ذرائع ابلاغ، ایک تقابلی جائزہ


\"syed

عصر حاضر میں پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا عوام میں آگاہی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ تاریخ کے حوالے سے پرنٹ میڈیا سب سے قدیم ذریعہ ہے پھر بالترتیب الیکٹرونک اورسوشل میڈیا آتے ہیں۔ فی زمانہ عوام میں الیکٹرونک میڈیا کی رسائی کا تناسب پرنٹ اور سوشل میڈیا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ عوام کو جب بھی تازہ ترین خبر جاننا ہوتی ہے تو ٹی وی آن کرکے خبریں سن اور دیکھ لیتے ہیں۔ ٹی وی پر خبروں کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی، مذہبی اور سماجی حالات کے حوالے سے معلوماتی و تجزیاتی پروگرام بھی نشر ہوتے ہیں۔ جس میں شرکائے گفتگو بحث میں حصّہ لیتے ہیں اور اپنی رائے سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ ان پروگرامز میں حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں، ارکان اسمبلی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما اور ارکان سمبلی اورسیاسی، معاشی، مذہبی اور سماجی تجزیہ نگار شامل ہوتے ہیں۔ ان پروگرامزکا مقصد عوام میں سیاسی، معاشی، مذہبی و سماجی شعور بیدار کرنا ہوتا ہے لیکن مشاہدہ یہی ہے کہ اکثر پروگرامز بحث برائے بحث اور مخالفت برائے مخالفت پر مبنی ہوتے ہیں یا ریٹنگ کے حصول کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ تو شرکائے گفتگو باہم دست و گریباں بھی ہو جاتے ہیں۔

یوں موضوع بحث پس پشت چلاجاتا ہے اور افراتفری کی صورتحال میں پروگرام کے اختتام کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے عوام کا رجحان، ان پروگرامز کی طرف بتدریج کم ہورہا ہے اور عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ اس طرح کے پروگرام دیکھ کر عوام کسی نتیجے پر پہنچنے کی بجائے، مزید ذہنی خلفشار کا شکار ہورہے ہیں۔ اسی طرح ریٹنگ کی دوڑ میں فوری خبر یا بریکنگ نیوز اس طرح پیش کی جاتی ہیں۔ جس سے عوام میں پریشانی اور ہیجان برپا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ خبر کی درست نوعیت، صحت اور تصدیق پر توجہ دینے کی بجائے، توجہ یہ ہوتی ہے کہ خبر نشر کر نے میں ہمارا چینل سبقت لے جائے۔ اسی لیے بعض دفعہ فوری خبر درست ثابت نہیں ہوتی۔ کچھ دیر بعد خبر کی اصل نوعیت کاپتہ چلتا ہے۔ گزشتہ دنوں کرکٹر حنیف محمد کے انتقال کی خبربھی جلد بازی میں نشر کی گئی اور فوری طور پرسابقہ کرکٹرز نے چینلز پر ان کی خدمات پر اور موت سے پیدا ہونے والے خلا کو لے کر تبصرے بھی کرنے شروع کردیئے۔ کچھ دیر بعد ان کے پھر سے زندہ ہونے کی خبر چلانی پڑی۔

مزید مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں لیکن فی الوقت اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ معاشرے میں بے راہ روی، جرائم کے واقعات وحادثات بھی وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ان واقعات و حادثات کی خبریں نشر کرنے کے ساتھ، ٹی وی چینلز نے ان واقعات کی ڈرامائی تشکیل کرکے نشر کرنا شروع کردیا۔ اس سے بھی گھریلو ماحول پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑا بلکہ اکثر پروگرا م تو ایسے ہوتے تھے کہ خاندان کے تمام افراد بیٹھ کر دیکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ اسی وجہ سے اب ان پروگرامز پر پیمرا کی طرف سے پابندی لگائی جا چکی ہے۔ سوشل میڈیا بھی عوام میں معلومات وشعور بیدار کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ بے شمار ایسی معلوماتی، تعلیمی، مذہبی، علمی و ادبی ویب سائٹس وجود میں آچکی ہیں۔ جہاں سے معاشرے کا ہر طبقہ خصوصا طلباء، اِن ویب سائٹس سے استفادہ حاصل کررہے ہیں لیکن ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح میں پستی کی وجہ سے عوام میں شعور کی واضح کمی ہے۔

اسی وجہ سے من گھڑت خبریں، جعلی و فحش تصاویر اور ویڈیو، سیاسی و مذہبی مخالفین کے ساتھ گالم گلوچ اور نجانے کیا کیا، سوشل میڈیا پر ہورہا ہے۔ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی زبان لڑکھڑا جائے۔ سوشل میڈیا کا استعمال عمومی طور پر نوجوان و نوعمر طبقہ کر رہا ہے۔ جس میں اکثریت طلباء کی ہوتی ہے۔ عمر کے اس حصّے میں صحتمند غیر نصابی سرگرمیاں، طلباء کی تعلیم میں معاون ہوتی ہیں۔ جس میں کھیل و کود کو اوّلیت حاصل ہے۔ کھیل و کود طلباء کی ذہنی و جسمانی نشو نما کے لیے اشد ضروری ہیں لیکن کمپیوٹر اور موبائل کے بے جا استعمال نے طلباء کی اکثریت کو کھیل و کود جیسی صحتمند غیر نصابی سرگرمیوں سے دور کردیا ہے۔ مشاہدہ یہی ہے کہ گھر تو گھر، سماجی تقریبات میں بھی شرکاء موبائل پر مصروف، اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ جس سے جہاں خاندانی نظام میں دراڑیں پیدا ہورہی ہیں۔ وہیں سماجی تقریبات کی افادیت بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ مکالمہ جو مہذب معاشروں میں ہمیشہ ہر مسئلے کا حل تلاش کرتا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی اِن حرکات کی وجہ سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اِسی لیے معاشرے میں صبر و تحمّل کا فقدان ہے۔

سوشل میڈیا کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر خواتین اور لڑکیوں کی، خصوصا فیس بک پروفائل کو ہیک کیا جاتا ہے ا ور پھر خواتین اور لڑکیوں کی نازیبا جعلی تصاویر، اُن کے عزیز و اقارب کو بھیج کر رسوا اور بلیک میل کیا جاتا کیا جاتا ہے۔ اس قبیح فعل کی وجہ سے نامعلوم کتنی شادی شدہ خواتین کے گھر اُجڑے ہیں اور لڑکیوں کو پریشانی، ہزیمت اور رسوائی کا سامنا کرناپڑا ہے۔ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی کی اس حالت اورروِش کو دیکھتے ہوئے، رواں سال سینیٹ اور قومی اسمبلی نے ایک متنازعہ بل PECB 2015 منظور کیا ہے۔ جس کو سائبر کرائم بل کہا جاتا ہے۔ جویکم ا گست سے نافذ العمل ہے۔ گو کہ اس بل کی کچھ شقوں پر ہر طبقہ فکر سے تنقید کی گئی ہے کیونکہ اس بل کہ نفاذ سے جہاں شخصی آزادی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ وہیں صحافتی آزادی بھی متاثر ہوتی نظر آتی ہے لیکن اس بل کی منظوری میں الیکٹرونک میڈیا کی غیر ذمّہ دارانہ صحافت اور سوشل میڈیا پر برپا ہونے والی طوفان بدتمیزی کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ اب جب کہ سائبر کرائم بل قانون کا حصّہ بن چکا ہے تو امید کی جاتی ہے کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے رویّے تبدیل ہوں گے۔

ہر طرح کے معلوماتی و تجزیاتی پروگرامز میں بامقصد بحث اورتعمیری تنقید کی بنیاد پڑے گی اور مکالمہ جو موجودہ ملکی حالات میں انتہائی ضروری ہے۔ اس کی روایت پڑے گی۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی من گھڑت خبروں اور گالم گلوچ، جعلی و فحش تصاویرا ور ویڈیومیں کمی آئے گی۔ پرنٹ میڈیا بھی یقینا نقائص سے یکسر پاک نہیں ہے۔ پرنٹ میڈیا پر سب سے بڑااِلزام یہی ہے کہ حکومت اور مقتدر قوتوں اور اداروں کے زیر اثر ہیں اور اپنے ذاتی و مالی مفادات کو مدّنظر رکھتے ہوئے، خبریں چھاپتے ہیں اور قصیدہ گوئی میں مگن ہیں لیکن اخبارات میں خبر چھپنے سے پہلے اس کی نوعیت، صحت اورصداقت پر غور کرنے کے بعد ہی اشاعت کے لیے بھیجاجاتا ہے۔ یہی معاملہ تصاویر کی اشاعت میں اپنایا جاتا ہے۔ ادارتی پالیسی اور صحافتی اقدار کو مدّنظر رکھتے ہوئے، کالم، تبصرے، قارئین کی آراء اور اشتہارات چھاپے جاتے ہیں۔ اس لیے اہل علم و دانش کے ساتھ باشعور عوام اخبارات میں شائع ہونے والے اداریوں، خبروں، کالموں اورتجزیوں کو پڑھ کر ہی کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ مقتدر قوتیں، حکمراں اور اعلی عدالتیں بھی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور رپورٹوں پر بھروسہ کرتے ہوئے، ازخود نوٹس لے کر متعلقہ حکّام یا اداروں کی انتظامیہ کو طلب کرلیتے ہیں او ر یوں متاثرہ شخص کو فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہوجاتی ہے۔ اس لیے فی زمانہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پرنٹ میڈیا کو الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر سبقت حاصل ہے کیونکہ پرنٹ میڈیا، عوام کوسب سے زیادہ مؤثر اور مصدّقہ خبریں، تجزیے فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments