بیٹی کی موت پر دو نفل شکرانہ


\"leena-hashir\"میں کئی ماہ سے اماں کے ساتھ مسز قادر کے گھر جا رہی تھی۔ اماں اپنی محنت، ایمانداری اور کم گوئی کی وجہ سے ان کی چہیتی ملازمہ تھیں۔ وہ اماں سے بہت پیار کرتی تھیں اور اماں ابا پر جان دیتی تھی۔ ابا کا چند ماہ پہلے ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ ابا مرتے مرتے بچ تو گیا مگر چار ماہ مکمل طور پر بستر سے لگ کر رہ گیا۔ اماں نے اپنی جمع پونجی ابا کے علاج پر لگا دی۔ مسز قادر جو کچھ بھی ہمیں کھانے کو دیتی وہ لا کر اماں ابا کے آگے رکھ دیتی تاکہ ابا کی کمزوری جلد از جلد دور ہو جائے۔ ابا کے لیے ہمیشہ اماں تازی روٹی پکاتی، ابا کے نخرے ایک لاڈلے بچے کی طرح اٹھاتی۔ چار ماہ کی خدمت گزاری کے بعد ابا پہلے سے زیادہ تندرست ہو گیا تھا کیونکہ پھر اس نے اماں کو پہلے سے زیادہ مارنا شروع کر دیا تھا۔

سارا دن اماں ماری ماری کام کرتی اور شام تک ابا چارپائی توڑتا اور پھر گھر داخل ہوتے ہی اماں ابا کی خدمت میں لگ جاتی۔ کھانا دینے کے بعد ابا کے پیروں اور سر کی مالش کرتے کرتے اماں تھکن سے چور ہو جاتی پر زبان سے ایک لفظ نہ نکالتی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر کسی بھی بات پر انکار کیا تو پھر سے اس کی کھال ادھیڑی جائے گی۔ اکثر راتوں کو ابا گھر سے باہر ہی رہتا، رات گئے واپسی ہوتی تو اس کے گلے میں موتیے کے ہار ہوتے اور ہاتھوں میں شراب کی بوتل۔ نشے میں دھت گھر آ کر اودھم مچاتا۔ کبھی دائیں گرتا تو کبھی بائیں، بڑی مشکل سے اماں اس کو چارپائی تک لے جاتی۔ اس کے جوتے اتارتی اور پھر ابا کو صاف ستھری چادر اڑھا دیتی اور خود اماں برسوں پرانی زخموں سے بھری دکھوں کی چادر اوڑھ کر سونے کی کوشش کرتی۔

اس روز بھی گالی گلوچ کے بعد ابا نے اماں کی خوب پٹائی کی۔ اماں کا قصور اتنا تھا کہ اماں نے ابا سے کام کرنے کی التجا کی تھی۔ ابا کو یہ بات بہت ہی ناگوار گزرتی تھی۔ بس پھر اماں تھی اور ابا کی لاتیں، مکے اور لکڑی کا ڈنڈا۔ اماں ہمیشہ ابا کی مار بہت ہمت سے کھاتی، چیخ وپکار سے گریز کرتی۔ ڈرتی تھی کہ گھر سے آواز باہر گئی تو ابا کی بدنامی ہو گی۔ اماں پہلی بار اس دن چیخی جب ابا نے اماں کے پیٹ پر لکڑی کا ڈنڈا برسایا کیونکہ میں اماں کے پیٹ میں تھی۔

مجھے بچانے کے لیے اماں چیخ چیخ کر آہ وزاری کرتی رہی، واسطے دیتی رہی کہ پیٹ پر مت مار، مت مار میرا بچہ مر جائے گا۔ شراب کی بوتل اماں کے سر پر توڑنے کے بعد بھی جب ابا کو تسلی نہ ہوئی تو مٹی کا تیل اماں پر ڈال دیا مگر بوتل کی نوک ابا کے ہاتھ مین کھب گئی تھی اور ہاتھ زخمی ہو گیا تھا اس لیے صحیح طرح ماچس نہ جلا پایا۔ اس دوران محلے والے آگئے اور بیچ بچاؤ ہو گیا۔

 وہ قیامت کی رات میرے اور اماں پر بہت بھاری تھی پر ادھر تکلیف دہ رات گزری، ادھر اماں پھر کام کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔

اماں کے دن کا آغاز صبح سویرے ہوتا سب کو ناشتہ دے کر میں اور اماں مسز قادر کے گھر کا رخ کرتے۔ اماں کی یہ عادت تھی کہ مسز قادر کے گھر میں داخل ہوتے ہی سلام کرتی اور ساتھ ہی پوچھتی کہ صاحب گھر پر ہیں اگر ان کا جواب نہیں ہوتا تو اماں چادر اتار کر اپنا کام شروع کر دیتی اور اگر جواب ہاں میں ہوتا تو اسی چادر کو اچھی طرح اپنے گرد لپیٹ لیتی اور کام کا آغاز کیا جاتا۔ مگر اس دن اماں یہ سوال داغے بغیر ہی کام میں لگ گئی۔ مسز قادر چند لمحوں کے لیے حیران بھی ہوئی کہ آخر آج صاحب کے بارے میں کیوں نہیں پوچھا گیا۔

اماں اپنے چہرہ پر نیلے کالے دھبے کو اپنی چادر سے چھپانا چاہتی تھی جو اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اس کو پھر ابا نے خدمت گزاری کا صلہ سود سمیت ادا کیا تھا۔ اماں ہمیشہ سے ہی اپنے دکھوں کو اپنے تک رکھنے کی عادی تھیں۔ اماں کی زبان پر شکوے شکایتیں کی جگہ ویسے بھی خاموشی راج کرتی تھی، غریبی مفلسی ہمارے گھر میں ڈیرے ڈالے بیٹھی تھی پر اماں کچھ بھی مانگنے سے گریز کرتی تھی۔ دکھوں کے پیوند اس کی زندگی میں نمایاں تھے۔ ضروریات زندگی کی کمی اس کی جوانی کو بوڑھا کر چکی تھی۔ وہ ہر پریشانی کو قسمت کا لکھا مان کر سر جھکانے کی عادی ہو چکی تھی۔ اس روز بھی اس چادر کے نیچے اپنے دکھوں کی داستان کو سمیٹنے کی ہمت کر رہی تھی کہ اچانک جب چادر اماں کے سر سے ڈھلکی تو اماں کا زرد چہرہ اور اس پر نیلے کالے دھبے اس کے دکھوں کو بیان کرنے کو کافی تھے۔

اس سے پیشتر مسز قادر اماں سے سوال کرتی اماں بول اٹھی \” باجی رات سیڑھیوں سے گر گی تھی سر اور چہرے پر چوٹ آئی ہے\”

اماں کی اس وضاحت کے بعد انہوں نے بس اتنا پوچھا اور تمہارا بچہ؟ اماں نے کہا کہ باجی رات بھر سے کسی قسم کی حرکت نہیں محسوس ہوئی۔ اس پر اماں کے آنسو اس کی آنکھوں کے نیچے برسوں گہرے حلقوں کی گہرائی کو پار کرتے ہوئے چادر میں جذب ہوگے۔ مسز قادر نے اماں کو ساتھ لیا اور ہسپتال کا رخ کیا۔ اماں اس حقیقت سے بے خبر تھی جو مجھ پر گزر چکی تھی اس کو ابھی تک اندازہ نہ تھا کہ میں اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی دنیا چھوڑ چکی ہوں۔

مسز قادر نے جب اماں کو میری موت کی خبر دینے کے لیے قدم بڑھایا اس وقت ان کو ایسا لگا کہ اماں اپنی خاموشی توڑے گی اپنے دکھوں کی پٹاری کھول کر رکھ دے گی۔ لیکن انہیں کریدنے کی عادت نہ تھی اور اماں کو دکھ بتانے کی عادت نہ تھی۔ لیکن اس دن اماں کچھ کہنا چاہتی تھی اور مسز قادر سچ سننا چاہتی تھیں۔ بڑی مشکل سے اماں نے اپنے زخمی لب کھولے اور کہنے لگی کہ میرے بچوں کا ابا کل رات لکڑی کے ڈنڈے سے کام کر رہا تھا اس ڈنڈے میں کیل تھا وہ اس کے ہاتھ میں لگ گیا ہے اس کے ہاتھ کے لیے مرہم پٹی لے دیجئے اور پیسے میری تنخواہ سے کاٹ لیجیے گا۔ مرہم پٹی لے دینے کے بعد اماں کو اس زخم کی اطلاع دی گئی جس زخم کی کوئی مرہم پٹی نہیں کر سکتا تھا۔ پھر کچھ ہی دیر کے بعد اماں کے پیٹ سے مجھے نکال کر اماں کے حوالے کر دیا گیا۔ کئی ماہ کی تکلیف کے بعد میری ماں میرا لاشہ لیے ہسپتال میں پڑی تھی۔ چند گھنٹوں کے جب اماں کو مسز قادر نے گھر پر اتارا تو اس کے ایک ہاتھ میرا مردہ جسم تھا اور دوسرے ہاتھ میں میرے قاتل کے لیے مرہم پٹی۔ نہ تو میرے قتل پر واویلا مچا، نہ ہی کورٹ کچہری کے چکر لگے۔ مجرم کو سنگین جرم کی سزا دینے کے بجائے اس کو بن مانگے معافی دے دی گی۔

اماں نے مجھے چوما اور میری موت پر شکرانے کے دو نفل مانگے۔ اپنے رب کا شکر کیا کہ میں اس دنیا میں نہیں آئی ورنہ ایک دن میں بھی نشے میں دھت انسان کی مار کھا رہی ہوتی اور روح اور جسم کو زخمی کرنے والے کو مرہم پٹی کر رہی ہوتی۔

(قارئین سے درخواست ہے کہ اس حقیقت کو فسانہ نہ سمجھیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments