کڑک سردیوں کی گرم یادیں


اس بار سردی نہیں آئی۔ دسمبر بھی ایسے خاموش گذر رہا جیسے بھینس بین سن رہی ہو۔ بچوں کو اب بھی سکول چھوڑنے جانا ہوتا ہے، ذرا بھی خنکی محسوس نہیں ہوتی۔ کچھا بنیان پہن کر ہی کئی کلومیٹر دور بچوں کو سکول چھوڑ آتا ہوں۔ دسمبر کو ذرا شرم نہیں آ رہی کہ ایک معزز انسان کچھا بنیان پہن کر سردار بنا پھر رہا۔ ذرا سردی ہوتی تو ہماری مجال تھی کہ ایسی بدمعاشی کرتے۔

جب خود سکول جاتے تھے تو اکثر لیٹ پہنچا کرتے تھے۔ بھائی صاحب کو اپنی جراب نہیں ملتی تھی کبھی ان کا بستہ غائب ہوتا۔ ہم سکول پہنچتے سر میسی مولا بخش پکڑ کر تیار کھڑے ہوتے۔ دو دو سوٹیاں ہاتھ پر کھا کے ہاتھ گرم ہو جاتے۔ اگر سر کا موڈ ہوتا یا ہم زیادہ لیٹ ہوتے تو دو دو سوٹیاں تشریف کو بھی سن کر دیتی تھیں۔ کرسی پر بیٹھے ہوتے پر ذرا محسوس نہ ہوتا کہ بیٹھے ہیں کوئی تشریف رکھتے ہیں۔

سردی کی راتوں میں جمرود ٹیڈی بازار کی خالی روڈ پر پھرنا آج تک یاد ہے۔ بڑی کرنٹ والی سردی ہوتی تھی۔ اس سردی میں کانپتے پھرنے کا اپنا ایک مزہ ہوتا تھا۔ تاروں بھری رات سنسان پشاور طورخم روڈ اور ہم دو تین آوارہ مزاج دوست۔ ہمارا میزبان دوست ہی اب نہیں نہیں رہا۔ اسے شدت پسندی کی لہر کھا گئی۔ جمرود تو شاید ہمارا ہی رہے گا۔ ہم اس کے نہیں رہے دوست کے جانے کے بعد۔

جب شاہراہ قراقرم پر آپ تھاکوٹ پہنچتے ہیں۔ وہاں سے ایک روڈ پہاڑوں کے اوپر چڑھتی الائی جاتی ہے۔ پتہ نہیں آج اس روڈ کا کیا حال ہے۔ اس پر تب بھی سفر کیا جب یہ ٹھیک تھی اور تب بھی گذرے جب یہ خراب تھی۔ خراب روڈ ہی ایک محفوظ سفر کی ضمانت لگتی تھی۔ آپ کے بائیں ہاتھ سینکڑوں فٹ نیچے شیر دریا بکری بنا بہتا دکھائی دیتا ہے۔ ٹھیک روڈ پر ڈرائیور جس جذبے سے گاڑی چلاتا ہے اس سے دل ڈوب ڈوب جاتا ہے۔

سردی اپنے جوبن پر تھی جب ہم نے یہاں راتیں گزاریں۔ یادگار یوں بھی رہا یہ سفر کہ کام سے فارغ ہو کر سیل فون پر اس سے مذاکرات کرتے تھے۔ جسے بعد میں زندگی کے سفر میں شریک بنایا۔

منفی چھ درجہ حرارت تھا جب انجم اک چکر دے کر ہمیں گلگت لے گیا۔ گیلی رضائیوں میں سو کر اتنی بوریت ہوئی کہ جا کر غصے میں رات کے رکھے ہوئے ٹھنڈے پانی سے نہا لیا تھا۔ اس کارنامے کے بعد پھر دل کرتا تھا کہ جیکٹ اتار کر پھریں۔ ہم شام رات اور صبح گلگت کی خالی سڑکوں پر پھرتے رہے۔ بس سردی ساتھ تھی ایک مہربان دوست کی طرح۔

پہاڑ کے لوگ راستوں کے اندازے غلط بتاتے ہیں۔ ان کا اپنا میل ہوتا ہے جو اصل میل سے کئی کلومیٹر بڑا ہوتا ہے۔ سردیوں کے دن تھے جب کالام کے دوستوں نے پہاڑوں پر خوار خوار پھرایا۔ وہ بھی محبت سے۔ اسئی سفر جت دوران کالام بحرین سے دور مانکیال جبہ میں بھی ایک رات ویران مسجد میں گزاری۔ مسجد کی کوئی کھڑکی نہ تھی۔ بھیڑوں کی اون والے کمبل نہ ہوتے ان کی شاندار مہک ہم سب کو بیہوش نہ کر پاتی تو ہم مست ہو کر سو نہ پاتے۔ سردی تب بھی ہمیں ملنے آئی تھی ساری رات ساتھ گزار کر تب تک ہمارے ساتھ رہی جب تک ہم وہاں سے نکل نہ آئے۔

ایک سردی ہمارے پنڈ میں آتی تھی۔ ہاتھ میں گنا پکڑ کر باغ کو کانپتے تھرتھراتے ہوئے جانا یاد ہے۔ بہت بعد میں جب سردی نے اپنی صورت دھند آلود کر لی۔ تب اس میں کئی کلومیٹر سائکل چلا کر پنڈ سے بس سٹاپ تک روز کئی ہفتوں تک جانا یاد ہے۔ پشاور کی سردیوں میں روز رات کو دفتر سے گھر جانا یاد ہے۔

اسلام آباد کی سردی سے ابھی دوستی نہیں ہوئی۔ ہم دونوں بس ایک دوسرے کو ابھی جاننے پرکھنے میں ہی مصروف ہیں۔ سندھ میں سردی ایسے ہی بے اثر آتی ہے جیسی سندھ واسیوں کی ترقی خوشحالی کی دعائیں بے اثر جاتی ہیں۔

پہلی بار چین جانا ہوا تو دسمبر تھا۔ ارومچی کے منفی چھبیس درجہ حرارت میں گھومنا پھرنا ایک نیا تجربہ تھا۔ میزبانوں کو فکر تھی کہ ان کا مہمان بیمار نہ ہو جائے۔ پر بیمار ہونے کی پروا کسے تھی۔ ہمیں تو اس سرد ہوا سے ملنا تھا جو اپنے دامن میں بجلیاں بھر کے گلے ملنے آتی تھی۔

بہترین کام یہ ہوا کہ پہلے دن ہی روڈ پر سلپ ہو کر گرا۔ اکیلے نہیں گرا ایک میزبان کو نیچے لے کر گرا وہ تو نیچے سے یوں نکلا جیسا سانپ لہراتا ہوا نکل جائے۔ اس کے بعد میزبان ہمیں اٹھاتے ہوئے باری باری گرے۔ پھر ہم سب نے گرنے کے بعد اکٹھے فٹ پاتھ پر لیٹ کے آپس میں موجود تکلف کی دیواریں گرا دی ہیں۔

تعلق اکٹھے آگے بڑھنے سے ہی نہیں، پیچھے ہٹنے سے، ساتھ گرنے سے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔
سردی اگر نہ ستائے اور اب آ جائے تو وعدہ ہے کہ ایک رات اس کے ساتھ سڑک ناپتے ضرور گزاروں گا۔
Dec 6, 2016

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments