باہر کی دنیا بہت خراب ہے


میں دوبارہ چار دیواروں میں قید ہو گیا تھا۔ مجھے اپنے باپ پر غصہ آیا تھا، شدید غصہ۔ مجھے اپنے بھائی یاد آئے تھے، دونوں بہنیں یاد آئی تھیں جن کے ساتھ میں لڑتا تھا، دادی جان یاد آتی تھی جو مجھے پیسے دیا کرتی تھیں اور ماں کا چہرہ نظروں کے سامنے آ گیا تھا، نماز کے وقت تک میں اپنے بستر پر پڑا آہستہ آہستہ روتا رہا تھا۔

ایک ہفتے کے بعد عمر بھائی واپس آ گئے تھے۔ ان کے گھر والوں اور گاؤں والوں نے انہیں بہت سے تحفوں کے ساتھ بھیجا تھا۔ وہ بہت خوش تھے، ان کے گھر والے بھی بہت خوش تھے۔ ان کے باپ نے گاؤں میں ہر گھر جا کر اپنے مولوی بیٹے کو ملایا تھا۔ سارا گاؤں خوش تھا کہ وہ ان بہتر لوگوں میں شامل ہیں جو جہاد کے لیے چلے جائیں گے۔

عمر بھائی کا جانا میرے لیے دوسرا صدمہ تھا۔ وہ مجھے سمجھتے تھے، مدرسے کے جنگل میں وہ میرے سب کچھ تھے، مجھے سمجھاتے رہتے تھے اور آہستہ آہستہ میں نے اپنے آپ کو مدرسے میں رہنے کے لیے آمادہ کر لیا تھا۔ ان کا جانا میرے لیے ایک طرح کا حادثہ تھا۔ ان کے جانے کے باوجود میں نے مدرسے سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ میں عربی پڑھنے میں اور قرآن شریف رٹنے میں بالکل بھی اچھا نہیں تھا۔ میں مدرسے کے دوسرے کاموں میں زیادہ لگا رہتا تھا۔ مسجد کی صفائی، چیزوں کی مرمت، گاڑیوں کی دیکھ بھال وغیرہ وغیرہ۔

تین مہینے میں ایک دفعہ ہم لوگوں کو گھر جانے کی اجازت تھی۔ میں جب بھی گھر جاتا تھا میرا دل واپس آنے کو نہیں کرتا تھا لیکن میں اپنے باپ سے یہ آزادی مانگنے کو تیار نہیں تھا۔ میں ان سے بات تک نہیں کرتا تھا۔ مجھے ان سے آہستہ آہستہ شدید نفرت ہو گئی تھی۔ مدرسے میں کبھی کبھار عمر بھائی کے خط آتے تھے اور پتا لگتا رہتا تھا کہ وہ افغانستان کے جہاد میں لگے ہوئے ہیں۔ میں نے بھی مولوی صاحب کو آمادہ کر لیا تھا کہ مجھے بھی جہاد پر بھیج دیں۔

انہوں نے وعدہ بھی کر لیا تھا کہ ناظرہ کے دو سال کے بعد سوچیں گے۔ لیکن ان کا خیال تھا کہ مجھے درس نظامی کا کورس کرنا چاہیے۔ بڑی مشکل سے میں نے ایک سال کا قاعدہ دو سال میں کیا تھا۔ ناظرہ جو ڈیڑھ سال میں ہونا چاہیے اس میں مجھے وقت لگ رہا تھا۔ اس کے بعد تین سال میں مجھے قرآن حفظ کرنا تھا۔ درس نظامی کے سولہ سولہ کورس کے بعد میں عالم دین بن سکتا تھا۔ وہ تو سمجھتے تھے کہ میں عالم دین بن کر بہت کچھ کر سکوں گا لیکن میں افغانستان کے جہاد میں جانا چاہتا تھا۔

میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا کہ جہاد ختم تو نہیں ہو جائے گا، انہوں نے کہا تھا نہیں۔ ابھی تو جنگ جاری رہے گی کیوں کہ کوئی حل نہیں نکلا ہے۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ سوال نہیں آیا تھا کہ اگر روس کے دہریے ہار کر چلے گئے ہیں تو پھر کس سے جنگ لڑی جا رہی ہے اور کن کے خلاف جہاد ہو رہا ہے؟

پھر ایک بری خبر آئی۔ افغان مجاہدین کا ایک وفد یہ خبر لے کر آیا تھا، ایک ماہ قبل تین سو سے زائد مجاہدین کا قتل قندھار کے پاس ہوا تھا اور لاشوں کو وہیں دبا دیا گیا تھا، اس میں ہمارے مدرسے کے بھی بہت سے طالب علم تھے۔ عمر بھائی بھی شہید ہونے والوں میں تھے۔ میں سوچتا رہا کہ انہیں کس نے مارا تھا؟ روسیوں نے، دہریوں نے، افغانستان کے کسی اور مسلمان دستے نے۔ یہ کیسی شہادت تھی، یہ کون سی جنت ہوگی۔

دوسرے دن جمعے کی نماز کے ساتھ ان شہیدوں کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی تھی۔ تقریر میں بتایا گیا تھا کہ عمر اور سارے شہید اب جنت میں ہیں۔ افغانی مجاہد اور مولوی صاحب نے بڑی ولولہ انگیز تقریر کی تھی۔ مولوی صاحب نے کہا تھا کہ اسلامی جنگ کے لیے ہمارے پاس اور مجاہد تیار ہیں۔ ملک کے سارے مدرسے اس جنگ میں شامل ہیں، اگر پاکستانی فوج جو امریکیوں کی فوج ہے اس جنگ میں نہیں جائے گی تو نہ جائے ہمارے مجاہد یہ جنگ لڑیں گے اور اس وقت تک لڑیں گے جب تک اسلام کا جھنڈا ساری دنیا میں نہیں لہرائے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ سعودی عرب والوں نے خاص طور پر اس مدرسے کے شہید ہونے والے شاگردوں کے والدین کو اس حج میں سعودی عرب کا مہمان بنا کر بلایا ہے۔ عمر بھائی کے والدین بھی اس دفعہ حج کرنے جائیں گے۔

افغانستان کی یہ جنگ میرے لیے کشش کھو چکی تھی۔ مجھے اپنے والدین کو حج کرانے کا شوق بھی نہیں تھا، نہ ہی شہید ہونے کا، اور نہ ہی اس جنگ کو لڑنے کا جس میں عمر بھائی شامل نہیں رہے تھے۔ میں نے پھر بھاگنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس دفعہ ریلوے اسٹیشن جا کر لاہور کی ٹرین پر بیٹھ جاؤں گا۔

میں بچ کر نکل گیا، مگر صبح سویرے ٹرین نہیں پکڑ سکا۔ میں اس چھوٹے سے اسٹیشن پر چھپا ہوا بیٹھا اگلی ٹرین کا سوچ رہا تھا کہ گھر سے واپس آنے والے ایک طالب علم نے مجھے دیکھ لیا تھا اور جب مدرسے میں میری تلاش ہوئی تو اس نے بتا دیا تھا کہ میں اسٹیشن پر ہوں۔

مجھ پر یکایک حملہ ہوا تھا۔ ریل کے آنے سے دس پندرہ منٹ قبل ناظم، مدرسے کے پانچ اور لوگوں کے ساتھ آیا تھا اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر مجھے سامان کی طرح ٹرک میں پھینک دیا۔ جب میری پیشی مولوی صاحب کے سامنے ہوئی تھی تو میں پہلے ہی آدھا مر چکا تھا۔

جب دوسری دفعہ میری آنکھ کھلی تھی تو رات کا اندھیرا ہو رہا تھا اور چاروں طرف خاموشی تھی۔ عشا کے درس کے بعد سب لوگ سو چکے تھے۔ میں نے آنکھیں بند کیے فیصلہ کیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے مجھے اس جہنم سے بھاگنا ہے۔

میرے ہاتھوں میں زنجیریں بندھی ہوئی تھیں اور ناظم دوسری چارپائی پر سو رہا تھا۔ میں سوچتا رہا تھا پھر فیصلہ کر کے میں نے ناظم کو آواز دی تھی۔ ناظم مجھے پیشاب لگا ہے۔ خدا کے لیے پیشاب کرنے دو ورنہ یہیں خطا ہو جائے گا۔

ناظم آنکھیں ملتے ہوئے اٹھا تھا۔ طاق پر سے چابی اٹھائی اور مجھے آزاد کر دیا تھا کہ میں پیشاب کرلوں۔ وہ اٹھ کر میرے ساتھ ساتھ دالان کے باہر تک آیا تھا۔ اقامت گاہ میں سخت سناٹا تھا، میرے جسم میں ہر طرف درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، لیکن میرے اندر کا درد اتنا شدید تھا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج کی رات یہاں سے نکل جاؤں گا یا پھر اپنی جان دے دوں گا۔ پیشاب خانے جاتے ہوئے میں نے دیکھ لیا تھا کہ لوہے کا ہتھوڑا دروازے کے ساتھ ہی پڑا ہوا تھا جو کہ میں نے ہی ٹھوکنے پیٹنے کے کام کے لیے اپنے پاس رکھا تھا۔

نہ جانے مجھ میں کہاں سے اتنی طاقت آئی تھی۔ میں واپس آیا اور نظام سے کہا تھا کہ مجھے دوبارہ زنجیر سے باندھ دے ورنہ صبح مولوی صاحب ناراض ہوں گے۔ اس نے جواب دیا تھا کہ وہ یہی کرنے جا رہا ہے اور جیسے ہی وہ زنجیر اٹھانے کے لیے مڑا، میں نے ہتھوڑا اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔ اس کی آواز تک نہیں نکلی اور وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔ اس کی جیب میں تین سو ستر روپے تھے۔ میں نے روپے نکال لیے تھے۔ اپنی خون آلود شلوار قمیض بھی اتار کر کمرے میں پھینک دیتی اور ٹین کے بکسے سے نئی شلوار قمیض نکال کر پہنی تھی اور دعا مانگی میرے مالک، میرے اللہ یا تو مجھے یہاں سے نکال دے یا پھر موت دے دے۔

پھر آہستہ آہستہ مدرسے کی حدود سے باہر نکل گیا تھا۔ تقریباً آدھا میل کتوں کے بھونکنے کے خوف سے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ تھوڑا فاصلہ پورا ہونے کے بعد میں اپنی طاقت سے درد اور تکلیف کو بھول کر دوڑ پڑا تھا۔ بڑی سڑک پر پہنچتے پہنچتے میری سانس بری طرح سے پھول گئی تھی اور میں روڈ کے کنارے گر پڑا۔ رات کے دو تین بجے ہوں گے۔ ڈامر کی پکی سڑک چاندنی رات میں چمک رہی تھی۔ میں مولوی صاحب کے خوف سے پڑا ہوا سوچ رہا تھا کہ فجر کی نماز سے پہلے پہلے مجھے دور نکل جانا چاہیے۔

سڑک کے ساتھ ساتھ نہیں، سڑک سے دور ملتان اور لاہور کی طرف نہیں، بلکہ کراچی کی طرف۔ یہ میرا آخری موقعہ ہے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دور سے ایک گاڑی کی روشنی دکھائی دی۔ میں تذبذب میں تھا کہ اسے ہاتھ دکھا کر روکوں کہ نہ روکوں، مگر گاڑی کی رفتار خود ہی آہستہ ہو گئی۔ یہ ایک ٹرک تھا۔ میں جن جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا اس سے ذرا سا آگے یہ ٹرک آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ دروازہ کھلا تھا اور مجھے آواز آئی تھی، کسی نے کہا تھا جلدی کرنا۔ صرف چھوٹا کرنا بڑے کا ٹائم نہیں ہے۔ دوسرے نے ہنستے ہوئے کہا تھا چھوٹا ہی کروں گا، گھبرائیں نہ بہت ٹائم ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3