فیدل کاسترو سیاسی رہنما تھے، مذہبی اوتار نہیں


\"wajahat1\"کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو 25 نومبر 2016 کو انتقال کر گئے۔ 1959 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعہ بر سر اقتدار آنے کے بعد وہ ساٹھ برس تک کیوبا کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ فیدل کاسترو بحر اوقیانوس کے پار پہلی اور آخری اشتراکی حکومت کے قائد تھے۔ سترہ برس تک وہ کیوبا کے وزیراعظم رہے۔ اگلے تیس برس تک یعنی 1976 سے 2006 تک کیوبا کے صدر رہے۔ 1961 سے لے کر 2011 تک وہ کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کے فرسٹ سیکریٹری رہے۔ 2006 میں انہوں نے انتظامی ذمہ داریاں اپنے چھوٹے بھائی کو منتقل کر دیں۔ فیدل کاسترو ایک خاص عہد میں نمودار ہونے والی توانا سیاسی آواز اور دنیا بھر میں بائیں بازو کی تحریک کا استعارہ تھے۔ ان کی قیادت میں کیوبا نے بے آف پگز پر امریکی سی آئی اے کے حملے کا منہ توڑ جواب دیا۔ کیوبا میں سوویت یونین کے ایٹمی میزائل نصب ہونے کے بعد فیدل کاسترو روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں مرکزی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ جس طرح بے آف پگز میں امریکہ کو ناکامی ہوئی، اسی طرح میزائل بحران میں سوویت رہنما خروشیف اور فیدل کاسترو کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ فیدل کاسترو نے چلی، بولیویا، نکراگووا، گریناڈا میں اشتراکی انقلاب برآمد کرنے کی کوشش کی۔ سرد جنگ کے مخصوص اتار چڑھاؤ میں یہ کوششیں کامیابی اور ناکامی کے درمیانی منطقے تک محدود رہیں۔ آخری برسوں میں فیدل کاسترو نے وینزویلا میں ہیوگو شاویز کی نیم اشتراکی لہر کا ساتھ دینے کی کوشش کی لیکن وینز ویلا اپنے ہی اقتصادی بحران میں غرق ہو گیا۔

فیدل کاسترو نے کیوبا میں ریاستی مداخلت پر مبنی معاشی نمونہ تعمیر کرنے اور ایک پارٹی کی سیاسی آمریت قائم کرنے کی کوشش کی۔ فیدل کاسترو کے اقتدار کے \"image003\" دوران ہی سوویت یونین، مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں اشتراکی حکومتیں ختم ہوئیں۔ 1990 تک کیوبا کو سوویت یونین سے اوسطً 4 سے 6 ارب ڈالر سالانہ کی امداد مل رہی تھی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کیوبا کی معیشت اس عطیہ سے محروم ہوگئی اور کیوبا کی معیشت کا جہاز پھر کبھی سنبھل نہیں سکا۔ فیدل کاسترو ایک سیاسی رہنما تھے۔ تاریخ میں ان کی قدر پیمائی کے لئے سیاسی نظام اور معیشت کے پیمانے ہی استعمال کیے جائیں گے۔ تاہم انہیں ایک عظیم انقلابی شخصیت ہونے کا بھی دعوی تھا۔ وہ کئی برس تک غیر جانب دار ممالک کی تنظیم کے سربراہ رہے۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں ان کی پرجوش تقریروں کی طوالت ضرب المثل تھی۔ ایسی محیر العقول شخصیت کے ذاتی حقائق بھی انسانی تاریخ کا حصہ قرار پاتے ہیں۔ جمہوری نظام میں سیاسی بند و بست کے تسلسل اور اداروں کے استحکام کی بات کی جاتی ہے۔ انقلابی فکر میں دعوی کیا جاتا ہے کہ سیاسی فکر کی حقانیت سے جنم لینے والے اجتماعی نمونے نے ایک نابغہ روزگار لیڈر کو جنم دیا ہے۔ سوویت یونین میں مارشل سٹالن، چین میں چئیرمین ماؤ، جرمنی میں ایڈولف ہٹلر، کوریا میں کم ال سنگ، جاپان میں جنرل ٹوجو، لیبیا میں کرنل قذافی، مصر میں جمال عبدالناصر، انڈو نیشیا میں سہارتو، اٹلی میں مسولینی، ایران میں امام خمینی اور کیوبا میں فیدل کاسترو کی شخصیت کے جادوئی اثرات سے کون انکار کر سکتا ہے۔ ہم نے خود اپنے ملک میں فیلڈ مارشل ایوب خان، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور مرد مومن ضیاء الحق شہید کے بابرکت ادوار سے فیض اٹھا رکھا ہے۔جب اس نمونے کی سیاست کی جاتی ہے تو چئیرمین ماؤ کا نجی معالج ان کی ذاتی زندگی پر ضخیم کتاب لکھتا ہے۔ سٹالن کے عہد پر مستند ترین تبصرہ کامریڈ خروشیف اپنی خود نوشت (I Remember) میں کرتے ہیں۔ ہٹلر اور مسولینی جرمنی اور اٹلی کی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایسے میں معلوم نہیں کہ محترم بھائی عابد میر کو محترم ناصر صلاح الدین کی تحریر میں بیان کردہ چند حقائق سے انقلابی رہنما فیدل کاسترو کی ذات اقدس کے بارے میں توہین اور \"1047862182\"کردار کشی کا شیبہ کیوں کر ہوا۔ مارکسزم کے سیاسی اور معاشی افکار کو سائنس ہونے کا دعوی ہے۔ سائنس اور عقیدے میں بنیادی فرق یہی ہے کہ سائنسی نتائج حقائق اور شواہد کے تابع ہوتے ہیں اور انہیں جذباتی وابستگی کی بنیاد پر قبول یا رد نہیں کیا جاتا۔ سائنسی فکر اپنی بنیاد میں تعصب، لاعلمی اور تقلید کی نفی کرتی ہے۔ فیدل کاسترو ایک سیاسی رہنما تھے۔ انہیں مذہبی اوتار، روحانی شخصیت یا الوہی مقام کا دعوی نہیں تھا۔ ان کے بارے میں معیشت اور سیاست کی بنیاد پر بھی بات کی جائے گی اور ان کی زندگی کے ذاتی حقاق بھی تاریخ کی امانت ہیں۔

فیدل کاسترو نے کیوبا پر شخصی حکومت نافذ کی۔ وو سینتالیس برس تک براہ راست حکومت کے سربراہ رہے اور پھر اقتدار اپنے بھائی کے ہاتھ سپرد کر دیا۔ نصف   صدی کے اس سفر میں کیوبا میں کوئی اپوزیشن جماعت یا مخالف رہنما سامنے نہیں آ سکا۔ کیوبا کے عوام کو کبھی آزادانہ انتخاب کے ذریعہ فیدل کاسترو کی حکومت پر اپنی رائے دینے کا موقع نہیں ملا۔ فیدل کاسترو کے نظام حکومت میں رہنماؤں کی سیاسی یا قانونی جواب دہی کا کوئی نظام قائم نہیں کیا گیا۔ کیوبا میں صحافت کی آزادی کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ فیدل کاسترو کے دور حکومت میں لوگ مسلسل کیوبا چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لیتے رہے۔ یہ عمل انقلاب کے فوری بعد تک محدود نہیں\"meeting-with-khrushchev-kremlin-1963\" تھا جس میں یہ بہانہ کیا جاسکے کہ انقلاب نے جن لوگوں کے مفادات کو نقصان پہنچایا وہ اپنی دولت بچانے کے لئے کیوبا سے فرار ہوئے۔ کیوبا کی کل آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ ہے۔ کیوبا کے پندرہ لاکھ باشندے صرف امریکا میں پناہ لے چکے ہیں۔ اپریل 1980 سے اکتوبر 1980 کے چھ مہینوں میں معروف میرل بوٹ ہجرت کے ذریعہ امریکہ میں پناہ مانگنے والوں کی بڑی تعداد 1959 کے انقلاب کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ پیرو کے سفارت خانے پر حلہ بولنے والے پناہ گزینوں کا واقعہ تاریخ کا حصہ ہے۔ فیدل کاسترو نے عوامی جلسے میں ان لوگوں کو \”گھٹیا مخلوق\” قرار دیا تھا۔ فیدل کاسترو کی اپنی بیٹی 1993 میں امریکہ چلی گئی۔ سوویت رہنما سٹالن کی بیٹی سویتلانا نے بھی مغرب میں پناہ لی تھی۔ سوال یہ ہے کہ نکسن، کینیڈی، نہرو اور مارگریٹ تھیچر کے بچے اشتراکی ممالک میں پناہ لینے کیوں نہیں گئے۔ برلن میں ایک دیوار اٹھائی گئی تھی۔ لوگ اس دیوار کے دوسری طرف جانے کے لئے جان کا خطرہ مول لے لیتے تھے۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ دیوار پھاندنے والے مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی کا رخ کرتے تھے۔ کسی نے اشتراکی برلن میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی۔ سویڈن اور ناروے میں خود \"castro-daughter\"کشی کی شرح بلند ہے لیکن یہ لوگ ایسی جہنمی زندگی کو چھوڑ کر ایران اور سعودی عرب کا رخ کیوں نہیں کرتے۔ کیوبا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بیرون ملک سفر کے لئے وزارت داخلہ ویزہ جاری کرتی رہی ہے۔

کسی سیاسی نظام کے استحکام کا ایک بنیادی پیمانہ پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ کار ہے۔ شمالی کوریا، کیوبا، چین اور سوویت یونین میں انتقال اقتدار کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں ہوسکا۔ ایسے میں اقتدار سازش کا اسیر ہوجاتا ہے۔ صاحب اقتدار کے خلاف سازش بھی کی جاتی ہے اور وہ اپنی شخصیت کا جادو زندہ رکھنے کے لئے قاتلانہ حملوں کا ناٹک بھی رچاتا ہے۔ ایک خاص ضابطے کے ذریعہ اقتدار کی منتقلی ممکن نہ رہے تو ریاست خوف، جبر، تشدد اور سازش کی آماج گاہ بن جاتی ہے۔اگر اس کی نشاندھی کی جاتی ہے تو اس میں کامریڈ فیدل کاسترو کی توہین کا پہلو کہاں سے برآمد ہوتا ہے۔ اپ جواب میں فرما دیجیے کہ فیدل کاسترو سینتالیس برس بر سر اقتدار نہیں رہے بلکہ انہوں نے تو پانچ برس بعد ہی بذریعہ انتخاب اقتدار منتقل کر دیا تھا تاہم خیال رہے کی تاریخ یہ کارنامہ نیلسن منڈیلا سے منسوب کرے گی، فیدل کاسترو سے نہیں۔

آیئے کیوبا کی معیشت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ کیوبا میں متوقع عمر 78 برس ہوچکی ہے۔ تعلیم اور دوسرے روزگار اور قانون میں صنفی امتیاز کی \"castro-4\"شدت بہت کم ہے۔ کیوبا میں مذہبی آزادیوں پر کوئی خاص پابندی نہیں۔تعلیم اور صحت کی سہولتیں قابل تعریف ہیں۔ تاہم کیوبا کی معیشت کی شرح نمو صرف 1.6 فیصد ہے۔ سوشلزم کی دعوے دار معیشت میں درآمدات کا حجم چودہ ارب ڈالر ہے اور برآمدات صرف چار ارب ڈالر۔ بجٹ کا خسارہ 5.4 فیصد ہے۔ لیکن بجٹ کا خسارہ 5.4 فیصد ہے۔ 71 فیصد روزگار خدمات کے شعبے سے وابستہ ہے۔ انسانی ترقی کے اشاریے پر کیوبا کا درجہ 67 ہے۔ حالیہ برسوں میں علم کی معیشت سامنے آنے کے بعد innovation یعنی اختراع کی صلاحیت کسی ملک کے اقتصادی امکانات کا ایک اہم اشارہ ہے۔ دنیا کی اختراعی درجہ بندی میں 128 ممالک میں سے بھارت کا درجہ 66 اور پاکستان کا درجہ 119 ہے۔ بحر الکاہل میں لاطینی امریکہ کے ممالک میں میکسیکو، چلی اور کوسٹا ریکا سرفہرست ہیں۔ اس فہرست میں کیوبا کا کہیں نام و نشان نہیں۔ دنیا کی پہلی سو بہترین تعلیمی درسگاہوں میں کیوبا کا کوئی ذکر نہیں۔ معاشی نمونے کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے ممالک میں اسے ایک مثال کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ کیوبا کے گرد و نواح بلکہ دنیا کے کسی کونے میں معیشت دانوں یا عوام نے کیوبا کے معاشی نمونے کو در خور اعتنا نہیں سمجھا۔

محترم بھائی عابد میر کو ناصر صلاح الدین صاحب کی تحریر پر پھکڑپن کی پھبتی کہنے کا پورا حق ہے۔ انہیں وجاہت مسعود کے ادارتی معیارات کو رد کرنے کا پورا \"the-double-life-of-fidel-castro\"استحقاق حاصل ہے۔ وہ ناپسندیدہ حقائق کو بے سروپا قرار دے سکتے ہیں۔ وہ ہم سب پر چاند ماری بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ غم و غصہ کا اظہار کرنے کی بجائے یہ وضاحت فرما دیں کہ ناصر صلاح الدین صاحب نے فیدل کاسترو کے والد محترم کا اسم گرامی غلط لکھا ہے یا ان کی دولت کا تخمینہ درست نہیں دیا؟ کیا فرینکلن روزویلٹ کے نام چودہ سالہ کاسترو کا خط جعل سازی کا نمونہ ہے؟ کیا فیدل کاسترو نے پوپ سے ملاقات نہیں کی تھی؟ کیا وہ علانیہ الحاد کے ساتھ ساتھ مسیحی شناخت سے وابستگی کا ذکر نہیں کرتے تھے؟ فیدل کاسترو کی کتاب \”آن ریلیجن\” ہم جیسے نیاز مندوں نے اسی کی دہائی میں پڑھ رکھی ہے۔ وہ ایک شاندار انسان اور توانا مفکر تھے۔ انہوں انفعالی عقیدت کا نشانہ بنانا فیدل کاسترو کی توہین ہے۔ جنسی تعلقات کو کردار کشی کے لئے وہ عناصر استعمال کرتے ہیں جو جنس اور اس کے متعلقات سے انکار کرتے ہیں۔ روشن خیال لوگ باہم رضا مندی سے جنسی تعلق کو طعنے اور دشنام کا معامله نہیں سمجھتے۔ البتہ یہ ایک عمرانیاتی حقیقت ہے کہ مطلق العنان اقتدار میں وجود کی بے معنویت جنسی فعل کو ذات کی کج روی میں بدل دیتی ہے۔ آمریت ناگزیر طور پر خوف، تشدد، سازش اور بغیر محبت کے جنسی فتوحات  جیسی تاریکی میں اتر جاتی ہے۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ چو این لائی اور ماؤ کی شخصی زندگی میں کیا فرق تھا۔ مارکسزم کے طالب علم جانتے ہیں کہ ہوچی منہ اور ٹراٹسکی کی جنسی اخلاقیات میں کیا فرق تھا۔ شمالی کوریا کے موجودہ رہنما کم ال جونگ اور کرنل قذافی میں شخصی ترجیحات کے کونسے زاوئیے مشترک تھے۔ محترم عابد میر سے عرض ہی کی جا سکتی ہے کہ فیدل کاسترو کی عظمت، ناانصافی، استحصال اور جہالت کے خلاف ان کی بے پناہ استقامت میں ہے۔ انہوں نے بحر الکاہل کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر بیٹھ کر امریکی سی آئی اے اور سرمایہ دار دنیا کی بے پناہ طاقت کا جس طرح مقابلہ کیا وہ دنیا \"51kuu7frgol-_sx320_bo1204203200_\"بھر کے انصاف پسند اور آزادی پسند انسانوں کی کئی نسلوں کے لئے مشعل راہ بنے گا۔ کامریڈ فیدل کاسترو کی سیاسی، معاشی اور سماجی میراث کا سائنسی معروضیت کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے۔ اس سے سبق حاصل کر کے آئندہ کی راہیں تراشنے کی ضرورت ہے۔فیدل کاسترو نے اپنا کردار بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ادا کیا۔ ہم اکیسویں صدی کے پہلے نصف میں زندہ ہیں۔ یہاں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ جمہوریت کے اصولوں، انسان دوستی کی اقدار اور منافع کی منہ زور یلغار میں کس طرح توازن پیدا کیا جائے کہ فرد اور گروہ کے لئے ناانصافی سے نجات مل سکے اور آزادی کے منطقے کو وسیع کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments