آگ میں جلتے پیارے اور سفاک میڈیا


\"ramish-fatima\"

ایسا لگتا ہے جیسے بچپن مر گیا، ہم اصل میں وہ لوگ ہیں جنہیں ایک ہی ملّی نغمہ آتا تھا، اصل میں اس سے بھی زیادہ کی بات ہے، یوں لگتا تھا قومی ترانہ تو یاد نہیں ہے مگر یونہی ٹوٹے پھوٹے توتلے الفاظ میں گاتے ہی رہے، ایچھی جمیں سے ایسی زمیں ہو گیا مگر نغمہ آج بھی یاد رہا آج بھی گاتے ہیں۔ پھر کسی نے کہا اسی کا نام کیوں لے رہے ہو ہر مرنے والا انسان تھا، سچ کہا، ہر مرنے والا انسان تھا اور جنید کا ذکر زیادہ ہوا، اس کی وجہ ہے، جنید میرے آپ کے ہم سب کے بیچ قدرِ مشترک تھا، ہم ایک ایسی ڈور میں بندھے تھے جہاں شام پھر نہیں آتی، جہاں آنکھوں کو آنکھیں سپنا دکھاتی ہیں، جہاں محبوبہ سانولی سلونی بھی ہو سکتی ہے اور گورے رنگ کا زمانہ بھی پرانا نہیں ہوتا، جہاں اعتبار بھی آ ہی جاتا ہے، اور جہاں چین بھی نہیں آتا۔ اچھا ٹھیک ہے میں مانتی ہوں اس نے سب گانے لکھے نہیں صرف گائے ہی تھے مگر کیا کروں کہ سنائے تو اسی نے تھے۔

باقی سب لوگوں کو میں نہیں جانتی، مگر میں یہ جانتی ہوں ہر انسان کے گھر والے، دوست احباب سب بیٹھے ہوں گے، میری طرح کتنے لوگ آج روئے ہوں گے، اپنے دوست کا نام پڑھ کر کتنے لوگوں کے ہاتھ سے موبائل گرا ہو گا، اس حادثے میں مجھ سمیت بہت لوگوں نے اپنے دوست کھو دیے، اور دوستوں کے جانے کا یہ انداز بھی نرالا ٹھہرا ہے کہ دوست چلا جائے تو قبر دل میں بنتی ہے۔ اس کے لئے آپ کو کبھی قبرستان نہیں جانا پڑتا، کوئی زمینی فاصلہ حائل نہیں ہوتا اور کسی کاغذی رشتے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ہاں بس ایک ملال رہ جاتا ہے، جو باتیں ادھوری رہ گئیں، جو وعدے پورے نہ ہو سکے، جو رابطے وقت نے دھندلا دیے ایسا نہ ہوتا۔ کاش ایک بار اور مل لیتے، ایک نظر بھر کے دیکھ لیتے، کاش ایک بار آوازان سکتے، کاش وہ باتیں جو کہنی تھیں وہ کہہ دی ہوتیں۔ کوشش رہے گی مزید ایسا کوئی کاش زندگی میں نہ رہے کیونکہ انسان چلے جاتیں ہیں، یادیں چھوڑ جاتے ہیں، یادیں ہی رہیں تو اچھا ہے ملال نہ رہے۔

خبر اذیت ناک ہے اور اس سے زیادہ اذیت تب ہوئی جب چینل والے جائے حادثہ کی فوٹیج کی خاطر وٹس ایپ نمبر چلانے لگے، پھر احساس ہوا یہی کچھ تو باقی رہ گیا ہے۔ کہیں حادثہ ہو تو پہلے تصویر بناؤ، موبائل کیمرہ آن کر لو، کیا ہاتھ میں پکڑا یہ کھلونا اس لیے ہے کوئی مر رہا ہو کوئی کسی کو مار رہا ہو تو آپ ویڈیو بنائیں؟ سیالکوٹ میں دو بھائیوں پہ تشدد اور مارنے تک سے لے کر ججے بدمعاش تک کئی ویڈیو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اخلاقی طور پہ مر چکے ہیں اور وقتاً فوقتاً یہ سب کر کے اخلاقیات کا باقاعدہ و اعلانیہ جنازہ پڑھ لیتے ہیں۔ اور تُف ہے اس میڈیا پر، باخدا یوں لگ رہا تھا جیسے بےحسی کی دوڑ میں آگے نکلنا ہو، ارے یار حادثہ ہوا ہے سانحہ ہوا ہے کیا پوچھو گے کسی ماں سے، کسی بیٹی سے، کسی دوست سے کہ کیا جذبات ہیں۔ اخلاقیات کی بھی کیا کہیں کہ ہم نے اس سال عبدالستار ایدھی، امجد صابری اور جنید جمشید کو جاتے دیکھا، ہم نے شہادت کی فضیلت سے لے کر کفر توہین گستاخی کے فتوے دیکھے، بحث ہو گئی کون کافر ہیں کون نہیں۔ مان لیا صاحب انسان نہیں عقیدہ اہم ہے، اس کی عینک لگائیں اور پرکھ لیں ساری دنیا، بس اپنے اپنے تابوت اور کفن کا بندوبست کرتے جائیں کہ یہ آگ پھیل بھی سکتی ہے اور پھر لپیٹ میں آپ بھی آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments