ایسے ہوجائے مگر کیسے ہوجائے؟


\"salim

دنیا کا سب سے آسان کام، تنقید کرنا ہے اور اپنے ہاں سب سے مقبول موضوعِ محفل ہی یہی ہے کہ پاکستانی قوم کی خامیوں کی فہرست بنائی جائے۔ افراد کی طرح قومیں بھی خامیوں سے مبرا نہیں ہوتیں مگر ہر سوسا ئٹی میں دو قسم کے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ ایک گروپ وہ جو قوم کی خامیوں کی لسٹ بناتا رہتا ہے اور ”کاش ایسا ہوجائے“ پر زندگی بسر کرتا ہے۔ میں اسے ”تمنائی گروپ“ کا نام دیتا ہوں۔ دوسرے وہ لوگ جو مسائل سے نمٹنے کا قابل عمل حل پیش کرتے ہوئے ” یوں ہو جایا کرتا ہے“ کی مثال بنتے ہیں۔ راقم ادب سے عرض کرتا ہے کہ فی الوقت ملک کو ”وِش گروپ“ کی نہیں بلکہ ”ِلیڈ گروپ ” کی ضرورت ہے۔ یعنی کہنے چاہنے والے بہت ہوگئے، اب ایسا ایک طبقہ چاہیے جو کچھ عملی طور پر کر کے دکھائے یا کم از کم کوئی قابل عمل تجویز ہی سامنے لائے کہ ہم موجودہ مشکلات سے کیسے نکلیں؟

اپنے موضوع کو واضح کرنے ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔

یہ غالباً 1994 کا رمضان تھا کہ ہم تبلیغی جماعت میں گوجرانوالہ شہر کی ایک ایسی جامع مسجد پہنچے جہاں ایک جید شیخ الحدیث صاحب، روزانہ بعد نماز فجر، بڑے قابل ذکر مجمع کو درس قرآن دیا کرتے اور درس کے بعد، چند انفرادی سوالات کے جوابات بھی دیا کرتے۔ وقفہ سوالات کے دوران، میرے بازو بیٹھے صاحب نے کھڑے ہوکر شیخ سے سوال کیا کہ آجکل نوجوان موسیقی کے اسقدر دلدادہ ہوگئے ہیں کہ گاڑیوں میں بھی گانے لگائے پھرتے ہیں تو اس کا کیا حل ہے؟ شیخ نے حل بیان فرمایا کہ جوانوں کو چاہیے موسیقی کی بجائے قرآن سنا کریں، اس میں زیادہ لذت ہے۔ سبحان اللہ کی آوازوں میں سائل موصوف بیٹھ گئے مگر درس کے بعد میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ شیخ کے جواب سے مطمئن ہوگئے؟ حیران ہوئے ”کیوں کیا غلط تھا؟ ” عرض کیا آپ نے ایک پرابلم سامنے رکھا اور شیخ نے جواب دیا کہ اس کی بجائے ایسا ہو جائے مگر یہ نہیں بتایا کہ کیسے ہوجائے؟ دیکھئے، نوجوانوں کو گانوں کی بجائے اگر قرآن سننے میں مزہ آتا تو آپ کو اس سوال کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اصل قضیہ تو یہ ہے کہ اب ایسا کیا اقدام کیا جائے کہ نوجوانوں کو گانوں کے بجائے تلاوتِ قرآن مزہ دینے لگے۔ مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ موصوف، ایک اسلامی جماعت کے ہی آدمی ہیں اور ایسے ”پلانٹڈ“ سوالات، مجمع کو متوجہ رکھنے کے لئےکیے جاتے ہیں۔ انہوں نے جاکر حضرت شیخ کو بتا دیا۔ شیخ صاحب بعد میں مجھے تلاشتے آئے۔ میں سن کر ڈر گیا کہ معلوم نہیں کیا ہو؟ میری خدمت کی ڈیوٹی لگی تھی اور پیاز کاٹ رہا تھا۔ شیخ، بے تکلف ساتھ بیٹھ گئے اور مذکورہ سوال کا جواب پوچھا۔ اپنے بڑوں سے جو سنا تھا، ان کے گوش گذار کردیا۔ یہ ان کے اخلاص کی دلیل ہے کہ نہ صرف متفق ہوئے بلکہ اگلی صبح کا درس قرآن اس کم فہم کے حوالے کیا تا کہ موضوع کو آگے بڑھاؤں۔ ( اگرچہ نصیحت کی قوالی کرنا بھی ایک آسان شغل ہے)۔

آمدم برسر موضوع، پاکستانی معاشرے کے اہم ترین مسائل کی ہی فہرست بنائی جائے تو کئی صفحے درکار ہیں۔ ہم یہاں صرف ایک مسئلے پر بات کریں گے یعنی شادی بیاہ کے فنکشن۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا بڑا مسئلہ، کرپشن ہے۔ راقم عرض کرتا ہے کہ بڑا مسئلہ، مسرفانہ رواجات ہیں جن کی کوکھ سے کرپشن جنم لیتی ہے۔ اہل پاکستان، رسوم و راوج کی چکی میں پس چکے ہیں۔ صرف جہیز ہی نہیں، بلکہ شادی کی عجیب وغریب رسمیں اور فنکشن، لوگوں کو جیتے جی مار رہے ہیں۔ ولیمے کی سنت کے نام پہ تماشا الگ، لڑکی والوں کی طرف سے بارات کو کھانا کھلانا، مہندی مایوں، بلکہ اب تو دلہن کی سہیلیوں کا فنکشن وغیرہ، یہ سب لاکھوں روپے کا اسراف ہے ( اور انہی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ہماری سوسائٹی میں ملاوٹ، رشوت اور کرپشن عام ہوچکی ہے)۔

قارئین کرام۔ دین تو نازل ہی ہوا ہے مجبور و مقہور انسانیت کو رسم و رواج کی ان دیکھی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لئے۔ ربعی بن عامر صحابی نے رستم ایران کے دربار مٰیں، دینِ اسلام کی چار نکاتی دعوت دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ہم کو خدا نے انسانیت کی طرف بھیجا ہے تاکہ ان کو رسوم و رواج کے چنگل سے نکال کر، دین اسلام کی آزاد زندگی کی طرف لائیں۔ بالفاظ دیگر، نائبان نبی کا ایک کام یہ بھی ہے کہ رواجات کی بیخ کنی کریں۔

تقریبات کے نام پہ جو خرافات جو سوسائٹی میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہیں، یہ ایک مسئلہ ہے جسے حل ہونا چاہیے مگر کیسے؟

دیکھئے، اصلاً تو یہ سوسائٹی کی اشرافیہ یعنی ” الیٹ کلاس“ کا فرض ہے کہ وہ نمونہ بنیں۔ وہ اگر سادہ شادیاں کریں گے تو عامۃ الناس، انہی کو فالو کرتے ہیں۔ مگر یاد پڑتا ہے کہ جب وزیر اعظم گیلانی کی صاحبزادی کی شادی کی ہوشربا تقریبات، ایوان صدر کے لان سے نشر ہورہی تھیں، انہی دنوں، اس زمانے کی واحد سپر پاور یعنی امریکہ کے صدر بش کی بیٹی کی چرچ میں شادی ہورہی تھی جس میں کل پندرہ آدمی شریک تھے۔ ( جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ)۔

آگے چلئے۔ اب چونکہ معاشرے کی اشرافیہ، سادی شادی کرنے پہ تیار نہیں تو اگلی ذمہ داری علمائے کرام کی ہے۔ مثلاً مفتی تقی عثمانی اور مولانا طارق جمیل جیسے جید علماء کرام اگر یہ اعلان کردیں کہ پاکستان میں جو لوگ اپنے بچوں کی شادی، جہیز و خرافات کے بغیر سادگی سے کرانے پہ تیار ہوں تو ایسے ذی قدر علمائے کرام، بنفس نفیس ان کے ہاں جا کر، خود نکاح پڑھائیں گے تو سوچیے کہ کتنا مثبت نتیجہ برآمد ہوگا؟

میں تو عرض کروں گا کہ وفاق المدارس، سب علماء کے لئے ایک اعلامیہ ترتیب دے جس میں کہا جائے کہ آئندہ کوئی مولوی، مسجد کے سوا کسی اور جگہ نکاح پڑھانے نہیں جائے گا۔ اس قرارداد سے بھی کافی فرق پڑے گا۔

دراصل، معاشرتی مسائل میں لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنا ہی علماء کا فرض منصبی ہے۔ افسوس ان کو اپنی وقعت و طاقت کا صحیح طور پر اندازہ نہیں ہے۔ اگر ایک شہر کے کچہری احاطے میں ایک کمرہ شہر کے جید علماء کے لئے مختص ہو جو روزانہ وہاں آکر بیٹھیں اور وہاں مقدمہ لڑنے آئے ہوئے متحارب گروپوں کو شریعت پہ فیصلہ کرانے کا جرگہ کریں تو عدالتوں سے آدھے مقدمات ختم ہی ہوجائیں۔

قارئین، “وش گروپ“ سے ” لیڈ گروپ“ میں آنا آسان ہے، بس تمنائی سے سودائی بننا پڑتا ہے۔ اپنے ہاں، ہر شعبہ زندگی میں زندہ مثالیں موجود ہیں۔ خدمت خلق کی بات کریں تو عمران خان اور ایدھی صاحب، آج کے لوگ ہیں۔ اول الذکر نے ذاتی دکھ کو ماں کے نام پہ کینسر ہسپتال کی شکل دی تو دوسرے صاحب کا کوئی ذاتی دکھ تھا ہی نہیں، بس قوم کے دکھ کو جان پہ لے لیا۔ دینی شعبہ کی طرف آئیے۔ علمائے کرام کب سے احتجاج کررہے کہ سودی نظام ختم کیا جائے۔ مگر آجکل کے پیچیدہ مالیاتی نظام میں متبادل کیا ہو؟ پھر ایک مولوی، تقی عثمانی صاحب نے میزان بنک کی عملی صورت میں متبادل بنیاد رکھ کر دکھا دی۔ اب ہر بنک اس کی کاپی کر رہا ہے۔ گراں گذرے گی مگر سیاسی مثال دے دوں۔ ہر چھوٹا بڑا لیڈر کہہ رہا تھا کہ پاکستان کی بقا، مرکز کی بجائے صوبوں کو اختیارات دینے میں ہے۔ مگر ”پاکستان کھپے“ والا زرداری صدر بنتا ہے اور بغیر کسی مطالبے کے، ازخود صوبوں کو اختیارات دیکر، وفاق میں جان ڈال دیتا کہ ” ایسے ہوا کرتا ہے“۔ چلیں، ان بڑے شعبوں کو چھوڑیں اور خالص دنیاوی بات کریں۔ ہر مغرب پلٹ پاکستانی تمنا کرتا تھا کہ اپنے ہاں بھی ویسے شہرآباد ہوتے۔ اب جس آدمی نے بحریہ ٹاؤن کے ذریعے پراپرٹی بزنس کا سارا سٹائل ہی بدل کرر کھ دیا، وہ ایک میٹرک پاس پاکستانی ہے۔

بہرحال، ہم میں سے کوئی فرد، چاہے وہ میرے جیسا بے وسیلہ ہی کیوں نہ ہو، جب ”ایسا ہوجائے“ کی بجائے ”کیسے ہوجائے“ کے خطوط پہ سوچے گا مگر کچھ کرنے کے جذبے سے سوچے گا تو خدا اس کے لئے راستے نکالتا چلا جائے گا۔

آپ کے ذوق پہ گراں نہ گذرے تو دو حقیر سی ذاتی مثالیں، اپنے جیسے کم وسیلہ دوستوں کی ترغیب کے لئے عرض کردوں۔

دو مسئلے راقم کے پیش نظر تھے۔ یہ 2010 کی بات ہے کہ طالبان، فاٹا کے علاقوں میں گرلز سکولوں کو بموں سے اڑا رہے تھے۔ کئی قبائلی خاندان، ڈیرہ اسماعیل خان کو ہجرت کر آئے تھے اور لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا۔ ایسی بات نہیں کہ والدین کی مالی استطاعت نہ رہی تھی۔ قبائل کی ایک معقول تعداد خلیج میں کسبِ معاش کرتی ہے مگر ان لوگوں کا لڑکیوں کی تعلیم کی طرف دھیان ہی نہیں ہوتا۔ خدا نے دل میں ڈالا کہ ان دور دراز کی طالبات کے لئے ایک باپردہ ریزڈنشل ادارہ قائم کیا جائے۔ لڑکیوں کا ہاسٹل بنانا اور چلانا، کا ایک بہت نازک کام ہے۔ ہمارے گھر کی مستورات کا تبلیغی جماعت میں وقت لگ چکا ہے اور کئی ایک تو باقاعدہ عالمات ہیں۔ مگر بھائی، میرے لئے انہیں راضی کرنا بڑا پرابلم بن گیا کہ ایک مسئلہ تو ” دنیاوی تعلیم“ کے گناہ کا تھا اور دوسرا، کسی کی بیٹی کو ہاسٹل میں رکھنا۔ والدہ کا موقف تھا کہ اپنی بہو بیٹیوں کی حفاظت کرنا مشکل ہے تو دوسروں کی ذمہ داری کیسے لیں؟ والدہ کا تبلیغی جماعت کے ساتھ تین ممالک کا سفر ہوچکا ہے۔ عرض کیا ”جن لوگوں نے اپنی بچیوں کو عصری تعلیم دلوانی ہے تو بہرصورت دلوائیں گے چاہے لاہور ہاسٹل میں بھیجنا پڑے یا ڈیرہ کے رشتہ داروں کے ہاں نامحرموں کے ساتھ رکھنا پڑے۔ اب اگر آپ جیسی مستورات اس ذمہ داری کو نہیں لینا چاہتی تو کیا آسمان سے فرشتے اتریں گے؟ “۔ قصہ مختصر، آج فاطمیہ کالج ڈیرہ اسماعیل خان کو قائم ہوئے پانچ سال ہوگئے اور نہ صرف لڑکیوں کے والدین کی دعائیں میسر ہیں بلکہ معاشی طور پر بھی کئی خاندانوں کے رزق کا اہتمام ہوگیا ہے۔ ( ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ نے کالج کا نام ”فاطمیہ کالج“ کیا فاطمہ جناح کی نسبت سے رکھا یا حضرت فاطمہ الزہرا کے نام پہ؟ عرض کیا اپنی امی کے نام کی نسبت سے رکھا کہ ان کا نام فاطمہ ہے)۔

قارئین کی ہمت افزائی کے خیال سے، اپنے ایک ناکام پراجیکٹ کی بپتا بھی عرض ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی منفرد نوعیت کا ایک فیملی ہسپتال کھولا تھا جو دو سال چل کر بند ہوگیا۔ اس منفرد ہسپتال کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مردوں کا داخلہ بالکل بند تھا اور اندر، کینٹین تک میں صرف عورتیں ہی کام کرتی تھیں۔ دیکھیے، جس شریعت نے عورت کو پردے کا حکم دیا، اسی شریعت نے ڈاکٹر کے سامنے پردہ اتارنے کو روا رکھا ہے۔ مسئلہ پردے کا نہیں تھا۔ دراصل ہمارے علاقے کے غریب دیہاڑی دار کے گھر میں جب کوئی عورت بیمار ہو جائے تو اس بیچاری کے ساتھ ہسپتال میں دھکے کھانے، اس کے مرد کو بھی کام سے چھٹی کرنا پڑتی ہے۔ میری یہ سوچ تھی کہ ایک ایسا ہسپتال ہو جہاں وہ تسلی سے اپنی عورت کو چھوڑ جائے اور اپنا کام ختم کرکے، شام کو واپسی پہ ساتھ لے جائے۔ اس دوران یہ عورت، دوا دارو اور کینٹین سے کھانا وغیرہ عورتوں ہی سے بلاججھک لے لے۔ بوجوہ، یہ ہسپتال نہ چل سکا تو اس کا سامان لائنز کلب کے ہسپتال کو دے دیا گیا۔

بہرحال، میری عرض ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ وبا کی مانند پھیلے مسرفانہ رواجات ہیں اور علمائے کرام ہی اس کا تریاق و تدارک کرسکتے ہیں۔ مولوی صاحبان شکایت کرتے ہیں کہ ہماری کوئی سنتا نہیں۔ بھلے لوگو، آپ کو سنانا آتا نہیں ورنہ خیر سے اس خطے میں ایک مولوی خود کو نبی تک منوا گیا اور آپ کہتے ہیں کوئی سنتا نہیں۔

اے کاش کہ اس مضمون کو پڑھنے والوں میں کوئی ایسا مولوی صاحب سامنے آئے جو عملی قدم اٹھاتے ہوئے، اپنے اساتذہ اور دوستوں کو معاشرتی اصلاح کے لئے میدان میں لاکر، ہمیں یہ دکھا دے کہ ” کیسے ہوجایا کرتا ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments