شایان، سائنس اور ارتقا


 \"lubnaجن تنگ نظر لوگوں‌ نے ٹرمپ کو آزاد دنیا کا لیڈر بنا دیا ہے، ان کو اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں‌ کہ دنیا ٹھہر کر امریکہ کا انتظار نہیں‌ کرے گی۔ جب پہیہ ایجاد ہو جاتا ہے تو وقت پھر سے واپس نہیں ہوتا۔ جو لوگ اپنے آپ کو مزید تعلیم یافتہ بنانے کے بجائے سائنس، تعلیم، برابر حقوق اور مہاجرین کا راستہ روک رہے ہیں‌، وہ اپنے ملک کی تنزلی کا سبب بنیں ‌گے۔ جمود سے کتنی شاندار ایمپائرز مٹی میں‌ مل گئیں، وہ تاریخ‌ کا سبق ہماری آنکھوں‌ کے سامنے ہے۔

اگر ہم جیسا کل کر رہے تھے ویسا ہی آج بھی کریں‌ اور آںے والے کل میں‌ بھی تو ہمارے ارد گرد دنیا آگے چلتی چلی جاتی ہے اور ہم وہیں‌ کھڑے رہ جاتے ہیں۔ پھر فاصلہ اتنا ہو جاتا ہے کہ کمیونیکیشن ممکن نہیں‌ رہتی۔

کچھ دن پہلے عدنان کاکڑ نے ارتقا کے موضوع پر ایک طنزیہ مضمون لکھا۔ اس مضمون میں‌ وہ بچکانہ سوالات اٹھائے گئے تھے جو اکثر زیادہ عمر کے افراد پوچھتے پائے گئے۔ وہ اس لئیے ہوتا ہے کیونکہ پرائمری اسکولوں‌ میں‌ سائنس کی تعلیم نہایت کمزور ہے۔ جو ہے بھی وہ بھی یاد کر کے دہرانے والی ہے، بنیادی کانسپٹ (خیال) کو سمجھنے والی نہیں۔\"img_5804\"

شایان خوش قسمت ہے کہ اس کو یہ سب ابھی سے دیکھنے اور سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس لئیے وہ ان پیچیدہ مضامین کو سمجھنے کے         لائق بن سکے گا۔ ارتقاء کی سائنس کو سمجھے بغیر اس کی فیلڈ میں‌ ترقی ممکن نہیں۔ ارتقاء کی سائنس کی بنیاد پر نئی دوائیں، علاج کے طریقے اور پودوں‌ اور جانوروں‌ کی بہتر نسلیں‌ تخلیق کئیے جاسکتے ہیں۔ انسانی ارتقاء کو سمجھنا ذیابیطس اور مٹاپے کے علاج اور ان کی نئی دواؤں میں‌ اہمیت کا حامل ہے۔ سائنس کے ٹیچرز پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان پیچیدہ مضامین کو بالکل آسان کرکے عام لوگوں‌ تک پہنچائیں تاکہ یہ بچے بڑے ہو کر ان بیماریوں‌ کا علاج دریافت کرنے کے قابل ہوں‌ جو شاید ابھی تک دریافت ہوئی بھی نہیں‌ ہیں۔ ہر نیا دن اپنے ساتھ نئے سوال اور نئے مسائل لاتا ہے۔ تالے بدلتے جاتے ہیں‌ اور نئی چابیاں بنانی پڑتی ہیں۔ پرانی چابیوں‌ سے نئے تالے نہیں‌ کھلتے۔

شایان میرا بھانجا ہے جس کی عمر 7 سال ہے اور وہ بڑی آنکھوں‌ والا ایک نہایت ذہین اور شرارتی بچہ ہے۔ جب اپنے بچے چھوٹے تھے تو ان کے ساتھ سائنس میوزیم، چڑیا گھر، نیچرل ہسٹری میوزیم، تھیم پارکس اور بچوں کی موویاں‌ دیکھیں۔ بچوں کی نئی آنکھوں‌ سے دنیا کو پھر سے دیکھا۔ ٹین ایج میں‌ بچے آنکھیں‌ گول گول گھماتے ہیں‌ اور ان کو اپنے دوست اپنے والدین سے زیادہ اہم لگتے ہیں۔ یہ ایک نارمل فیز ہے۔ لیکن شایان ابھی اس مرحلے میں‌ نہیں‌ پہنچا ہے۔

\"img_5797\"

جب اینڈوکرنالوجی میں‌ فیلوشپ شروع کی تو پہلا بڑا پراجیکٹ گرینڈ راؤنڈ کا تھا جس میں‌ کسی بھی ٹاپک پر ریسرچ کر کے ایک نتیجے پر پہنچنا تھا اور پھر اس کو اپنے مطالعے سے شواہد کے ساتھ حاضرین کے سامنے ثابت کرنا تھا۔ گرینڈ راؤنڈ میں‌ یونیورسٹی کے ڈین بھی آ جاتے تھے، پروگرام چیف بھی اور پروگرام ڈائریکٹر بھی۔ اس کے علاوہ آپ کے کلاس فیلو اور سینئر اور جونئیر بھی موجود ہوتے تھے۔ وہ ایک نہایت اسٹریس والا دن تھا جس کے انتظار میں‌ بھوک پیاس تک ختم ہوگئی اور وزن اتنا کم ہوگیا کہ پچھلے 10 سال میں‌ وہ نمبر دوبارہ نہیں‌ دیکھا ہے۔ بچے اور میں‌ مووی دیکھنے گئے۔ وہ تھی \”کنگ فو پانڈا\”۔ جن لوگوں نے یہ اینی میٹڈ مووی دیکھی ہے وہ جانتے ہوں‌ گے کہ یہ ایک جسیم پانڈا کی اسٹوری ہے جو کنگ فو کا ماہر بننا چاہتا تھا، سب اس پر ہنستے ہیں کہ تم تو ایسا کبھی نہیں‌ کرسکو گے لیکن وہ ہمت نہیں‌ ہارتا اور آخر کار اپنا نام منوا کر رہتا ہے۔ یہ ثابت کرنا کہ ذیابیطس کے مریضوں‌ میں‌ پارکنسنز کی بیماری ہونے کا چانس ان لوگوں‌ کے مقابلے میں‌ زیادہ ہے جن کو ذیابیطس نہ ہو۔ یہ کنگ فو سیکھنے اور طاقت ور دشمن کو شکست دینے سے کافی آسان کام لگنے لگا۔

ہر انسان میں‌ ایک بچہ ہوتا ہے تجسس اور توانائی سے بھرپور۔ اس کو زندہ رکھنا چاہئیے۔ اس کو مرنے نہیں‌ دینا چاہئیے۔

جب بیٹی نو سال کی تھی تو ایک رات مجھے ٹیکسٹ کرکے کہتی ہے کہ امی جلدی سو جائیں تاکہ آپ کا گروتھ ہارمون نکلے اور آپ لمبی \"img_5799\"چوڑی اور مضبوط ہوجائیں۔ یہ سن کر مجھے بہت ہنسی آئی کہ یہ بات ایک بچے کو معلوم ہو سکتی ہے کہ گروتھ ہارمون سوتے میں اور ورزش میں‌ نکلتا ہے۔

ڈاکٹر کیم فیلوشپ میں‌ مینٹور تھے جنہوں‌ نے ایک پراجیکٹ میں‌ مدد کی۔ انہوں‌ نے پرائمری الڈاسٹیرون کو تشخیص کرنے کے لئیے سیلین انفیوژن ٹیسٹ اور کیپٹوپرل سپریشن ٹیسٹ ایجاد کئیے جن کو دنیا میں‌ اس بیماری کو تشخیص کرنے کے لئیے گولڈ اسٹینڈرڈ سمجھا جاتا ہے۔ انہوں‌ نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی انسان کو دنیا کے ہر موضوع کے بارے میں‌ ہر بات کبھی بھی معلوم نہیں‌ ہوسکتی ہے۔ اگر حاضرین میں‌ سے کوئی آپ سے کوئی ایسا سوال پوچھے جو آپ کو نہ آتا ہو تو یہ کہیں‌ کہ آپ کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں‌ لیکن آپ تلاش کرنے کی کوشش کریں ‌گے۔ ان کا نام، سوال اور ای میل ایک کارڈ پر لکھیں‌ اور بعد میں‌ اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر ان کو بھیجیں۔ اس طرح آپ کی اپنی معلومات بھی اس موضوع میں‌ بڑھ جائیں گی۔

دنیا پر پڑنے والی ہر دو آنکھیں‌ اس پرانی دنیا کو دیکھنے کا ایک نیا موقع ہیں۔ آج کی دنیا کے ان بچوں‌ کو ڈنڈے مار مار کر پرانا پڑھانے کے بجائے ان کو کل آنے والی دنیا اور اس کے ایسے نئے سوالات کے لئیے تیار کرنا ہے جو ابھی تک پوچھے تک نہیں‌ گئے ہیں۔ ہمارے اپنے مستقبل کا دارومدار ان پر ہے۔

\"img_5808\"

میں نے اور میری امریکین بیٹی نے مل کر تھر کی سندھی خاتون پینٹ کی تھی۔ یہ تصویر ساتھ میں‌ پینٹ کرتے ہوئے اس کو بتایا تھا کہ جس علاقے سے ہم امریکہ آئے وہاں پر آج بھی اس طرح خواتین سر پر پانی رکھ کر اپنے گھر والوں‌ کے لئیے لاتی ہیں۔ اس کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ ہر جگہ ایسا نہیں‌ ہوتا کہ صبح اٹھ کر نلکا کھولیں‌ تو اس میں‌ سے ٹھنڈا اور گرم پانی آجائے۔ کچھ کے بچے بھی ہوتے ہیں اور ان کی ایک بغل میں‌ بچہ اور دوسرے میں‌ مٹکا ہوتا ہے۔ کس طرح‌ وہ اپنی زندگی کو توازن میں‌ رکھتی ہیں اس میں‌ ایک سبق ہے۔ ان خاتون کا چہرہ پلین تھا یعنی خالی جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بغیر نام اور چہرے کے نسل در نسل ایک ہی دائرے میں‌ سفر کررہی ہیں۔

ایک دن اس کمرے میں‌ بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی تو سامنے دیوار پر نظر پڑی۔ اس تصویر کو دیکھ کر چیخ نکل گئ اور کتاب ہاتھ سے گر پڑی۔ اف یہ کس نے اس پینٹنگ پر کارٹون بنا دیا؟ پھر سوچا تو اتنا بھی کیا سوچنا تھا، ایک ہی تو ننھا بچہ ہے ہمارے چھوٹے سے خاندان میں‌۔ وہ اس وقت تین سال کا تھا۔ شایان آیا تو میں‌ نے اس کو کمر سے پکڑ کر اوپر اٹھا لیا۔ تم نے پینٹنگ پر کیوں‌ ڈرائنگ کی؟ جب اس کے امی ابو کو بتا رہی تھی کہ کیا ہوا تو وہ نیچے اتر کر پہلے ادھر ادھر ہنستا ہوا بھاگتا رہا پھر آ کر بولا کہ \”آئے وانٹڈ ہر ٹو بی ہیپی\” یعنی میں‌ چاہتا تھا کہ وہ خوش ہو۔ (I wanted her to be happy) اب یہ پینٹنگ ایسے ہی لگی ہوئی ہے بغیر کسی تبدیلیوں‌ کے۔ وہ نہ صرف سندھ کے خطے کی تاریخ ہے بلکہ ہماری فیملی کی بھی۔

شایان اور خالہ سیم نوبل نیچرل ہسٹری میوزیم گئے۔ وہاں‌ نیا سیکشن دیکھا جو کہ مایا تہذیب کے بارے میں تھا۔ قدیم مایا قوم کے لوگوں‌ نے گنتی کا ایک نظام ترتیب دیا تھا جو کہ نقطوں‌ اور لائنوں‌ پر مشتمل تھا۔ ایک لائن پانچ کے برابر اور ایک نقطہ ایک کے برابر۔بارہ لکھنے کے \"img_5806\"لئیے دو لائنیں‌ اور دو نقطے چاہئیے ہوں‌ گے۔ وہا‌ں‌پر شایان نے اور خالہ نے مایا کے طریقے سے گنتی کرنا سیکھا۔ شایان بڑا ہشیار نکلا۔ کھیل کھیل میں‌ مایا گنتی سیکھ گیا اور گھر میں‌ آکر بھی مثالیں‌ دیتا رہا۔ خالہ! 90 بنانے کے لئیے 18 لائنیں‌ چاہئیں ہوں‌ گی۔ خالہ نے دو لمحے سوچا اور کہا ہاں‌ بالکل شایان 18 لائنیں‌ 90 ہی بنیں۔

میوزیم میں‌ فوسل دیکھے، دنیا کا سب سے بڑا دریافت ہوا ڈائناسور کا سر بھی دیکھا، یہ پڑھا کہ نناوے اعشاریہ نائن نائن اسپی شیز دنیا سے ناپید ہوچکی ہیں۔

\”سائنس روشنی ڈال کر وضاحت کرنے کی طاقت رکھتی ہے لیکن انسانوں‌ کے گہرے مسائل حل نہیں‌ کرسکتی کیونکہ معلومات کے بعد چناؤ اور عمل کا مرحلہ آتا ہے جو کہ انتہائی ذاتی فیصلے ہیں۔\”

پروفیسر پال بی سئرز۔ یونیورسٹی آف اوکلاہوما



Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments