موت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں


\"zunaira-saqib\"

جانے کب سے سنتے آئے ہیں کہ کسی کی مرنے پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ بڑوں نے یہ تو بتایا لیکن ساتھ ساتھ کچھ دوغلے پن کا بیج بھی ہمارے اندر بو دیا۔ کسی کے گناہ مرنے پر معاف ہونے لگے تو کسی کے مرنے پر شکر ادا کیا جانے لگا۔ کشمیریوں پر ظلم ہو رہا تھا وہ شہید تھے اور بھارتی فوجی جہنم واصل تھے۔ فلسطینی خود کش حملے کرنے والے شہید تھے اور مرنے والے عام یہودی شہری جہنمی۔

اپنے جاننے والوں میں ایک صاحب کو جاتے دیکھا جن میں جیتے جی کوئی خوبی ںا دیکھی تھی۔ مرنے پر لوگ کہنے لگے چھوڑو اب جانے والا چلا گیا اللہ کا اور اس کا معا ملہ ہے۔ کچھ دن بعد ایک فرقے کے روحانی پیشوا گذر گیے اب تو عجب حال تھا۔ اک فرقے والے جشن مناتے نظر آئے اور دوسرے فرقے والے اس کی مغفرت کی دعا کرتے۔ کچھ عرصے بعد اک مشہور ”فوجی سیاست دان“ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ کسی نے کہا ہائے بچارا شہید ہو گیا اللہ اِس کے درجات بلند کرے، کوئی کہنے لگا شکر ہے مر گیا ملک کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔

چھوٹا ذہن سمجھنے کی قابل نہیں تھا کہ جب مرنے پر خوش نہیں ہونا چاہیے تو ایک سانس میں ایک کی مرنے پر خوشی اور دوسرے کی مغفرت کی دعا کیسے ہو سکتی ہے۔ بس ایسے ہی دوغلے پن کا بیج بڑھتے بڑھتے تناور درخت بن گیا۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر گر گیا تو سڑکوں پر لوگوں کا رقص دیکھا پھر امریکہ ںے افغانستان پر حملہ کر دیا اور پھر سڑکوں پر لوگوں کا ماتم دیکھا۔ نور جہاں اور مہدی حسن گذر گئے لوگوں نے کہا ان کی قبر کھولی گئی ( جانے کیوں؟) تو پوری زبان جسم سے لپٹی تھی۔ ویسے اللہ معاف کرے۔ زیادہ دور کیوں جائیں۔ قندیل بلوچ مر گئی تو لوگوں نے کہا اب اس کی اعمال اس کے ساتھ۔ اللہ کا اور اس کا معاملہ ہے لیکن تھی فاحشہ عورت۔ اک سانس تعزیت دوسری میں اپنے تئیں خدا کے نائب نے فیصلہ بھی سنا دیا۔

سچ تو یہ ہے کھ آج بھی ہر ”جہنم واصل“ ہونے والے پر دِل میں اک کمینی سی خوشی اٹھتی ہے جو چھپائے نا چھپتی ہے۔ مجھے شدت سے احساس ہونے لگا ہے کہ کسی کی مرنے پر خوشی کا اظہار، غم کا اظہار، مغفرت یا لعنت، ہر شخص کا حق ہے۔ میں نے ممتاز قادری کی مرنے پر اتنی ہی بغلیں بجائیں جتنی کچھ لوگوں نے سلمان تاثیر کی مرنے پر۔ ہم سب اپنی پسند نا پسند رکھتے ہیں۔ قبول کریں نا کریں کچھ لوگوں کی مرنے سے خوشی ہوتی ہے اور شکر دِل سے نکلتا ہے۔ کچھ کی جانے کا دکھ ہوتا ہے اورمغفرت کی دعا نکلتی ہے۔

مان لیں کھ آپ کے اپنے بچے کی چوٹ کسی اور کے بچے کی چوٹ سے زیادہ درد دل کا سبب بنتی ہے کیوں کہ منتخب ہمدردی انسانی فطرت ہے۔ کسی کا ہیرو کسی کا ولن ہے۔ کسی کا دہشت گرد کسی کا مجاہد آزادی ہے۔ لوگوں کو اپنی مرضی سے جشن منانے دیں، دکھی ہونے دیں، رقص کرنے دیں، ماتم بھی کرنے دیں۔ آپ اور میں دنیا کے تھانیدار تو ہیں نہیں جو لوگوں کی سوچ پر پہرے بٹھائیں۔ بس یہ خیال رکھیں کہ جانے والا تو چلا گیا ہے، جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا دل مت دکھائیں۔ خوشی اور غمی تو پسماندگان کے لئے ہوتے ہیں، جانے والا تو ان سے بے نیاز ہو چکا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments