نسیم حجازی ایک طعنہ نہیں بلکہ ایک تمغہ ہیں


کل ایک گمراہ ویب سائٹ پر کسی جاہل مصنف نے مضمون لکھا ہے کہ ’نسیم حجازی صاحب ایک طعنہ کیوں بن گئے ہیں؟‘ سب سے پہلے تو ہم اس گمراہ لکھاری کو یہ کہنا چاہیں گے کہ وہ نسیم حجازی صاحب کے ناول پڑھے۔ اگر وہ پھر بھی ان کے سحر میں مبتلا نہیں ہوتا ہے تو اس کے بعد وہ منطقی انداز میں سوچنے پر حق بجانب ہو گا۔ سنہ پچاس کی دہائی سے لے کر آج تک پاکستان میں ہر شخص نے نسیم حجازی صاحب کی کتابیں پڑھ کر ہی کتب بینی کا شوق پالا ہے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا ہے کہ اس زمانے میں کوئی دوسرا مصنف رتی برابر بھی پڑھا جاتا ہو۔

لبرلوں کی ذہنیت سے ہم خوب آگاہ ہیں، وہ دو چار نام جو آپ لینا چاہتے ہیں، انہیں ہم سرے سے مصنف ہی نہیں مانتے ہیں۔ بھلا کون صحیح الدماغ شخص ابن صفی، مظہر کلیم، شفیق الرحمان، ابن انشا، یوسفی، کرنل محمد خان، انتظار حسین، عبداللہ حسین، مستنصر حسین تارڑ، یا دائجسٹوں کی دنیا کے شکیل عادل زادہ، احمد اقبال، محی الدین نواب، اقلیم علیم، ایم اے راحت وغیرہ وغیرہ کی تحریروں کے متعلق یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ پڑھی جاتی تھیں؟ آج بھی کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے پوچھ لیں کہ اردو کا عظیم ترین ناول کون سا ہے، تو وہ بلا سوچے سمجھے ’قیصر و کسرٰی‘ کا نام لے گا۔ اگر وہ ’آگ کا دریا‘ کہے تو غالب امکان یہی ہے کہ وہ ایرانی ایجنٹ اور آتش پرست مجوسی ہے۔ آگ کی تعریف کرنے کی کوئی دوسری توجیہہ ہماری فہم سے تو بالاتر ہے۔

معترضین اس بات پر غور کریں کہ اگر نسیم حجازی صاحب کے ناول نہ ہوتے تو قوم میں جہاد کا سحر کیسے پیدا ہوتا؟ صرف سید مودودی کی کتب پڑھ کر تو یہ ممکن نہیں تھا۔ اسلاف کے کارنامے یاد کرائے بغیر کیسے قوم کے نوجوانوں کو لڑ مرنے کا جوش اور ولولہ دلایا جا سکتا ہے؟

وہ سنہری دور یاد آتا ہے جب افغانستان میں روسی کفار نے حملہ کر دیا تھا۔ یہاں وطن عزیز سے بے شمار مجاہدین وہاں گئے اور ’معظم علی‘ اور ’شاہین‘ کی مانند پاکستان کا نام ایسا روشن کیا کہ آج تک افغانستان میں کوئی بھی کارروائی ہو تو اس میں پاکستان کا نام ہی لیا جاتا ہے۔ کسی بھی افغان کے سامنے پاکستان کا نام لیا جائے تو وہ شکرگزاری سے مغلوب ہو کر ہاتھ جوڑ کر کہتا ہے کہ آپ کے ہم پر پہلے ہی بہت احسانات ہیں، اب بھارت وغیرہ کو افغانستان کی خدمت کا موقع دیں۔

ہمارے مجاہدین نے سوویت یونین جیسی سپر پاور کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔ سوویت یونین کے ساڑھے چودہ ہزار فوجی مار کر اسے شکست فاش دی گئی۔ ہمارے مجاہدین پر خدا کی خاص رحمت تھی اور صرف نوے ہزار مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا۔ اس کے علاوہ دس سے بیس لاکھ عام افغان شہریوں کو روسیوں یا مجاہدین کے ہاتھوں جنت نصیب ہوئی، پچاس لاکھ کے قریب ملک سے نکل کر پاکستان اور ایران کے مہاجر کیمپوں میں رہنے لگے، اور بیس لاکھ کے قریب ملک کے اندر ہی در بدر ہوئے۔ ملک کا چپہ چپہ لینڈ مائن اور دوسرے مہلک ہتھیاروں سے اٹ گیا۔ ایسی عظیم الشان فتح چشم فلک نے کم ہی دیکھی ہو گی۔

ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھی ہم نے بہت شاہین بھیجے ہیں۔ اب تو وہ کشمیری بھی جذبہ شکرگزاری سے ممنون ہو کر یہی کہنے لگے ہیں کہ بھارت ہار چکا ہے اور ہم اپنے مجاہدین کی توجہ کسی دوسرے محاذ کی طرف مبذول کریں اور ان کی مزید خدمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

نائن الیون کا حملہ کون کمبخت بھول سکتا ہے۔ جب مجاہدین نے متکبر امریکہ کا غرور پاش پاش کر ڈالا اور اس کے تین ہزار نہتے شہری مار دیے، تو اس نے وحشت و بربریت کی داستانیں رقم کرتے ہوئے افغانستان اور عراق میں خون کی ایسی ہولی کھیلی کہ لاکھوں کروڑوں مسلمان مار ڈالے۔ شہر کے شہر کھنڈر کر دیے۔ ان ممالک کو مزید کئی دہائیوں کے لئے حالت جنگ میں مبتلا کر دیا۔ افغانستان میں 2001 سے 2014 تک کوئی ساڑھے تین ہزار نیٹو فوجی جہنم واصل کیے گئے، جبکہ کم و بیش چالیس ہزار طالبان اور بائیس ہزار کے قریب افغان حکومتی فوجی مارے گئے۔ چھبیس ہزار کے قریب افغان شہریوں کو بھی شہادت کا رتبہ نصیب ہوا۔

عراق پر حملے میں امریکہ کو سخت ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اسے بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور اس کے پورے 172 فوجی ہلاک ہوئے جبکہ عراقی فوج کے صرف تیس ہزار کے قریب فوجی مارے گئے۔ اگلے برسوں میں کوئی آٹھ دس لاکھ عراقی شہری بھی جنت مکانی ہوئے اور تیس لاکھ کے قریب در بدر ہوئے۔ امریکہ کو ایسی شرمناک شکست ہوئی کہ اسے عراق سے نکلنا پڑا۔

دوسرے محاذوں، یعنی شام اور عراق میں چند خوش نصیب مجاہدین ہی جا سکتے ہیں، اس لئے اس وقت بیشتر مجاہدین یہاں پاکستان اور افغانستان میں ہی جہاد کی مشق کر رہے ہیں اور اس مشق سے فارغ ہو کر مجاہدین جب کفار پر حملہ کریں گے تو ان کی فتوحات دیکھنے والی ہوں گی۔ اندازہ کریں کہ جنگی مشقیں کرتے ہوئے ہی انہوں نے ساٹھ ستر ہزار پاکستانی مار ڈالے ہیں، تو اصل جنگ میں کفار کا کتنا نقصان کریں گے۔

بہرحال نائن الیون کے بعد سے تو کفار کے دل پر ہمارے دیسی حجازی مجاہدین کی ایسی ہیبت بیٹھی ہے کہ مشرق وسطی سے لے کر یورپ اور امریکہ تک ہر امیگریشن کاؤنٹر پر پاکستانی کو دیکھتے ہیں ان فرنگیوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور وہ تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔ اپنے حواس بحال کرنے کے لئے وہ پاکستانیوں کو امیگریشن لائنوں سے نکال کر الگ کمروں میں بھیجتے ہیں اور دو چار گھنٹے بعد ان کے حواس بحال ہوں تو پھر ہی پاکستانیوں سے بات کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ نابکار کفار ایسے بری طرح سہمے ہوتے ہیں کہ کپڑے جوتے سب اتروا کر پاکستانیوں کی تلاشی لیتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔

مجاہدین کی ان عظیم فتوحات کو دیکھتے ہوئے ہم تو یہی کہیں گے کہ نسیم حجازی صاحب کا نام ایک طعنہ نہیں بلکہ ایک تمغہ ہے جن کی سحر انگیز کتابیں پڑھ پڑھ کر پاکستانی قوم نے مل جل کر رہنے کی بجائے لڑنا سیکھا ہے اور مغربی قوموں کی مانند اپنے حال کو رنگین بنا کر فسق و فجور میں پڑنے کی بجائے اپنے درخشاں ماضی پر بجا طور پر فخر کرنے کی عادی ہو گئی ہے۔

ممکن ہے کہ آپ نسیم حجازی صاحب کی بجائے ان مجاہدین میں جنگ کا شوق پیدا کرنے کا کریڈٹ کسی اور کو دینا چاہیں، تو آپ اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہیں مگر ہم تو یہی مانتے ہیں۔


نسیم حجازی ایک طعنہ کیوں بن گئے ہیں؟ 
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments