ڈاکٹر عبدالسلام پر انصار عباسی کی ہرزہ سرائی کا جواب


DECEMBER 08, 2016

آج جنگ کے کالم میں میں انصار عباسی نے اپنی روایتی تنگ نظری کا مظاہرہ کرنے کے لئے پروفیسر عبدالسلام کے بارے میں کئی جھوٹی باتوں کا سہارا لیا۔ میں اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ آپ سب اس کی تشہیر میں حصہ لیں تو ان کا جھوٹ بے اثر ہو سکے گا۔

انصار عباسی کی تحریر میں متعدد جھوٹ شامل ہیں، جن کی تردید ضروری ہے۔

1۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان سے منسوب واقعہ صریحاً جھوٹ ہے۔ سنہ 1997 میں اسلام آباد کلب کی ایک ضیافت میں جس میں صاحبزادہ یعقوب علی خان سمیت کئی نامور دانشور موجود تھے، صاحبزادہ سے امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اس واقعے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اسے مکمل جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ ایسا کوئی واقعہ کبھی ہوا ہی نہیں۔ اس ضیافت میں جو اس زمانے کے مشہور کالم نویس آئی حسن کی اسی ویں سالگرہ کے موقعے پر تھی موجود افراد میں اردشیر کاؤس جی، ڈاکٹر اقبال احمد، ڈاکٹر مبشر حسن، ڈاکٹر عنایت اللہ، ڈاکٹر ایس ایم نسیم وغیرہ شامل تھے۔ میں خود بھی وہاں موجود تھا، اور صاحبزادہ یعقوب علی خان کی تردید خود اپنے کانوں سے سنی۔

2۔ یہ بات بھی حقائق کے بالکل بر عکس ہے کہ پروفیسر عبد السلام نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ سلام صاحب نے پاکستانی ایٹم بم کی ابتدائی کوششوں میں خود اہم حصہ لیا۔ میرا تعلق فزکس سے ہے، اور میرے فزکس کے متعدد دوستوں نے اس کام میں براہ راست حصہ لیا تھا، ان کی گواہی پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پروفیسر سلام نے اپنے شاگرد پروفیسر ریاض الدین کو سنہ 1972 میں اس کام پر لگایا کہ وہ ایٹم بم کی امپلوژن کی ریاضی پر دسترس حاصل کریں تاکہ بم کا ڈیزائن تیار ہو سکے۔ اس کام کے لئے ڈاکٹر ریاض الدین نے اپنے پی ایچ ڈی کے شاگرد مسعود احمد اور اپنے ایک اور دوست ریاضی دان پروفیسر منیر احمد رشید کو شامل کیا۔ سلام صاحب نے ان تینوں کو اٹلی کے شہر ترئستے میں قائم اپنے انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزکس میں جگہ فراہم کی، جہاں وہ سلام صاحب کی نگرانی میں کام کرتے رہے۔ یہی کام بعد میں پاکستانی ایٹم بموں کے ڈیزائن کی بنیاد بنا۔ ڈاکٹر مسعود احمد اس کام کو اپنی ٹیم کے ساتھ کرتے رہے۔ سنہ 1998 کے چھ کے چھ ایٹمی دھماکے ان کے ڈیزائن کردہ تھے۔ ڈاکٹر مسعود احمد حیات ہیں، اور ان سے ان تمام حقائق کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبار ک مند بھی اس کی تصدیق کریں گے۔

3۔ یہ بھی قطعاً غلط بیانی ہے کہ سنہ 1974 کے بعد سلام صاحب اپنے نوبل انعام تک پاکستان نہیں آئے۔ پروفیسر عبدالسلام کو پاکستان سے شدید محبت تھی، اور پاکستان میں فزکس سے تعلق رکھنے والے افرد کی انہوں نے جس طرح سرپرستی کی، اس کی گواہی اس شعبے سے متعلق افراد دیں گے۔ سنہ 1976 میں پروفیسر عبدالسلام نے اپنے شاگرد پروفیسر ریاض الدین کے ہمراہ نتھیاگلی سمر کالج کی بنیاد رکھی، جو پاکستان کے علاوہ اطراف کے ممالک کے ہزاروں سائنسدانوں کو فیض یاب کر چکا ہے اور اب تک کر رہا ہے۔ اس کالج کے ابتدائی سالوں میں سلام صاحب اپنی حد درجہ مصروفیات کے باوجود خود ہر سال آتے تھے اور اپنی ذاتی کوششوں سے دنیا کے اعلیٰ ترین سائنسدانوں کو اس میں لیکچر دینے پر آمادہ کرتے تھے۔ پاکستان تو کیا، شاید ہندوستان میں بھی کوئی ایسا ادارہ نہ ہوگا جہاں اتنی بڑی تعداد میں نوبل انعام یافتہ سائنسدان آئے ہوں۔ چنانچہ یہ بات بھی صریحاً گمراہ کن اور بد نیتی پر مشتمل ہے کہ پروفیسر عبدالسلام پاکستان سے ناراض ہو کر سنہ 1974 سے لے کر 1979 تک ملک واپس نہیں آئے۔

4۔ یہ بیان کہ سنہ 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد پروفیسر عبدالسلام احتجاجاً پاکستان چھوڑ کر انگلستان منتقل ہو گئے بھی گمراہ کن ہے، اس لئے کہ سلام صاحب تو پاکستان سے اپنی سکونت انگلستان سنہ پچاس کی دہائی کے اوائل ہی میں منتقل کر چکے تھے۔ یہان یہ بات قابل ذکر ہے کہ سنہ 1974 کے بعد بھی پروفیسر عبدالسلام نے کبھی اپنی پاکستانی شہریت ترک نہیں کی، اور پاکستان میں سائنس کے فروغ کے لئے کام کرتے رہے۔

چنانچہ صاحب تحریر اگر نفرت انگیز خیالات پھیلانے سے گریز کریں اور مثبت سوچ کو فروغ دیں تو ان کا قوم پر بڑا احسان ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
19 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments