طیارہ حادثہ، اصل وجہ یہ ہے؟


\"haiderسوال کرنا میرا حق ہے اور ہر شخص کی سوچ کا انداز مختلف ہے۔کوئی کسی خبر یا کسی نام پر کئی گھنٹے تحقیق کرتا ہے اور کوئی اُسی لفظ یا نام کو بالکل نظر انداز بھی کر سکتا ہے اور اِس پر کسی کا اجارہ نہیں۔خیر خبر کی طرف چلتے ہیں، کل کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ ایک طیارہ چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے غائب ہو گیا۔پہلے میں سمجھا شاید واحد بلوچ، حیدر گیلانی، شہباز تاثیر کی طرح دوبارہ اپنے ٹریک پر لوٹ آئے گا۔ لیکن چند منٹ کے بعد بلوچستان کے ایک سیاسی شخصیت کا وٹس ایپ میسج آیا جس میں روایتی بیان جاری کیا گیا تھا۔ اتنی دیر میں خبریں آچکی تھیں کہ کیا کچھ ہو چکا ہے۔ اس سانحے کے بعد پی آئی اے کے چیئرمین اعظم سہگل نے کہا پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے چترال سے اسلام آباد آنے کے دوران حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہونے والے مسافر طیارے کے حادثے میں انسانی غلطی کا امکان نہیں اور یہ بات انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی اور مزید کہا گیا کہ حادثے کے وقت طیارے سے اطلاع ملی تھی کہ ایک انجن فیل ہوگیا، مگر امید تھی کہ ایک انجن کے ساتھ جہاز بحفاظت اترنے میں کامیاب ہوجائے گا اوراب تحقیقات کی جائیں گی کہ ایک انجن کے فیل ہونے پر حادثہ کیسے ہوا۔ یہ طیارہ جو اے ٹی آر 42 ماڈل 500 ہے 22.67 میٹر لمبا اور اس طیارے میں 48 سیٹیں اور دو انجن ہیں جن میں سے ایک بند ہو جائے یا خرابی پیدا ہو جائے تو دوسرا چلایا جا سکتا ہے۔ اس پر میں ایک نئی بحث کا آغاز کرنا چاہتا ہوں تاکہ کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلے اور مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔ اس میں سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوا کہ جہاز میں کس قسم کی فنی خرابی تھی؟ اور اگر فنی خرابی تھی تو کیوں استعمال کیا گیا اور کس کے کہنے پرڈنگ ٹپاﺅ کا نظریہ یہاں لاگو کیا گیا۔ اب چونکہ چیئرمین اعظم سہگل صاحب نے کہہ دیا ہے کہ انسانی غلطی کا امکان نہیں تو جو کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے میں اس کی رپورٹ آنے تک اس پر کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن چند ایسے نکات اٹھانا چاہتا ہوں جو پی آئی اے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں اس کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ ادارے کے ملازمیں کا رویہ اور کارکردگی اس ادارے کی ساکھ اور وقار کی علامت ہے اور ادارے کا حقیقی چہرہ یہی لوگ ہوتے ہیں۔ ابھی میرے سامنے ایک کتابچہ رکھا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دوران پرواز مسافر کو کیا کرنا چاہیے اور کس کام سے منع کیا گیا ہے، کتابچے میں درج ہے کہ طیارے میں ذاتی اشیا لانا اور استعمال کرنا منع ہے اور اس میں مزید یہ بھی لکھا ہے کہ دوران پرواز موبائل فون بند رکھیں۔ میں نے اس طیارے کے حوالے سے موبائل فون استعمال پر تھوڑا مواد جمع کرنے کی کوشش کی کہ کیا جہاز میں موبائل فون استعمال کیا جاتا رہا یا نہیں تو مجھے مختلف جگہوں سے حاصل ہونے والی معلومات سے پتہ چلا کہ ہاں موبائل فون بھی استعمال ہوتا رہا۔ کسی کے اگر ذہن میں سوال پیدا ہو کہ اس کا نقصان کیا ہے تو اس کا جواب فیڈرل کمیونیکیش کمیشن اور فیڈرل ایوی ایشن ایسوسی ایشن کے قواعد و ضوابط سے ملتا ہے۔ جس میں ان کا کہنا ہے کہ جب طیارہ 10000 فٹ کی بلندی کے قریب پرواز کرتا ہے تو موبائل فون استعمال کرنے سے سمت شناسی میں خلل پیدا ہوتا ہے جو کسی بھی بڑے سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔ بے شمار ممالک نے اس کے لئے جدید طریقے متعارف کروائے ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا جیسے ممالک ہیں جہاں ایسی سروسز موجود ہیں جہاں موبائل یا کوئی بھی سنگل کیچ کرنے والا آلہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ترقی کا ایک سفر ہے لیکن پاکستان میں ابھی ایساکچھ نہیں اس لئے یہ پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔

اس حادثے اور موبائل کے استعمال کی بات کریں تو ہمیں مسافر طیارے سے آخری وقت تک کی ویڈیوز ملی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موبائل کا استعمال ہوا، یہ تو مسافر تھے اس کے ساتھ اس سواری کو لگام دینے والے کیا کر رہے تھے یہ اہم سوال ہے کیونکہ اصل معاملہ وہیں سے جڑا ہے۔ ایک تو بلندی اچھی خاصی اور ساتھ موبائل کا استعمال اور تیسرا کیا پائلٹ کی غفلت اس سانحے کا سبب بنی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments