جنرل باجوہ کو درپیش غیرمعمولی چیلنجز


\"waseem-tarar\"

آخر کار عسکری سربراہ کی تبدیلی سے متعلق ناختم ہونے والے مباحث، طویل تجزیوں، بے لاگ تبصروں اور لاحاصل قیافوں کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا اور جنرل راحیل شریف پاک فوج کی کمان جنرل قمرجاوید باجوہ کے ہاتھوں سونپ کر جی ایچ کیو سے باوقار انداز میں رخصت ہو گئے۔ اپنے 3 سالہ دور میں جو مقبولیت جنرل راحیل شریف نے سمیٹی، شاید ہی کسی اور فوجی سربراہ کے حصے آئی ہو۔ جنرل شریف کی اسی مقبولیت کے سائے میں نئے آرمی چیف کی تقرری کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا نئے آنے والے سپہ سالار ادارے کے اس وقار اور تشخص کو برقرار رکھ پائیں گے، جو جنرل راحیل کے دور میں حاصل ہوا۔ شاید جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔

نومبر 2013 میں جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کی کمان سنبھالی تو پاکستان کا داخلی منظرنامہ قدرے مختلف تھا۔ ملک میں امن و امان کی مخدوش صورت حال اور بدترین دہشت گردی کے باعث افواج پاکستان کا مورال اور ساکھ دونوں متاثر تھے۔ سیاسی قیادت کے حوصلے بھی پست تھے جب کہ عوامی حلقوں میں بھی مایوسی کا ایک تاثر تھا۔ جنوری میں ریاستی سطح پرغیرریاستی عناصر اور عسکری گروپس سے مذاکرات کی حکمت عملی ترتیب دی گئی، جو جلد ہی بری طرح سے ناکام ہوئی۔ اس کے بعد شمالی وزیرستان میں مسلح گرہوں کے خلاف جامع آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ حالت جنگ میں جنرل راحیل شریف کے چند بڑے فیصلوں نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور ہر دل عزیز عوامی شخصیت میں بدل دیا۔ سب سے اہم فیصلہ یہ کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن تمام عناصر کے خلاف بلاتفریق ہوگا۔ اس کے بعد کراچی میں امن و امان کے قیام کے لئے بھی یہی حکمت عملی اپنائی گئی۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف بھی پہلے سے زیادہ سختی دیکھنے میں آئی۔ اسی طرح اندرون سندھ، جنوبی پنجاب، خیبر ایجنسی، بلوچستان اور فاٹا سمیت پورے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف محاذ کھولا گیا جسے عوامی سطح پر بے حد سراہا گیا اور عسکری قیادت سے بے شمار توقعات وابستہ کی گئیں۔ اب فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد یہی توقعات جنرل باجوہ سے باندھی جا رہی ہیں۔ اگرجنرل باجوہ کراچی، بلوچستان اور فاٹا سمیت پورے پاکستان میں جاری دہشت گردی کیخلاف آپریشن کو جنرل راحیل شریف کی کھینچی ہوئی لکیروں پر آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ یقیناً عوام کی توقعات پر پورا اتر سکتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف نے عہدے سے سبکدوشی کے وقت اپنی بے پناہ مقبولیت کے ساتھ ساتھ سخت چیلنجز کی ایک طویل فہرست چھوڑ ی ہے۔ ابتدائی طور پر ان چیلنجز سے نمٹنا جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ آپریشن ضرب عضب بذات خود سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس کے زمینی حقائق خباری شہ سرخیوں سے مختلف ہیں۔ 2 ماہ میں مکمل کیے جانے کی غرض سے شروع ہونے والا آپریشن 2 سال گذرنے کے باوجود مکمل نہیں ہو سکا۔ آغاز میں 20 بلین روپے کا بجٹ مختص کیے جانے کے بعد 200 بلین سے زائد کی خطیر رقم خرچ ہو چکی ہے لیکن دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔ اگر ایک روز اخباری خبر میں دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا دعویٰ کیاجاتا ہے تو اگلے روز بیسیوں معصوموں کے لاشے اٹھائے جانے کی شہ سرخی شائع ہوتی ہے۔ یقیناً یہ وہ چیلنج ہے جس سے نئی عسکری قیادت مکمل طور پر آ گاہ ہوگی اور اس سلسلے میں پہلے سے زیادہ مضبوط حکمت عملی ترتیب دینا اس کی پہلی ترجیح ہو گی۔

دوسرا بڑا چیلنج بلوچستان میں امن اومان کی موجودہ صورت حال ہے۔ گوادر بندرگاہ اور پاکستان چین اقتصادی راہدری کے تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ طویل کارروائیوں کے بعد بھی بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال میں زیادہ بہتری نہیں آسکی۔ ایسی صورت حال میں کاروباری اور معاشی سرگرمیاں شدید مشکلات کا شکار ہو رہی ہیں اور بین الاقوامی ماہرین اسے عسکری اور حساس اداروں کی ناکام حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف فاٹا میں طویل جنگ کے بعد سول انتظامی ڈھانچے کی بحالی اور آئی ڈی پیز کی با حفاظت گھر واپسی بھی ایک مشکل ٹاسک ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف 8 لاکھ سے زائد آئی ڈی پیز کیمپوں میں دوسرے درجے کی زندگی گزار ہے ہیں جن کی جلد بحالی ضروری ہے۔

جنرل شریف کی غیر سیاسی اپروچ کی وجہ سے جہاں انہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی وہیں مین سٹریم میڈیا اور سیاسی منظرنامہ میں چلنے والے کچھ سیاسی تنازعات نے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ ہمیشہ بعض مفادت پرست عناصر سول ملٹری متنازعہ مباحث کا آغاز کر کے اپنے مفادات اینٹھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ امپائر کی انگلی جیسے تنازعہ کے ذریعے انہیں متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اب نئی آرمی چیف کو ان تمام تنازعات سے فاصلہ رکھنا ہو گا۔ ضروری ہے کہ آرمی چیف جیسے اعلیٰ ترین عہدے ایسے تنازعات کی زد سے پاک ہوں۔ اب اگر افواج پاکستان کو ایک آگے بڑھنا ہے تو میڈیا میں امپائر اور امپائر کی انگلی جیسی تمام تاثرات ختم ہو جانے چاہیں۔

غیر معمولی مقبولیت اور بے پناہ پذیرائی کے حصار میں مخالفین جنرل شریف کے کچھ اقدامات کو حوصلہ افزا انداز میں نہیں دیکھتے۔ روالپنڈی کی نئی عسکری قیادت کو اس متعلق بھی ازسرنو غور کرنا ہو گا۔ خصوصی طور پر بین الاقوامی ماہرین آرمی چیف کی میڈیا پر غیر ضروری موجودگی اور ذاتی پروموشن پرخاصی تنقید کرتے رہے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف کی میز پر اب پہلے سے بھی زیادہ کام ہے۔ اس لیے اب جنرل باجوہ کو میڈیا سے ایک خاص حد تک دوری اختیار کر کے کام پر توجہ دینی ہو گی۔ جنرل شریف کے دور میں سابق صدر کے ٹرائل میں رکاوٹوں کے حوالے سے بھی طرح طرح کے تنازعات نے جنم لیا اور ادارے کی جانب انگلیاں بلند ہوئیں۔ اس سے جمہوری ڈھانچے کی کمزوری ظاہر ہوئی اور پاکستان کو عالمی سطح پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب راولپنڈی کی نئی قیادت کی جانب سے ایسے تمام تاثر زائل کرنے کی عملی ضرورت ہے۔

بلاشبہ افواج پاکستان ملک کا ایک منظم ترین ادارہ ہے، جوایک دیرپا داخلی اسٹریٹجی، مضبوط تھینک ٹینک اور جامع پالیسی کا حامل ہے۔ ماضی میں محدود عرصے کے لیے آنے والے فوجی سربراہ ادارے کے لئے الگ الگ سمت کا تعین کرتے رہے ہیں جس کے ہمیشہ منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں عسکری اداروں کی تنظیم سازی اس انداز میں کی جاتی ہے کہ سربراہ کی تبدیلی سے اداروں کی پالیسی اور حکمت عملی میں زیادہ خلا پیدا نہ ہو۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پاک فوج کو بھی ان خطوط پر منظم کیا جائے۔ ضروری ہے کہ ادارے کے سربراہ کی تبدیلی داخلی معاملات پر ضرورت سے زیادہ اثر انداز ہو اور نہ ہی ایسی تقرری غیر معمولی واقعہ بن کر میڈیا اسکرین پر مہینوں موضوع بحث بنی رہے۔

جنرل شریف کے 3 سالہ دور ملازمت کی غیر معمولی مقبولیت نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں عوامی سطح پر جمہوری فکر جڑ پکڑ چکی ہے اور عوام ہر اس فوجی جرنیل کا احترام کرتے ہیں جو آئین، پارلیمنٹ اور ووٹ کا احترام کرتا ہے۔ نئے آنے والے آرمی چیف یقیناً جانتے ہوں گے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی سول اداروں اور غیر عسکری انتظامی ڈھانچے کی مضبوطی سے مشروط ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل شریف نے اپنے دورمیں جمہوری اداروں کو مضبوط ہونے کی اسپیس فراہم نہیں کی۔ نئے عسکری سربراہ کی تعیناتی کے بعد اب یقیناً ایسے تمام تاثر زائل ہو جانے چاہیں۔ نووارد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سامنے بڑے اور سخت چیلنجز ہیں۔ جنرل شریف کا دور ملازمت ان کے لیے ایک کھلی کتاب ہے۔ جنرل باجوہ اپنے پچھلے ہم منصب کے 3 سالہ دور کی خامیوں اور خوبیوں کا جامع مطالعہ کر کے اپنے سامنے کھڑے چیلنجزکا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تووہ یقیناً گزشتہ آرمی چیف سے زیادہ مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments