ڈاکٹر عبدالسلام کو کسی نوازش کی ضرورت نہیں


\"dr-abdus-salam-e1343824487256\"انصار عباسی صاحب نے اپنی پیشہ وارانہ مہارت کے مطابق ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارے میں جو جھوٹ کا پلندہ تیار تحریر کیا اس پر جناب عبدالحمید نیر صاحب نے ان کو سچائی پر مبنی جواب دے کراسی طرح ٹانگے کی سیر کروا دی ہے جس طرح یاسر پیرزادہ صاحب نے ایک اور \’تاریخ دان\’ صحافی کو قائد اعظم کی 11اگست 1947والی تقریر کے حوالے سے کروائی تھی۔ عباسی صاحب کو بھی یہ جواب ان کے گھر پہنچانے کےلئے کافی ہے۔ مگر عباسی صاحب کےلئے چلو بھر پانی تو کیا، پورا حمام بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگرچہ کسی صحافی کی کسی تحریر پر اس کی ذات پر حملہ کرنا کچھ مناسب تو نہیں مگر اگر صحافی کسی فوت شدہ شخصیت اور شخصیت بھی ایسی جس پر دنیا فخر کرتی ہو، کی ذات پر کیچڑ اچھالے اور بے بنیاد اور جھوٹےالزامات لگا کر چاند پر تھوکنے کی کوشش کرے تو وہ اس قابل ہے کہ اسے کچھ آئینہ دکھایا جائے۔ خیر جناب نیر صاحب نے تاریخ کا ریکارڈ درست کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کیا اور کچھ اس رنگ میں ادا کیا کہ اب مزید جھوٹ کے پول کھولنےکی مطلق ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اس عاجز کو ایک اور حوالے سے کچھ عرض کرنا مقصود ہے۔

عباسی صاحب نے اپنے مضمون کا جو عنوان باندھا ہے اس میں یہ کہا ہے کہ گویا ڈاکٹر عبدالسلام پر کوئی نوازش کی گئی ہے۔ جناب آپ کی اطلاع کے لئے ایک تو یہ عرض ہےکہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب 1996 میں اس دار فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ اس لئے اب کوئی چاہے بھی تو ان پر کوئی نوازش نہیں کرسکتا۔ ہاں جب وہ زندہ تھے اس وقت بھی ہمارے ملک نے ان پر کونسی نوازشات نچھاور کی تھیں؟ اور یہ آپ کی ایک اور خام خیالی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو کسی نوازش کی ضرورت تھی یا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا قد ان انسانوں سے بہت بلند تھا جنہیں کسی کی نوازشات درکار ہوتی ہیں۔ الٹا یہ وہ لوگ ہوتے ہیں قومیں جن کی نوازشات سے فیض یاب ہوتی ہیں۔ مگر آپ کی سوچ شاید ذاتی نوازشات سے آگے نہیں جاتی۔ ظاہر ہے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ آپ کو وہی نظر آئے گا جو آپ کی عینک آپ کو دکھائے گی۔ ڈاکٹر سلام صاحب کو \"Dr.-Abdus-Salam\"کسی نوازش کی ضرورت کبھی تھی ہی نہیں۔ حقائق یہی ہیں کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام دنیائے سائنس ان کی نوازشات کی احسان مند رہے گی۔ پاکستان آج سائنسی اور ایٹمی ترقی میں جہاں کھڑا ہے وہ ڈاکٹر صاحب کی نوازشات کا ہی ثمر ہے۔ تو آپ یا آج کے وزیر اعظم پاکستان کون ہوتے ہیں ایسے بلند قامت وجود پر کوئی نوازش کرنے والے۔ جو ایک اچھا قدم ہمارے وزیر اعظم نے اٹھایا ہے وہ تو ڈاکٹر سلام کی پاکستان پر نوازشات کے دریا کے سامنے ایک قطرہ شبنم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اور جب کوئی قوم اپنے ہیرو کو اس رنگ میں سلام پیش کرتی ہے، تو اس کی ہیرو کو ضرورت ہوتی ہے نہ ہی یہ اس پر کوئی نوازش ہوا کرتی ہے۔ ہاں ہیرو کی ستائش قوم کو مزید ہیرو عطا کر جایا کرتی ہے۔ لہٰذا وزیر اعظم نواز شریف نے یہ نوازش ڈاکٹر سلام صاحب پر نہیں بلکہ ہماری قوم پر کی ہے کہ ڈاکٹر سلام صاحب کے نام سے ایک ادارہ منسوب کردیا ہے۔

جو قومیں اپنے ہیروز کو ولن بنا لیں انہیں پھر ولن ہی ملا کرتے ہیں۔ اور ہم پہلے ہی دنیا بھر میں ولن کے کردار سے مشہور ہوچکےہیں۔ اور مشہور ہی کیا دنیا کے بہت سے تاریخی قسم کے ولن ہماری ہی سرزمین پر پائے گئے ہیں یا پھر انہیں یہاں گھس کر مارا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ سورج چاند کی مانند ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان سے خود اوجھل ہوجائیں تو ان کا کوئی نقصان نہیں ہے نقصان ان سے فائدہ نہ اٹھانے والے کا ہے۔لہٰذا اگر ہماری ریاست نےاپنے اتنے بڑے ہیرو کو تسلیم کرنے کی ابتدا کرہی دی ہے تو اسے نفرت انگیز سوچ سے آلودہ نہ ہی کریں تو بہتر ہوگا۔ ہم اپنے ہیرو کو پہچانے گے تو ہی ہمیں آئندہ بھی ہیرو ملیں گے۔ ہم پہلے ہی ولن پیدا کرنے میں خود کفیل مانے جاتے ہیں۔ اب تھوڑا سا ہیروز کو بھی موقع دے دیں۔ باقی یہ بات ہماری سمجھ سے بھی بالا ہے کہ آپ نے اس سارے معاملے کو ربیع الاول سے کس طرح جوڑا ہے۔ اور وہ کس قسم کی مذہبی نفرت ہے جو آپ اس تلازمہ سے پھیلانا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments