شعبہ طبیعیات ڈاکڑ عبدالسلام کے نام سے منسوب۔۔۔ حکومت کا دلیرانہ قدم


\"zaman-khan\"عام حالات میں یہ کوئی خبر نہیں بنتی مگر ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے مخصوص حالات اور تاریخ نے نواز شریف کے اس اقدام کو ایک عالمی خبر بنا دیا ہے۔ امید کرنی چاہئے کہ نواز شریف حکومت پاکستان کو ایک جدید فلاحی حکومت بنانے کے راستہ پر چلتی رہے گی اور پاکستان میں پسماندہ، مظلوم طبقات، قوموں اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ نابرابری اور امتیازی سلوک کے خاتمہ کے لئے ٹھوس اقدامات سے گریز نہیں کرے گی۔ پاکستان کی تاریخ کے ہر طالب علم کو احساس ہے کہ عام حالات میں یہ معمولی سا قدم اٹھانے کے لئے ان کو کن کن مشکلات ،مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا اور کرنا پڑے گا اور ان پر کیا کیا الزامات لگیں گے۔ مگر میری نظر میں پاکستا ن کے بہترین مفاد میں یہی راستہ ہے۔

پاکستان بننے سے چند دن پہلے یعنی گیارہ اگست 1947کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں خطاب میں واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ اب جب کہ ہندوستان آزاد ہو گیا ہے اور پاکستان معرض وجود میں آگیا ہے تو اب پاکستان کے تمام شہری خواہ ان کا کوئی بھی مذہب ہو، قانون کی نظر میں برابر ہوں گے ۔

یہ بات بھی ہم سب کو معلوم ہے کہ جب جناح صاحب پاکستان کی جدید ریاست کے خدو خال بیان کر رہے تھے تو اس وقت آئین ساز اسمبلی کی صدارت ایک غیر مسلم کر رہا تھا۔ قائد اعظم نے اپنی کابینہ میں قانون کا محکمہ بھی ایک غیر مسلم کو سونپا تھا۔ مقصد یہ کہ جناح ایک جدید ریاست کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔ایک جدید ریاست کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کے تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہوتے ہیں اور رنگ و نسل ،عقیدہ اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔

مگر عملی طور پر پاکستان کی تاریخ میں حکمرانوں نے قائد اعظم کے ارشادات کی کھل کر نفی کی اور کرتے ہی چلے گئے۔ یعنی قائد عظم\"dr-abdus-salam-e1343824487256\" نے کبھی بھی کسی جگہ پر یہ نہیں کہا تھا کہ پاکستان پر ملا کی حکومت ہو گی۔ قائد اعظم کبھی بھی پاکستان کو ایک مذہبی ریاست (theocratic state) نہیں بنانا چاہتے تھے۔ ہوا کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ چونکہ مسلم لیگ اپنے فکری بانجھ پن کی وجہ سے کمزور ہوتی گئی اور اس نے اپنے سیاسی حریفوں کو دبانے کے لئے مذہبی طاقتوں پر زیادہ سے زیادہ انحصار بڑھا دیا اور ایک وقت آیا کہ ’ملا‘ کے بغیر حکومت وقت کا چلنا مشکل ہو گیا۔
میں کوئی مذہبی سکالر نہیں ہوں مگر مجھے یہ پتہ ہے کہ جو لوگ اسلام کی مشتدادنہ تشریح (مذہبی دہشت گردی) کرتے ہیں وہ اسلام کی کوئی خدمت نہیں کرتے۔

دنیا بھر میں یہ دستور ہے خاص کر تعلیمی اداروں میں کہ وہ اپنے اساتذہ کے نام سے مختلف شعبہ منسوب کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ ہوا کہ ادارے غیر مسلموں نے بنائے اور ہم نے ان کے نام مٹا دئے یا تبدیل کر دئے۔ مثلاً لائلپور کو فیصل آباد بنا دیا۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا جو لوگ لاہور کے ایف سی کالج کے طالب علم رہے ہیں انہیں یہ بخوبی علم ہے وہاں اساتذہ کے ناموں پر اداروں اور بلڈنگز کے نام رکھے جاتے تھے مگر قومیائے جانے کے بعد ہم نے اس کالج کے ساتھ کیا کیا اور کس طرح اس کی روایات کو پامال کیا۔

ہمارے مہربان طالبان نے تو افغانستان میں بدھ کے تاریخی اور قدیم مجسمہ کو بھی باوجود دنیا کے احتجاج کے توڑ دیا۔\"abdus-salam-3\"
دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں مذہبی اقلیتیں نہ ہوں مگر ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ ہم نے مذہبی اقلیتوں کے لئے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ ان کا رہنا محال ہو گیا اور وہ پاکستان چھوڑ گئے۔

میں سمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف نے قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کا نام نوبیل انعام یافتہ سائنس دان کے نام سے منسوب کر کے یہ بات ثابت کردی ہے کہ نواز شریف وقت کے تقاضوں کا ادراک ،شعور اور جدید فکر رکھتے ہیں، پاکستان میں رہنے والے سب شہریوں کو برابر کا شہری سمجھتے ہیں۔یہ بھی اچھا کیا کہ انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے پانچ طلبا کو پی ایچ ڈی کی فیلو شپس بھی دینے کا اعلان کیا ہے۔

میری نظر میں اقلیتوں کے ساتھ رہنے سے انسان میں ذہنی وسعت پیدا ہوتی ہے اور وہ دوسروں کے مذہب اور ثقافت کا احترام سیکھتا ہے جو کہ ایک زندہ قوم کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments