چنوا اچیبے: وطن اور جلاوطنی (5)


\"nasirاچیبے کے یہاں یورپ کے خلاف مزاحمت ضرور موجود ہے مگر وہ جگہ جگہ افریقا یورپ کی ثنویت سے دامن چھڑانے کی سعی بھی کرتے ہیں۔ مابعد نو آبادیاتی مطالعات میں ہمیں نقادوں کا ایک گروہ ایسا ملتا ہے جو یورپ افریقا یا یورپ ایشیا کی ثنویت کا شدت سے قائل ہے۔ اس کی نظر میں ہر یورپی مصنف، یورپی استعماریت کا حلیف ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ یورپی ادیب اپنی اوّل وآخر شناخت اپنے نسلی، لسانی، تاریخی سیاق میں کرتا ہے، یا اس کا تخلیقی ضمیر عام انسانی امنگوں، صورت حال کے بجائے اپنی ریاست کی سیاسی پالیسیوں کا تابع فرمان ہوتا ہے۔ نیز ثنوی فکر ہر یورپی مظہر کی تفہیم افریقی ایشیائی مظہر کی نقیض کے طور پر کرتی ہے۔ یورپ اگر روشن خیالی کا نمائندہ ہے تو ایشیا افریقا عقل دشمن اورتوہم پرست ہے۔ چناں چہ یہ ثنوی فکر، روشن خیالی اورجدیدیت کو خالص مغربی ثقافتی مظاہر قرار دے کر نہ صرف مسترد کرے گی، بلکہ ایشیائی افریقی ثقافت میں ان کے متبادل کے طور پر ایسی مثالیں ڈھونڈے گی جو ایک طرح کی مابعد الطبیعیاتی مزاج کی حامل ہوں گی اور روشن خیالی و جدیدیت کی نقیض ہوں گی۔ اس طور ثنوی فکر خود اپنے منشا یعنی ردّ نوآبادیاتی مقصد کے برعکس درپردہ نو آبادیاتی ایجنڈے کی تکمیل کرے گی۔ اس امر کا احساس چنوا اچیبے کے یہاں موجود ہے، اس لیے وہ اپنے خطبات میں یورپ بہ مقابلہ افریقا کا حتمی زمرہ فکر قائم نہیں ہونے دیتے۔ وہ اس مﺅ قف کے حامی ہیں کہ محض یورپی ادیب ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جب بھی افریقا سے متعلق لکھے گا تو اسی سٹیریو ٹائپ کا شکار ہو گا جسے استعماری فکر نے تشکیل دیا۔ وہ ایک تخلیق کار کے سلسلے میں یقین رکھتے ہیں کہ وہ ایک \"35322171\"موقف کا حامل ہوگا۔ وہ ڈ یلن ٹامس کے اس قول کے حامی ہیں کہ ”ایک فن کار بس ایک موقف اختیار کر سکتا ہے:وہ راست باز اور کھرا ہو۔ “یہ موقف ہی اسے اپنی نسلی، لسانی، قومی، ثقافتی شناخت سے بالا تر ہونے اور ایک انسانی شناخت قائم کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ عملاً یہ موقف اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کوئی تخلیق     کار اپنے ماضی کے اثرات کے سلسلے میں تنقیدی آگاہی اور ان سے بلند ہونے کی صلاحیت کا مظاہرہ نہ کرے؛ وہ اصل اور سٹیریو ٹائپ میں امتیاز قائم نہ کر لے۔ اچیبے اس ضمن میں ایف جے پیڈلر(جو ممتاز برطانوی بیوروکریٹ تھے ااور افریقا میں مقیم رہے) کی کتاب West Africa(1951)کی مثال دیتے ہیں جس میں اس گم راہ کن بات سے انکار کیا گیا ہے کہ افریقی اپنے لیے بیویاں خریدتے ہیں۔ پیڈلر کی یہ بات بڑی حد تک جوائس کیری کے ناول میں درج اس واقعے کے ردّ میں لکھی گئی ہے جس میں ہیرو جونسن اپنے لیے ایک مقامی لڑکی بامو خریدتا ہے۔ پیڈلر یہ بھی کہتا ہے کہ افریقیوں کو اپنی کہانیاں خود لکھنی چاہییں۔ اچیبے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اموس طوطولا کے ناولThe Palm-wine Drinked (1952)پر ڈیلن تھامس اور ایلزپتھ ہکسلے کے ردّعمل کا مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ ویلش مصنف نے اس ناول کو ” شستہ، راست، مضبوط، بانکا، خالص اور پر لطف“ قرار دیا جب کہ انگریز مصنفہ نے اسی ناول کو نہ صرف ایک لوک کہانی کہا جس میں بے ڈھنگی، مسخ شدہ شاعری کی بھرمار ہے، بلکہ اس کی بنیاد پر افریقی ادب سے متعلق ایک عمومی نتیجہ بھی اخذکر لیا کہ اصل افریقی ادب کبھی دل چسپ، اعلیٰ یا سنجیدہ نہیں ہوا، اسی لیے یہ شاید ہی کبھی عظمت حاصل کر سکے۔ یہ ایک لطف مزاح کے ساتھ خوف، اذیت اور بزدلی کی گہرائیوں کو کھوجتا رہے گا۔ ایک ہی ناول سے متعلق دو یورپیوں کی متضاد آرا کا سبب اس کے سواکچھ نہیں کہ ایک مصنف نے کھرا موقف اختیار کیا، جب کہ دوسری مصنفہ نے اپنے تخلیقی ضمیر کو اپنی ریاست کی استعماری پالیسی کا وفادار بنایا۔ تنقیدی محاورے میں وہ اپنے ماضی کے اثرات کے سلسلے میں تنقیدی آگاہی اور بالیدگی کا مظاہرہ نہ کر سکیں۔

اچیبے نے اسی ضمن میں لندن میں مقیم کچھ افریقی طلبا کے طوطولا کے ایک دوسرے ناول My Life in the Bush of Ghost(1954) پر ردّعمل کا ذکربھی کیا ہے۔ ان طلبا نے ویسٹ افریقا نامی رسالے میں رائے دی کہ افریقی مصنفین خراب انگریزی میں لوک کہانیاں پیش کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے اس ناول کو پڑھا تک نہیں \"chinua_achebe\"تھا۔ اچیبے انھیں ’جڑوں سے اکھڑے لوگوں کی نفسیات‘ کا حامل قرار دیتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں میں نہ صرف اپنی ثقافتی شناخت کے سلسلے میں نا قابلِ فہم ندامت پائی جاتی ہے بلکہ بہ قول اچیبے ان میں عزت نفس باقی نہیں رہتی۔ وہ خود کو یورپی نظر، معیارو ذوق سے دیکھتے، کم تر پاتے اور شرمندہ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں میں ان تمام علامتوں کے سلسلے میں ندامت و حقارت کے ملے جلے جذبات پائے جاتے ہیں جو انھیں ان کا ماضی یاد دلائیں۔ ایک حدتک یہ لوگ بھی ثنوی فکر کے اسیر ہوتے ہیں۔ وہ ہر مقامی شے، مظہر کو، یورپی شے و مظہر کے مقابلے میں کم تر خیال کرتے ہیں۔ وہ یورپ و افریقا کے ثنوی مخالف جوڑے سے اپنے ذہن کو آزاد نہیں کر سکتے، اس لیے اپنی افریقی ثقافتی شناخت کا تصور اس اساطیری مظہر کے طور پر کرتے ہیں جسے عقلیت پسند یورپ وحشیانہ عہد کی یاد گار قرار دیتا ہے۔ چناں چہ قبل نو آبادیاتی عہد کی افریقی کہانیوں کودورِ وحشت کی پیداوار سمجھ کر ان سے حقارت آمیزگریز اختیار کرتے ہیں۔ اچیبے اسی ضمن میں وی ایس نائپال کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ نائپال کو ہندوستان میں پسماندگی اورغلاظت ہی نظر آتی ہیں اور وہ اپنے آبائی وطن ٹرنیڈاڈ سے متعلق بے دھڑک کہتے ہیں کہ ”میں بندر(جو جمہور کے لیے ایک محبت بھرا لفظ ہے ) کو کتاب پڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ اب میری کتابیں ٹرنیڈاڈ میں نہیں پڑھی جاتیں۔ یہ لوگ محض جسمانی زندگی بسر کرتے ہیں جو میرے لیے نفرت انگیز ہے۔ “نائپال نے افریقا سے متعلق بھی ایک ناول A Bend in the River کے نام سے لکھا ہے۔ اچیبے کے نزدیک یہ ناول افریقیوں کے بارے میں ضرور ہے، افریقیوں کے لیے نہیں ہے۔ اس ضمن میں وہ طوطولا اور اچیبے کی صف میں نہیں، جوائس کیری، کونارڈ اور ایلزپتھ ہکسلے کی صف میں کھڑا ہے۔ ہر چند اچیبے کے خیال میں مقامی آدمی ہی بہتر طورپر مقامی کہانی لکھ سکتا ہے، مگر ضروری نہیں کہ ہر مقامی مصنف استعماری کہانیوں کی جوابی کہانی لکھ سکے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہر \"chinua-achebe_510x510\"یورپی مصنف ضروری نہیں کہ افریقا سے متعلق یورپی سٹیریو ٹائپ کا شکار ہو۔ اچیبے ایک مرتبہ پھر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ روایت اخذ کی جاتی ہے؛ یہ محض نسلی، لسانی، ثقافتی تعلق سے از خود حاصل نہیں ہوتی۔ اچیبے نے اسی ضمن میں آر کے نارائن کا ذکر بھی کیا ہے جنھیں ہندوستان میں سیکڑوں نئی کہانیاں نظر آتی ہیں، جب کہ نائپال کو سیکڑوں غدر۔ دونوں کا فرق، دونوں کے اخذِ روایت اور مﺅ قف کا ہے۔ نیز آر کے نارائن ثنوی فکر سے آزاد ہے، اس لیے اسے ہندوستان میں وہ کہانیاں نظر آتی ہیں جو ہندوستان میں جنم لے سکتی ہیں، جب کہ نائپال ہندوستان کا تصور یورپی استعمار کی تشکیلات کی رو سے کرتا ہے۔

وطن اور جلا وطنی میں اچیبے جس بحث کی طرف بار بار رجوع کرتے ہیں، وہ یہ ہے :’ آدمی کہانی کہنے والا جانور ہے‘۔ آدمی سفید فام ہو یا سیاہ فام، کہانی اس کے ثقافتی وجود کے اثبات و شناخت کا اہم ترین اور شاید مستند ذریعہ ہے۔ یہ درست ہے کہ آدمی کی شناخت کے اس فرضیے کی مدد سے اچیبے اپنے کہانی کار ہونے کی جبلت کی تشریح کرتے ہیں، مگر یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ ان کے کہانی کار ہونے کی جبلت ان کے نو آبادیاتی ماضی میں جڑیں رکھتی ہے۔ یہ محض ایک شخص کی جبلت نہیں، ایک افریقی شخص کی جبلت ہے۔ اسی لیے اچیبے یہ تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آتے کہ کہانی ’ معصوم‘ہوتی ہے۔ اس کا لازماً تاریخی و ثقافتی کردار ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں:” اگرچہ فکشن افسانوی ہوتا ہے، مگریہ سچا یا باطل بھی ہو سکتا ہے، خبر کے سچے یا جھوٹے ہونے کے مفہوم میں نہیں، بلکہ اپنی بے غرضی، منشا اور سالمیت و راست بازی کے ضمن میں ۔ “دوسرے لفظوں میں وہ آدمی کو محض کہانی کہنے والا جانور نہیں، ایک ذمہ دار جانور قرار دیتے ہیں۔ ہرکہانی، اپنی رسمیات سے لے کر کرداروں، واقعات کی ترجمانی تک اپنے ثقافتی پس منظر میں جڑیں رکھتی ہے، مگر کہانی کار کو آگاہ ہونا چاہیے کہ اس کی کہانی کہاں کس ثقافتی \"4454\"سٹیریو ٹائپ کی ترجمانی کر رہی ہے اور کہاں ایک بے غرضانہ موقف اختیار کر رہی ہے؟ اچیبے کے یہاں بے غرضانہ موقف سے مراد ایک ایسی نظر ہے جو سچ اور تشکیل میں فرق کر سکے اور کسی تشکیل کی اندھی ترجمانی سے گریز کرے۔ وہ اکثرسیدھی سادی بات کہتے ہیں۔ مثلاًجون لاک (جو ایک انگریز کپتان تھے) کی مثال دیتے ہیں جس نے 1541 میں جنوبی افریقا سے متعلق اپنے سفرنامے میں نیگرو لوگوں کے بارے میں لکھا کہ ”یہ ایسے لوگ ہیں جو وحشیوں کی طرح رہتے ہیں؛ خدا، آئین اور مذہب میں یقین نہیں رکھتےجن کی عورتیں سب کی سانجھی ہیں کیوں کہ وہ شادی نہیں کرتے اور نہ ہی عصمت نسواں کو مانتے ہیں۔ “اچیبے اس رائے کو افریقا کا سچ نہیں، ایک ایسی تشکیل روایت کہتے ہیں جس کی پیروی یورپ کے اکثر لکھنے والوں نے کی۔ سولھویں صدی سے بیسویں صدی کے نصف تک اس تشکیل کو افریقا کا سچ بنا کر پیش کرنے کا سبب کیا تھا؟ اچیبے کے نزدیک، یہ سبب ان تمام اقدامات کو جواز فراہم کرنا تھا، جو سفید فام لوگوں نے افریقیوں کو غلام بنانے سے لے کر ان کی زمینوں پر قابض ہونے کے سلسلے میں کیے۔ یورپی استعماری ذہنیت کا ساتھ یورپی تخیل نے دیا۔ غلام بنانا، ایک قبیح عمل تھا؛ اس کی قباحت کا احساس کہیں نہ کہیں ان استعمار کاروں کو بھی تھا اور ان کے ضمیر پر بوجھ پڑتا تھا۔ کہانی کاروں نے افریقیوں کو وحشی، مذہب، اخلاق و تہذیب سے عاری قرار دے کر اپنے سیاسی و انتظامی زعماکو ضمیر کے بوجھ سے آزاد کیا۔ آخرایک وحشی کو غلام نہ بنایا جائے تو کیا کیا جائے!

کہانی کا جواب کہانی ہے۔ اچیبے کے اس خیال کے ضمن میں غالب کا ایک فارسی شعر یاد آتا ہے:\"134001\"

جز سخن کفر ے وایمانے کجا ست

خود سخن از کفر و ایماں می رود

کفر و ایماں جیسی دو متضاد چیزیں اپنی اصل میں باتوں ہی میں پائی جاتی ہیں اور خود باتیں بھی کفر و ایماں کو ثابت کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ گویا کفر و ایمان کی، استعمار اور ردّاستعمار کی ساری جنگ سخن کہانی میں لڑی جاتی ہے۔ کفراستعمار نے سٹیریو ٹائپ پر مبنی بیانیے گھڑے، ان کے ردّ میں مقامی باشندوں کے ایمان نے بیانیے وضع کیے۔ اسے اچیبے کہانیوں کا توازن بھی کہتے ہیں۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments