جب قائد اعظم نے دو قومی نظریے کو خیرباد کہا۔۔۔۔


\"_60770811_pak_jinnah_afp\"ایس ایم شرما گزشتہ صدی میں ہندوستان کے معروف صحافی تھے۔ ایس ایم شرما کو 1917 سے قائد اعظم محمد علی جناح تک رسائی حاصل تھی۔ تفقسیم ہند کے وقت ایس ایم شرما ڈیلی گزٹ کراچی کے مدیر تھے۔ جنوری 1948 کے کراچی فسادات کے بعد ایس ایم شرما دہلی چلے گئے۔ بھارت جانے کے بعد انہوں نے ایک دلچسپ کتاب لکھی Peeps into Pakistan۔ ایس ایم شرما نے اس کتاب میں قائد اعظم کی بڑی تعریف کی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے

\”3 جون 1947 کے بعد کا ذکر ہے۔ ایک دن کراچی میں مجھے یوسف ہارون نے فون کیا اور کہا کہ قائد اعظم ممنون ہوں گے اگر تم اس پریس کانفرنس میں خود موجود ہو گے جو قائد اعظم  کراچی تشریف لانے سے پہلے دہلی میں کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تم اس پریس کانفرنس سے نصف گھنٹہ پہلے ملو۔ وہ اس پر اصرار کر رہے ہیں۔ وہ تمہارے شکر گزار ہوں گے۔۔۔۔ میں حسب ارشاد پریس کانفرنس سے آدھ گھنٹہ پہلے  مسٹر جناح سے ان کی کوٹھی 10 اورنگ زیب روڈ پر ملا۔ وہ بڑی اچھی طرح پیش آئے اور ہاتھ ملانے کے بعد بغیر کسی تمہید کے مجھ سے اس موضوع پر بارت شروع کر دی جو ان کے دل میں تھا۔۔۔

کہنے لگے تم کراچی میں بدستور رہنا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان زیادہ اچھے، خوشگوار اور پائیدار تعلقات قائم کرنے میں میری مدد کرنا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ اور باتیں کیں۔ پھر وہ اس مسئلہ پر آئے جس کے بارے میں وہ مجھے اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔ کہنے لگے اب جب کہ میں نے پاکستان حاصل کر لیا ہے مجھے اب ہندوؤں کے خلاف کسی قسم کا غصہ نہیں رہا۔ فی الواقع اب میں پھر اپنے پرانے اور مشہور \”ہندو مسلم اتحاد کے سفیر\” کے تاریخی کردار کی طرف لوٹ جانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے تجویز کیا کہ جس طرح کئی سال تک ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کا علم بردار رہا، اب پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا محافظ بننا چاہتا ہوں۔۔۔۔ سنو میرے عزیز میں اپنے آپ کو پاکستان میں ہندوؤں کا محافظ اعظم (Protector General) بنانا چاہتا ہوں میں اس کام میں تمہاری مدد چاہتا ہوں تم اس سے انکار نہیں کر سکتے۔۔۔۔\”

مسٹر ایس ایم شرما لکھتے ہیں کہ \”میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ آخر میں مسٹر جناح نے اپنی بات یوں ختم کی۔۔۔ میرے عزیز، تم آج کی پریس کانفرنس میں موجود رہنا اور\"05th_jinnah_1477294f\" تم جو پریشان کن سوالات کر سکتے ہو، کرنا۔ میں مناسب جواب دوں گا چنانچہ میں نے ان کے سامنے اپنے سوالات پیش کئے۔ اس طرح پریس کانفرنس سے پہلے ہماری ریہرسل ہو گئی۔\”

مشتاق احمد وجدی قیام پاکستان کے وقت ایک اعلیٰ سرکاری افسر تھے۔ بعد ازاں پاکستان کے آڈیٹر جنرل اور کمپٹرولر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اپنی خود نوشت ’ہنگاموں میں زندگی‘ کے صفحہ 148 پر لکھتے ہیں۔

”30 مئی 1947 ءکو شجاعت علی حسنی مرحوم نے دلی میں متعین تمام مسلمان افسروں کو چائے کی دعوت دی۔ تاکید تھی کہ حاضری ضروری ہے لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ کیوں؟ حاضر ہونے پر علم ہوا کہ قائداعظم، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور چندریگر بھی تشریف فرما ہیں۔ چائے ختم ہوئی تو اعلان ہوا کہ قائداعظم تقریر فرمائیں گے۔ …. تقریر کے بعد ایک سوال کے جواب میں قائداعظم نے فرمایا ”ہندوستان کے مسلمانوں کی آئندہ سے ہندوستانی قومیت ہو گی۔ ان کو پاکستان سے کوئی واسطہ نہ ہو گا“۔ یہ سن کر مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ پانچ کروڑ مسلمان اس فیصلہ سے ہندوستانی ہوں گے۔ کل تک ان سے وعدے کیے گئے تھے کہ ان کے لیے نیا ملک بنے گا جو جائے سکون ہو گا۔ اسی وعدے پر ان سے قربانیاں طلب کی جاتی تھیں۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے جان اور مال قربان کیا۔ آج ان کو دو لفظوں سے تباہی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ دو قومیت کے نظریہ کو کیا ہوا۔ پھر خیال ہوا کہ آخر قائداعظم، لیاقت علی خان اور دوسرے رہنما بھی ہندوستان کے باشندے ہیں۔ یقینا یہ ٹھہریں گے اور ان کو سنبھالیں گے۔ (تاہم) یہ امید پوری نہ ہوئی“۔

یو پی مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری خلیق الزمان نے اپنی کتاب\"jinnah\" Pathway to Pakistan کے ستائیسویں باب میں لکھا ہے ”اب مسٹر جناح کی سمجھ میں بھی وہ شدید خطرات آگئے جو تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کودرپیش تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کراچی کے لیے روانگی سے قبل یکم اگست 1947 ءکو مسٹر جناح نے ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے مسلمان ممبروں کو اس لیے مدعو کیا کہ ان سے رخصت ہو لیں۔ مسٹر رضوان اللہ نے ان مسلمانوں کی حیثیت، مرتبے اور مستقبل کے متعلق، جو ہندوستان میں رہ جانے والے تھے، مسٹر جناح سے چند ناگوار سوالات کئے۔ میں نے مسٹر جناح کو اس طرح لاجواب یا سٹپٹایا ہوا کبھی نہیں دیکھا تھا جیسے وہ اس وقت تھے کیونکہ اس وقت وہ سب ان کی سمجھ میں صاف صاف صاف آرہا تھا جو وہاں مسلمانوں کے لیے ہونے والا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ صورت حال ناگوار ہے میں نے اپنے دوستوں اور رفقائے کار سے کہا کہ یہ بحث بند کر دیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری اس الوداعی گفتگو کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو بحیثیت نامزد گورنر جنرل پاکستان اور صدر دستور ساز اسمبلی پاکستان جو پہلا ہی موقع ملا، 11 اگست 1947ء کو، مسٹر جناح نے اپنے دو قومی نظریے کو خیرباد کہہ دیا“۔

11 اگست 1947ء کی تاریخی تقریر میں قائد اعظم نے مسلمانوں اور ہندوﺅں کے لیے ’کمیونٹی‘ کا لفظ استعمال کیا۔ انہوں نے پاکستان میں ہندوﺅں اور مسلمانوں کو ’نیشن‘ قرار نہیں دیا۔ کیونکہ پاکستان بننے کے بعد نیشن کا رتبہ پاکستان کو حاصل تھا۔ اس ضمن میں پاکستان میں بھارت کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش کی گواہی بھی اہم ہے۔ ستمبر 1947ء میں قائد اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر ایک ملاقات میں قائد اعظم سے کہا کہ \”اگرچہ یہ بٹوارا مذہبی اختلافات کی وجہ سے ہوا ہے لیکن اس تقسیم ہو جانے کے بعد اس پر زور کیوں دیا جائے کہ پاکستان ایک اسلامی حکومت ہے۔ کیونکہ اگر پاکستان کو بار بار اسلامی حکومت نہ کہا جائے تو غیر مسلم باشندے پاکستان چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ اس پر محمد علی جناح نے کہا ”میں نے لفظ اسلامی کبھی استعمال نہیں کیا۔ تم ایک ذمہ دار عہدے پر فائز ہو۔ تمہیں بتانا چاہیے کہ میں نے کہاں \"liaqatایسا کہا ہے“۔ سری پرکاش نے کہا کہ ”وزیرِ اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان اسلامی حکومت ہے“۔ مسٹر جناح نے کہا کہ ”پھر آپ لیاقت علی خان سے نمٹو۔ مجھ سے کیوں جھگڑ رہے ہو“۔ سری پرکاش نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ”آپ نے 31اگست کو لاہور میں ریڈیو پر تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ”پاکستان اسلامی ریاست ہے“۔ اس پر قائد اعظم نے غصے سے کہا ’تم مجھے اصل بیان دکھاﺅ‘۔ سری پرکاش لکھتے ہیں کہ میں نے بعد ازاں قائد اعظم کا نشری تقریر کا بہت غور سے مطالعہ کیا۔ واقعی قائد اعظم نے ”اسلامی“ کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں کیا تھا۔ البتہ لفظ مسلم کا پانچ چھ بار اعادہ کیا تھا۔ چنانچہ میں نے (یعنی سری پرکاش نے) خط لکھ کر قائد اعظم سے معذرت کی۔ قائد اعظم ایک اعلیٰ پائے کے قانون دان تھے اور دونوں لفظوں کا مفہوم بخوبی سمجھتے تھے۔ مسلم ریاست سے مراد وہ ریاست لی جاتی ہے جہاں مسلمان باشندوں کی اکثریت ہو۔ دوسری طرف اسلامی ریاست اس مملکت کو کہا جاتا ہے جہاں قوانین اسلامی احکامات کے تابع ہوں۔ اگر ان دونوں اصطلاحات میں فرق نہ ہوتا تو قائد اعظم نے کہہ دیا ہوتا کہ ’مسلم ریاست‘ یا ’اسلامی ریاست‘ کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

9جنوری 1948ء کو کراچی کے فسادات سے متاثرہ علاقے کے دورے کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے ”ہندو ہمسایوں کو بچاﺅ“ کے نام سے یہ پیغام مہاجروں کے نام جاری کیا

”ایک دفعہ پھر میں تمام مسلمانوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ قانون شکن، غدار اور سازشی لوگوں کے خلاف، جو اس تمام بدامنی کے ذمہ دار ہیں، سرکار اور اس کے عملے کے ساتھ ہندو ہمسایوں کو بچانے میں بھرپور تعاون کریں۔ پاکستان میں غدار، سازشی اور بے ہنگم ہجوم کی بجائے باضابطہ آئینی سرکار کی حکمرانی ہو گی۔ حکومت پاکستان ایسے مجرموں کے خلاف ہر ممکن اقدامات کرے گی اور اُن سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ مجھے ہندوﺅں کے ساتھ مکمل ہمدردی ہے جن میں اکثر کو پروپیگنڈے کے ذریعے ورغلایا گیا۔ درحقیقت مقصد اُن کو سندھ سے نکالنا تھا نتیجتاً بہت سارے ہندوﺅں کو دکھ اٹھانے پڑے۔ ابھی تک ان لوگوں کا پتہ نہیں چل سکا جو سکھوں کو سندھ کے ذمہ دار افسر، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا پولیس کو اطلاع دئیے بغیر کراچی لے آئے اور گوردوارے میں ٹھہرا دیا۔ تاہم اس معاملے کی پوری تحقیق کی جائے گی“۔

کیا یہ قائد اعظم محمد علی جناح کا سیاسی بیان تھا؟ کیا وہ سیاستدانوں کی مخصوص’ کھوکھلی لفاظی‘ سے کام لے رہے تھے۔ آئیے اس پر لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ)گل حسن \"jinnah-2.jpg-ns\"سے شہادت لیتے ہیں۔ گل حسن قائد اعظم کے اے ڈی سی تھے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد چند ماہ کے لیے پاکستانی فوج کے سربراہ بھی رہے۔ لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) گل حسن اپنی کتاب ”آخری کمانڈر انچیف“ میں لکھتے ہیں،

”اے ڈی سی کی حیثیت سے میری ڈیوٹی کے آخری ایام تھے کہ کراچی میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے۔ ان دنوں قائد اعظم بے حد فکر مند دکھائی دیتے تھے۔ ایک دن مجھے بلا کر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں نے اپنے ایک ہندو دوست کو کھانے پینے کی چیزیں بھجوا دی ہیں۔ وہ اس کے باپ سے واقف تھے۔ میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے انہیں بتایا کہ ’میرے دوست کا گھر بندر روڈ پر عین اس جگہ واقع ہے جو فسادات کا مرکز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اور اس کے ملازمیں گھر سے نکلنے کی جرات نہیں کر سکتے‘۔ میں نے قائد اعظم کو مزید بتایا کہ میں گورنر جنرل ہاﺅس کی کار استعمال کرتا رہا ہوں اور ضروری اشیا کی خریداری کے لئے ڈرائیور کو اپنی جیب سے رقم دی ہے۔ انہیں یہ حقیقت بھی بتائی کہ یہ سارا سامان اس وقت ہندو دوست کے گھر بھیجا جب رات کو کرفیو نافذ ہوتا تھا۔ انہوں نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا، ’مجھے تم پر فخر ہے۔ پاکستان کے لوگ جب بھی مصیبت میں مبتلا ہوں، ان کی مدد کرنی چاہیے‘۔

دیکھیے ، قائد اعظم نے کہا، ”پاکستان کے لوگ جب بھی مصیبت میں مبتلا ہوں، ان کی مدد کرنی چاہیے“۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ”پاکستان کے مسلمان جب بھی مصیبت میں مبتلا ہوں، ان کی مدد کرنی چاہیے“۔ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم کی نظر میں کسی پاکستانی شہری کی پہلی اور آخری پہچان پاکستانی ہونا تھی نہ کہ اس شہری کا عقیدہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments