نواز شریف سے تین سوال


\"mujahidپاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کو یہ باور کروانے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں کہ نواز شریف اور ان کے بچوں کو اپنے وسائل کے حوالے سے شواہد فراہم کرنا ہوں گے۔ اسی کے نتیجے میں عدالت عظمیٰ نے آج وزیراعظم اور ان کے بچوں کے وکلا سے تین سوالوں کا جواب دینے کےلئے کہا ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے ارکان یہ قرار دے رہے تھے کہ اگر تحریک انصاف یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ شریف خاندان 2006 سے پہلے ان آف شور کمپنیوں کا مالک تھا جو لندن کے علاقے پارک لین میں متعدد فلیٹس کی مالک ہیں تو نواز شریف کے بچوں کا موقف غلط ثابت ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کے وکیل اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت تو پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تاہم انہوں نے متعدد متضاد بیانات اور وزیراعظم کی تین تقریروں کے حوالے سے عدالت کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ وزیراعظم اور ان کے بچے معلومات چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نعیم بخاری نے آج دلائل ختم کئے ہیں اور وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے آج اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے واضح کیا کہ مریم نواز شادی کے بعد کبھی نواز شریف کے زیر کفالت نہیں رہیں۔ اس حوالے سے 2011 کے جس گوشوارے کا حوالہ دیا جا رہا ہے، وہ الیکٹرانک فارم کے ذریعے داخل کیا گیا تھا۔ اس میں مطلوبہ کالم نہ ہونے کی وجہ سے مریم نواز کا نام لکھا گیا تھا۔ 2013 میں فارم میں تبدیلی کے بعد یہ تصحیح کر لی گئی تھی۔

وزیراعظم کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز نے پاناما پیپرز میں منکشف ہونے والی آف شور کمپنیوں کی ملکیت کو تسلیم کیا ہے۔ اس لئے اب عدالت کا موقف ہے کہ یہ بھی شریف خاندان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ یہ کمپنیاں جائز طریقے سے حاصل کئے گئے وسائل سے قائم کی گئی تھیں۔ اس بارے میں اس سال کے شروع میں پاناما پیپرز میں شریف خاندان کا نام سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نے دو بار قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پاک دامنی کی تفصیل بتائی تھی۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے بھی انہوں نے بیرون ملک اپنے خاندان کے وسائل کے بارے میں ساری دستاویزات پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اپوزیشن البتہ تحقیقاتی کمیشن کےلئے ٹی او آرز بنانے پر اصرار کرتی رہی تھی۔ ان قواعد پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف نے احتجاج اور دھرنے کا آغاز کیا تھا اور پیپلز پارٹی چار مطالبات تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ عمران خان نے 3 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی دی تھی تاہم دو نومبر کو سپریم کورٹ نے اس مقدمہ پر غور کرنے اور کمیشن قائم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ اس کے بعد تحریک انصاف نے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کی دھمکی واپس لے لی تھی اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کو اپنی فتح قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ وہ کمیشن قائم کرنے کی صورت میں خود اس کے قواعد وضع کرے گی اور ایک رکنی کمیشن کو سپریم کورٹ جیسے ہی اختیارات حاصل ہوں گے۔

تاہم معاملہ ابھی تک اس بات پر اٹکا ہوا ہے کہ کیا نواز شریف نے اپنی تقریروں میں سچ بولا تھا اور کیا لندن کی جائیداد ان کے بچوں نے اپنے دادا سے ملنے والے وسائل کے ذریعے حاصل کی تھی۔ عدالت یہ اشارہ دے چکی ہے کہ اگر لندن کے فلیٹس کی ملکیت اور انہیں خریدنے کےلئے فراہم کردہ وسائل کے بارے میں صورتحال واضح ہو جائے تو وہ اس معاملہ میں زیادہ مغز ماری کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزدگان حسن اور حسین نواز نے اپنے وکیل اکرم شیخ کے ذریعے نومبر کے دوران قطر کے سابق وزیراعظم پرنس حمد بن جاسم بن جابر الثانی کا ایک خط پیش کیا تھا۔ اس خط میں قطری شہزادے نے یہ واضح کیا تھا کہ نواز شریف کے والد میاں محمد شریف نے 80 کی دہائی میں الثانی خاندان کے پراپرٹی کے بزنس میں رقم لگانے کی بات کی اور 12 ملین درہم سرمایہ کاری کی۔ اس سرمایہ کاری کی وجہ سے لندن کے پارک لین کے فلیٹس نواز شریف کے خاندان کو رہنے کےلئے دیئے گئے تھے تاہم وہ فلیٹ نیلسن انٹرپرائزز اور نیسکول لمیٹڈ کی ملکیت تھے جو الثانی فیملی کے قبضہ میں تھیں۔ البتہ 2006 میں یہ کمپنیاں حسن نواز کے نام منتقل کر دی گئی تھیں۔ یوں نواز شریف کے بچے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے دادا کی سرمایہ کاری کے ذریعے جو کمپنیاں حاصل کی تھیں، لندن والے فلیٹس ان کی ملکیت ہیں۔ یہ کمپنیاں حسن نواز کو منتقل ہونے کے بعد وہ اس کے باقاعدہ مالک بن چکے ہیں۔

اس بیان میں البتہ ایک مشکل تو یہ ہے کہ نواز شریف کا خاندان 90 کی دہائی سے ہی ان فلیٹس میں قیام پذیر ہے۔ اس لئے انہیں یہ صراحت سے ثابت کرنا پڑے گا کہ 2006 سے قبل وہ محض کرایہ دار تھے یا دوستوں کی جائیداد میں رہ رہے تھے۔ اس حوالے سے صرف ایک شہزادے کا خط شاید کافی نہ ہو۔ سپریم کورٹ یہ سوال بھی اٹھا چکی ہے کہ کیا قطری شہزادہ حمد بن جاسم بیان دینے کےلئے عدالت میں آئیں گے۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ شہزادہ جاسم ان دنوں شکار کےلئے پاکستان آئے ہوئے ہیں اور شریف خاندان ہی ان کا میزبان ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران آج اس کا تذکرہ نہیں ہوا اور نہ ہی یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ پرنس حمد بن جاسم کو اپنے خط کی تصدیق کرنے کےلئے عدالت میں گواہ کے طور پر بلایا جائے۔ اصول قانون کے تحت یہ خط یا شہزادے کی گواہی یہ ثابت کرنے کےلئے کافی نہیں ہو سکتی کہ لندن کے فلیٹ کب کس کی ملکیت تھے اور وہ نواز شریف کے بچوں نے جائز طریقے سے حاصل کردہ وسائل کے ذریعے حاصل کئے تھے۔ اس مقصد کےلئے الثانی خاندان کو 80 کی دہائی میں 12 ملین درہم کی قطر منتقلی کے ثبوت فراہم کرنا ہوں گے۔ یہ بھی بتانا پڑے گا کہ یہ رقم کس نے اور کہاں سے قطر منتقل کی تھی۔ نیلسن اور نیسکول کمپنیاں چونکہ مبینہ طور پر 2006 تک الثانی خاندان کی ملکیت تھیں تو یہ اس دعویٰ کی دستاویزات بھی درکار ہوں گی کہ یہ کمپنیاں دراصل 2006 میں ہی حسن نواز کو منتقل ہوئی تھیں۔

تاہم اس حوالے سے سب سے بڑی قباحت یہ بھی ہے کہ وزیراعظم اپنے تین بیانات میں یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کے والد میاں محمد شریف 70 کی دہائی میں بھٹو حکومت کی نیشنلائزیشن پالیسی سے تنگ آ کر اور اتفاق فاؤنڈری کی ملکیت سے محروم ہو کر ابوظہبی چلے گئے تھے اور وہاں انہوں نے اسٹیل مل لگائی تھی۔ بعد میں اسی مل کو فروخت کر کے 2001 میں جدہ میں اسٹیل مل لگائی گئی۔ اسے فروخت کرکے جو وسائل فراہم ہوئے، ان سے لندن کے فلیٹ یا ان کمپنیوں کو خریدا گیا جن کا ذکر پاناما پیپرز میں بھی آ چکا ہے۔ اس بیان کے برعکس حسن اور حسین نواز اس بات کے شواہد سامنے لائے ہیں کہ انہوں نے یہ کمپنیاں قطر کی الثانی فیملی کے ساتھ اپنے دادا کی سرمایہ کاری کے نتیجہ میں حاصل کی تھیں۔ یہ دو مختلف بیان ہیں۔ نواز شریف کے وکیل کو یہ ثابت کرنا ہے کہ ان دونوں بیانات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ نواز شریف جب بیرون ملک اپنے والد کے کاروبار کا ذکر کر رہے تھے تو انہوں نے ابوظہبی اور سعودی عرب کی اسٹیل ملوں کا ذکر کرتے ہوئے قطر کی پراپرٹی کمپنی میں سرمایہ کاری کا ذکر کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھا۔ اگر عدالت چاہے گی تو یہ اہم سوال بھی جواب طلب ہوگا کہ 70 کی دہائی میں میاں محمد شریف نے جب ابوظہبی میں سرمایہ کی تھی تو وہ پاکستان سے سرمایہ کس طرح باہر لے کر گئے تھے۔ اس وقت تک شریف خاندان کا کل کاروبار پاکستان میں ہی تھا۔ اگر اس وقت پاکستان سے سرمایہ کی باقاعدہ منتقلی کے شواہد سامنے لائے جا سکیں تو نواز شریف اور ان کے اہل خاندان پر دباؤ کم ہو سکتا ہے۔ وگرنہ منی لانڈرنگ کے الزامات کا جواب دینا آسان نہیں ہوگا۔

سپریم کورٹ چونکہ تحقیقاتی ادارہ نہیں ہے اور آج چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے ریمارکس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عدالت کو ملک کے تحقیقاتی اداروں نیب ، ایف بی آر اور ایف آئی اے پر بھی اعتبار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ ادارے موثر طریقے سے کام نہیں کرتے تو انہیں بند کیوں نہ کر دیا جائے۔ اس صورت میں عدالت عظمیٰ کے جج حضرات براہ راست سوالات کے ذریعے اس پیچیدہ گتھی اور الزامات سے آلودہ معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لئے آج اس خواہش کا اظہار تین سوالوں کی صورت میں سامنے آیا ہے: 1) وزیراعظم نواز شریف کے بچوں نے کمپنیاں کس طرح قائم کیں۔ 2) کیا مریم نواز کسی کے زیر کفالت ہیں۔ 3) کیا وزیراعظم نے اپنے بیانات میں کوئی غلط بیانی کی تھی۔

ان سوالوں کے واضح اور دوٹوک جواب ایک یا دو سماعتوں میں اس معاملہ کو انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم نواز شریف اور ان کے بچوں کے وکیلوں کو صرف حجت ، رد دلیل یا بیانات کا حوالہ دینے کی بجائے دستاویزی شواہد کے ساتھ اپنی بات ثابت کرنا ہوگی۔ اگر سپریم کورٹ کو ان سوالوں کے شافی جواب نہ مل سکے تو یہ معاملہ تحقیقاتی کمیشن کے حوالے کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے اپنے اعلان کے باوجود ابھی تک کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ نواز شریف اور ان کے بچے ان سادہ مگر پیچیدہ سوالوں کا واضح جواب سامنے لانے کی بجائے اگر اس معاملہ کو مزید الجھانے کا سبب بنے تو وزیراعظم کی شہرت کو بھی نقصان پہنچے گا اور یہ معاملہ بھی طوالت کا شکار ہوگا۔ اور آئندہ انتخابات کے دوران سیاسی رسہ کشی کا سبب بنتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments