ہوٹل میں آگ لگ گئی


\"asif-aslam\"میرے شہر کے لوگوں نے اب حادثوں پر چونکنا شاید چھوڑ دیا ہے۔ یا پھر پہلی مرتبہ سُننے میں یہ خبر بھی معلوم نہیں ہوئی۔ جیسے کچھ لپیٹ کر بتایا جارہا ہو__ شہر کے ایک نجی ہوٹل میں آگ بھڑک اٹھی__ نجی ہوٹل میں، بار بار یہی الفاظ دہرائے جاتے رہے۔ یہاں تک کہ معنی سے عاری معلوم ہونے لگے۔ ہوٹل نجی نہیں ہوگا تو اور کیا سرکاری ہوگا؟ سرکار کیا ہوٹل چلا سکتی ہے؟ پھر نیٹ پر کسی نے خبر کی تفصیل درج کی تو ہوٹل کا نام سامنے آیا۔ اچھا، تو یہ فلاں ہوٹل کی خبر ہے۔

مگر میں نام سُن کر بھی نہیں سمجھا۔ شاید جہاں میں بیٹھا ہوا تھا اور جن لوگوں کے ساتھ، اس وجہ سے میں نے پوچھ ہی لیا، یہ ہوٹل کہاں ہے۔ حالاں کہ اس کا نام بہت مانوس معلوم ہو رہا تھا۔ پھر کسی نے جگہ بتائی۔ دو بڑی سڑکوں کے نام آئے اور دونوں سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹ گئیں تو میں ذرا حیران رہ گیا۔ اس کا نام پتہ کیوں نہیں چل رہا؟

ارے وہی ہے کرائون پلازا۔ پہلے اس کا یہ نام تھا۔ اس سے پہلے یہ تاج محل تھا۔ کسی نے مجھے بتایا۔

میرے والد اب تک اس کو تاج محل کہتے ہیں، حالاں کہ نام کئی بار بدل گیا، ایک اور صاحب کہہ رہے تھے۔

اوہ نہ میں سمجھ گیا۔ یہ تو وہی ہوٹل ہے۔ نام بدل گیا، مگر ہوٹل وہی رہا۔ اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی کہ زیادہ یاد رکھا جائے، سوائے اس جگہ کے جہاں یہ واقع تھا۔

اس پرانے نام سے مجھے بھی یاد آگیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ہوٹل اس خالی میدان میں خاک دھول سے اٹھ کھڑا ہوا  \"karachi-regent-plaza-hotel-fire-accident-photos-4\"  تھا۔ یاد آیا کہ اس کا افتتاح ہوا تھا تو میں بھی وہاں موجود تھا۔ انگریزی اخباروں کے لیے تھوڑا بہت لکھا کرتا تھا اور ’’ہیرلڈ‘‘ میں رضیہ بھٹّی نے یہ ذمہ داری لگائی تھی کہ شہر میں بہت سی تقریبات کے دعوت نامے ان کے پاس آتے ہیں، ان میں سے چند ایک تقریبات چُن لوں۔ اور یہ آزادی عطا کی تھی کہ ان تقریبات کے بارے میں لکھوں۔ رسالے کے آخری صفحات ’’کراچی سین‘‘ کے نام سے مُختص تھے اور رضیہ بھٹّی اور ان کی ٹیم نے مجھے یہ سکھایا کہ تقریبات کے حوالے سے کس طرح لکھوں کہ رپورٹ نہ معلوم ہو بلکہ اس میں ذرا سا twist ہو! ان تحریروں میں سہولت یہ تھی کہ کسی کا نام نہیں چھپتا تھا اور تھوڑے بہت پیسے بھی مل جاتے۔ تو رضیہ بھٹّی کے نام آئے ہوئے کارڈ سے لیس ہو کر میں تاج محل ہوٹل جا پہنچا۔ پُرتکلف اہتمام تھا، بہت سے مہمانوں کے لیے چائے اور گہما گہمی۔ تقریب کی کوئی خاص بات یاد نہیں رہ گئی۔ ہوٹل کی چھت یاد ہے جس پر شیشے جڑے ہوئے تھے جن میں فرش جھلک رہا تھا اور فرش پر چلنے والے لوگ۔ گویا ہم اُلٹے ہو کر چھت پر چل رہے ہیں۔ آدمی کی طرح نہیں بلکہ مکّھی کی طرح۔

خیر سے افتتاح ہوگیا۔ ہوٹل چل پڑا۔ گاہے گاہے وہاں جانا ہوتا تھا۔ میں ایک بین الاقوامی ادارے میں کام کرنے لگا تو سرکاری اداروں سے اور دوسرے شہروں سے آنے والے لوگوں کی رہائش کا اس ہوٹل میں بندوبست کیا جاتا تھا۔ ایسے اداروں کو اور تربیتی پروگراموں کو ہوٹل سے رعایت مل جایا کرتی۔ صحت، تعلیم اور ترقّی کے حوالے سے کتنے ہی پروگرام اس ہوٹل میں منعقد کیے گئے۔ اب مجھے لگ رہا ہے سب جل گئے۔\"fire\"

پھر امتحان۔ برٹش کائونسل اور انگریزی زبان میں قابلیت کے امتحان جن سے باہر جانے میں سہولت ہو جاتی ہے۔ مجھے وہ منظر بھی یاد آنے لگے۔ ہوٹل کے برابر خالی، گرد آلود میدان میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے اس عمارت کی طرف جانا، آسمان پر چیلوں، کوّوں کو اڑتے ہوئے دیکھنا اور اپنا دل یوں ہی ڈوبتے ہوئے محسوس کرنا۔ یہ ساری باتیں یاد آنے لگیں۔ تو کیا یہ سب جل کر راکھ ہو گیا؟

ان یادوں کے مٹ جانے کا مجھے کوئی خاص افسوس نہیں۔ ان میں سوائے خاک کے کچھ دھرا نہیں۔ مجھے افسوس آگ لگنے کا ہے۔ کتنے ہی لوگ جل کر ہلاک ہو گئے، خبروں سے پوری تفصیل معلوم نہیں ہوسکی۔ اگلے دن اخبار میں پڑھا تو افسوس میں غم و غصہ شامل ہو گیا۔ بڑی خوف ناک تفصیلات ہیں__ کمروں میں دھواں بھر گیا، ہوٹل کے مہمان اور عملے کے افراد جان نہ بچا سکے، کسی نے اوپر کی منزل سے چھلانگ لگائی، کسی نے بیوی بچوں کو کھڑکی سے باہر دھکیلا، لفٹ بند ہوگئی، تباہی ہر طرف تباہی__ ہالی وڈ کی کسی فلم کے منظر یاد آنے لگے جس میں بلند بالا عمارت آگ لگنے کے بعد بھڑکتی ہوا جہنّم بن جاتی ہے، نہ جانے کتنے افراد پھنسے ہوئے ہیں اور کتنے ہی جل کر راکھ ہوگئے۔

جو مر گئے اور جو زخمی ہو کر زندہ بچ گئے__ ہر آدمی کی ایک کہانی معلوم ہوتی ہے جس کی تفصیلات بھی پوری طرح اخبار میں نہیں آسکی ہیں۔ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے چند ڈاکٹر جن کا تعلق سندھ اور بلوچستان کے مختلف اضلاع سے تھا اور جو حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کے کسی تربیتی منصوبے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ کرکٹ ٹیم \"img\"کے افراد۔ ایک فضائی کمپنی کے عملے کے چند افرد۔ ایک صاحب جو بیرون ملک سے علاج کروا کے واپس آئے تھے اور اگلی صبح اپنے شہر کے لیے روانہ ہونا تھا۔ فرنٹ ڈیسک پر کام کرنے والا نوجوان۔ قالینوں کی دکان کا سیلز مین، صفائی کا عملہ، کوئی جھلس گیا، کوئی زخموں کی تاب نہ لا سکا۔

ایک اخبار میں چند غیرملکی افراد کی تصویرہے۔ اپنے سوٹ کیس لیے عمارت کے سامنے سڑک پر بے چارگی کے عالم میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ کسی کی دہشت گردی کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کو آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

آج وہاں جا کر دیکھنا چاہوں تو فرش سے لے کر سوئمنگ پول تک ٹوٹے ہوئے شیشے اور قالین بھیگ کر بوجھل ہوگئے ہیں۔ دیواروں پر جلنے کے سیاہ نشان ہیں۔ دھوئیں نے اپنا راستہ بنا لیا ہے۔ ایک عجیب سا سناٹا ہے، یا پھر لوگ گھوم رہے ہیں جن کے چہروں پر سوالیہ نشان ہیں۔ وہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں، یہاں کیوں آئے ہو؟ آج مجھے ریحانہ حکیم کے سامنے کوئی رپورٹ پیش نہیں کرنا۔ اس لیے میں دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہ دیکھ کر وہاں سے چلے جانے میں عافیت سمجھتا ہوں۔

آگ کیسے لگی؟ یہ شاید کبھی پوری طرح معلوم نہیں ہوسکے گا۔ کوئی کمیٹی بنا دی جائے گی۔ کچھ لوگ تفتیش پر مامور کر دیے جائیں گے۔ پھر بہت دن گزر جائیں گے۔ آگ کی بات ٹھنڈی پڑ جائے گی۔ لوگ بھول جائیں گے۔ پھر کوئی اور حادثہ ہو جائے گا۔

میں نے تو اب ایسی خبروں پر چونکنا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن اس شہر میں کوئی نہ کوئی تو ہو گا جسے خیال آئے گا کہ ایسے \"hotel3\"حادثے متواتر ہونے لگے ہیں۔ کہیں آگ لگ گئی، لوگ جل کر مر گئے۔ پھر اس کے بعد کچھ نہیں ہوتا۔ آگ بجھانے والے محکمے کو بہتر بنانے کی بات ہوتی ہے اور نہ ایسے قاعدے قانون کی جس کے تحت عمارتوں میں آگ سے محفوظ رہنے کے طریقے اپنائے جا سکیں۔ آگ لگنے کی صورت میں کوئی متبادل راستہ بھی ہو۔ یہ سب کتنی معمولی باتیں ہیں۔ لیکن ان کے نہ ہونے سے برابر لوگ مارے جاتے رہے ہیں اور لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

متبادل راستہ، شاید ہم کسی قسم کا متبادل راستہ نہیں بنانا چاہتے۔ ایک ہی راستہ ہو اور اس میں ہلاکت کا یقینی امکان۔

راستہ بند اور سامنے آگ۔ یہ شہر کی آگ ہے، عشق کی نہیں جو لگائے نہ لگے اور بُجھائے نہ بنے۔

مگر یہ شہر سوختہ جاں کیوں بن گیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments