیڈروں کو آرام کرنے کا مشورہ دے کر نوجوان کارکنوں میں سے اپنے لئے بااعتماد ساتھی تلاش کرنے میں کامیاب ہو سکیں تو وہ واقعی ملک کی سیاست میں ڈرامائی خوشگوار تبدیلی کی قیادت کر سکیں گے۔ تاہم اس کا فیصلہ بلاول کو فوری اور جلد ہی کرنا ہوگا۔ یہ بھی طے کرنے کی ضرورت ہو گی کہ انہوں نے 2018 کے انتخابات کی تیاری کرنی ہے یا آئندہ برس نواز شریف کی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گزارنا ہے۔

مسلم لیگ (ن) اقتدار میں رہنے کے باوجود سیاسی لحاظ سے اس قدر کمزور نہیں ہوئی جس قدر پیپلز پارٹی 2013 کے انتخابات میں ہو چکی تھی۔ نواز شریف اب بھی 2018 کا انتخاب جیتنے کےلئے پرعزم ہیں۔ لیکن ان کی ساری سیاسی قوت پنجاب میں جمع ہے۔ وہ دیگر صوبوں میں اپنی پارٹی کےلئے جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اگر وہ پنجاب میں اپنی ماضی کی کامیابی کو برقرار نہ رکھ سکے تو مرکز میں ان کےلئے حکومت بنانا مشکل ہو جائے گا۔ ان کی سیاسی قوت کو تحریک انصاف بھی توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کا وہ ووٹر واپس لانا ہوگا جو کسی نہ کسی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی طرف چلا گیا ہے۔ اب بھی پیپلز پارٹی پنجاب میں تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قوت کےلئے زیادہ بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس مقصد کےلئے پارٹی کو ابھی سے 2018 کے انتخاب کو پیش نظر رکھتے ہوئے، حکمت عملی بنانے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب بلاول بھٹو زرداری ملک پر حکومت کا خواب دیکھنے سے پہلے پارٹی کا مکمل اختیار اپنے ہاتھ میں لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments