روشن پاکستان سے روشن خیال پاکستان


\"khurram

انتہا پرستی، مذہبی منافرت، عدم برداشت کے شکار معاشرے میں تازہ ہوا کا جھونکا آتا ہے تو یقین مانیے ایک کلو خون بڑھ جاتا ہے۔ میں نواز شریف کو بحیثیت ایک مدبر، بہتر اور متوازن لیڈر کے طور پر ابھرتا دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ نواز شریف جس نے اپنی سیاسی جدو جہد کا آغاز ضیاء کے تاریک دور میں کیا جب ایک مخصوص برانڈ کی مذہبی تشریح آئین ٹھہرائی گئی اور ریاستی بیانیے کافر کافر اور الجہاد تھے۔

نواز شریف نے 90 کی دہائی کی سیاست بھی کی جہاں ہارس ٹریڈنگ بھی تھی اور انگلی کے اشاروں پر حکومتیں رخصت ہو جاتی تھیں۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کی گود سے نکل کر ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر کے طور پر خالصتاً سیاسی و جمہوری عوامی لیڈر کے اپنی پہچان بنانا نواز شریف کا ہی خاصہ ہے۔

نواز شریف اور بے نظیر بھٹو جو ملکی سیاسی منظر نامے پر بڑی سیاسی شخصیات تھیں، نے ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور ملک کو حقیقی جمہوری عمل کی طرف لانے اور عوام کی حق حکمرانی کو تسلیم کرنے کی جدوجہد کی بنیاد رکھی۔ میثاق جمہوریت اسی کوشش اور باہمی رضامندی کی عملی صورت کے طور پر سامنے آیا۔

نواز شریف نے الیکشن سے پہلے جو انٹرویوز دیے ان سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ بطور ایک قومی لیڈر کے وہ اپنی نظریاتی اساس مذہبی منافرت، انتہا پرستی اور بنیاد پرستی کی بجائے، روشن خیالی، مساوات اور برداشت پر رکھنے جارہا ہے۔

ایم کیو ایم کے عسکری ونگ ہوں، ملک اسحق اینڈ کو یا طالبان کے خلاف آپریشن اب تک ایک واضح حکمت عملی کے تحت تمام تر سیاسی چیلنجر سے بالاتر ہو کر پوری ریاستی و حکومتی قوت سے ایک مربوط آپریشن جاری ہے۔ Banned outfits کے حوالے سے بھی حکومتی پالیسی متعلقہ اَداروں پر واضح کی گئی اگرچہ وہ جانے انجانے میں ”لیک“ ہوگئی۔

نواز شریف نے یہ پیغام واضح طور ہر دینا شروع کیا ہے کہ یہ ملک صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ تمام شہریوں کا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہبی، سیاسی، لسانی گروہ سے تعلق دکھتے ہہوں۔

دیوالی پہ جانا ہو یا احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کے بعد کا ردعمل۔ پیغام واضح رہا۔

جنرل باجوہ پر بغیر کسی ثبوت کے احمدی ہونے کا الزام لگایا گیا اور ایک پریشر پیدا کرنے کی کو شش کی گئی کہ انہیں چیف نامزد نہ کیا جائے مگر نواز شریف نے انہیں ہی نامزد کیا اور اب کچھ حلقوں میں ( ڈرائینگ رومز کی حد تک ) تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔

اور اب ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کے صلے میں قائداعظم یو نیورسٹی کے شعبہ فزکس کو ان کے نام سے منسوب کرنا اور ان کے نام پر پانچ اسکالر شپس کا اجراء اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔ صد شکر کہ ہم صرف روشن پاکستان ہی نہیں ایک روشن خیال پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس بار یہ تنقید ڈرائینگ روم سے نکل کر ممکن ہے سڑکوں تک آئے۔ نواز شریف کو بھی ”لنڈے کا لبرل“ ہونے کا الزام سہنا ہوگا اور لیکن یقین رکھیے قوم کا بڑا طبقہ آپ کے ساتھ ہے۔ یہ وہی بڑا طبقہ ہے جس نے مذہبی منافرتیں پھیلانے والوں کو ووٹ کی طاقت سے دیوار کیساتھ لگا دیا ہے اور یہی وہ طبقہ ہے جس نے نفرتیں اگلنے والوں کو آیک دو سیٹوں تک محدود کردیا ہے۔

ہمیں صرف روشن پاکستان ہی نہیں روشن خیال پاکستان چاہئیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments