عبدالستار ایدھی اور جنید جمشید کو دکھ پہنچانے والے


\"aqdasکل سے اب تک بار ہا قلم اٹھایا۔ پی آئی اے کی پرواز میں مرنے والوں کے لیے بہت کچھ لکھنا چاہا مگر لوگوں کی نفرت دیکھ کر چپ سی لگ گئی ہے۔ دل چاہتا ہے سب خاموش ہو جائیں، ہر چیز تھم جائے، وقت تھم جائے۔ یہ حادثہ ہوا ہی نہ ہو۔ سب ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرنا بند کردیں۔ جب سلمان تاثیر کو ناحق قتل کیا، تب بھی دل یہی چاہا۔ جب مغیث اور منیب کو مارا تب بھی دل نے یہی خواہش کی۔ جب مسیحی جوڑے کے سوختہ بدن پر بھی لوگوں کو آگ اگلتے دیکھا تب بھی دل نے یہی فریاد کی۔ مگر نہ تو نفرت کا یہ شور تھمے گا، نہ ہی محبت کرنے والوں کی آواز کسی تک پہنچے گی۔ جس کو دیکھو اپنے اپنے پیمانے پر دوسرے کو پرکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے نظریے کی عینک سے جو جیسا دکھتا ہے بس ویسا ہی ہے۔ نہ اس سے کچھ کم، نہ زیادہ۔ اتنے سخت دل اور تنگ نظر لوگ ہیں کہ زندگی میں تو ستاتے ہی ہیں، مرنے کے بعد بھی نہیں بخشتے۔ یہ انتہا پسند چاہے آپ کے دائیں جانب کھڑے ہوں یا بائیں جانب، ان کی کوشش یہی ہو گی کہ آپ کو اپنے سانچے میں فٹ کر لیں۔ ان کو تو یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ جس لاش کو یہ اپنے سانچے میں فٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ جل کر کوئلہ ہو گئی ہے۔ اکڑ گئی ہے۔ مگر یہ اس اکڑے ہوئے کوئلے پر بھی ہتھوڑے ماریں گے کہ کسی طرح ہمارے سانچے میں پورا آ جائے۔

جنید جمشید کی موت کا مجھے بہت دکھ ہے۔ میں نے ان کے ہر روپ کا احترام کیا ہے۔ میں اعتبار بھی آ ہی جائے گا بھی سنتی ہوں اور محمد ﷺ کا روضہ بھی قریب آتا محسوس کرتی ہوں۔ ان کی موت کی خبر سنی تو دل میں خیال آیا کہ اب کچھ لوگ پھر اپنی عینک لگا لیں گے، پھر سے ایک شور اٹھے گا، کوئی مراثی کے مرنے کا جشن منائے گا تو کوئی ملا کے مرنے کا، کوئی اس جنید جمشید کو یاد نہیں کرے گا جس نے اپنے گانے میں بھی محبت کی بات کی اور درس میں بھی۔ پھر ہوا بھی وہی جس کا اندیشہ تھا۔ ہر کوئی لٹھ اٹھا کر چل پڑا۔

ان کی لاش تو ابھی سرد خانے میں کہیں پڑی ہے مگر ان کی روح تو خدا کے پاس پہنچ گئی ہوگی۔ سوچتی ہوں کہ جنید جمشید اللہ کے سامنے کھڑے ہیں۔ خداوند فرماتے ہیں میری ثنا پڑھنے والے! میرے نبی کی شان بیان کرنے والے! آج تو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہے۔ مانگ جو مانگتا ہے- جنید جمشید بولیں گے، اللہ پاک آپ کی دنیا میں بسنے والوں کے دل بہت سخت ہیں۔ اے رحیم اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو نرمی عطا فرمائیے۔ اللہ پاک میرے ساتھ تو جو کیا سو کیا، کسی اور کو اس دنیا کا جنید جمشید بننے سے بچا لیں۔

\"junaid-jamshed\"اے اللہ ! میں نےآپ کے راستے میں شہرت چھوڑی، پیسہ چھوڑا۔ میں اونچی ہواؤں میں اڑنے والا آپ کی خاطر زمین پر آ بیٹھا۔ خود کو مٹی کر ڈالا۔ مگر آپ ہی کے نام لیواؤں نے مجھے بھسم کر ڈالا۔ اللہ آپ کے بندوں نے مجھے میرے نبی ﷺ کا گستاخ بناڈالا، اسی نبی کا گستاخ جن کی شان میں قصیدے پڑھتے میری صبح سے شام ہوتی ہے۔ آپ ان کو ہدایت عطا کریں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو آپ ان کے ہاتھوں کسی سلمان تاثیر، امجدصابری، آسیہ بی بی جیسے ان گنت لوگوں کو شکار ہونے سے بچالیں۔ آپ ان سے وہ مہر واپس لے لیں جس سے یہ ہمارے ایمان کے سرٹیفکیٹ پر ٹھپہ لگاتے ہیں۔

اے اللہ! یہ جو میرے کاروبارپر اعتراض کرتے ہیں، جنہیں میرے ملا ہونے پر افسردگی ہے، یہ نام نہاد انسانیت کا درس دینے والے۔ انہیں انسانیت کا مطلب سمجھا دیں۔ انہیں یہ سکھلا دیں کہ انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انسانی جان جانے کا دکھ یہ نہیں دیکھتا کہ مرنے والا لحد میں اتارا جائے گا یا گھاٹ پر جلایا جائے گا۔ انہوں میری زندگی میں تو مجھ پر نشتر چلائے سو چلائے، میری موت کے بعد بھی مجھے کچوکے لگانے کو بے تاب ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ جو دکھ جنید جمشید نے ہم انسانوں کے ہاتھوں اٹھائے، خدا نے ان سے بڑھ کر مداوا کیا ہو گا۔ مگر میری خواہش ہے کہ ہم ایک دوسرے کو تکلیف دینا چھوڑ دیں۔ نہ ہم زندہ انسان کو سکون سے رہنے دیتے ہیں نا مردہ کی کوئی توقیر کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بس کے پیچھے پڑھا ہوا ایک شعریاد آرہا ہے

میں مر جاؤں تو نامحرم کو میری قبر پر مت لانا

ہم انسان مردوں کو جلایا نہیں کرتے

لیکن ہم نے جو جنید جمشد کی لاش کے ساتھ کیا ہے شاید ہم انسانیت کے دائرے میں بھی نہیں آتے۔ ایک ان پڑھ یہ بات سمجھ سکتا ہے، لیکن ہم\"Edhi\" نام نہاد پڑھے لکھوں کو یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئے گی۔

 مجھے لگا کہ جنید جمشید، یا اسامہ احمد وڑائچ کے چاہنے والے حکومت پر زور ڈالیں گے کہ اس حادثے کی وجوہات معلوم کی جائیں، تحقیقات کی جائیں،غفلت برتنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ لیکن ہائے رے ہماری قسمت، ہم اخلاقی طور پر اتنے گرے ہوئے ہیں کہ ہم نے ذمہ داران کی بجائے ایک دوسرے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ تم نہیں، میں مسلمان ہوں، مذہبی انتہا پسند اچھے ہیں یا لبرل انتہا پسند۔ یہ قوم کیا کسی کو انصاف دلائے گی۔ مرنے والے مر گئے، لواحقین ڈی این اے کے چکروں میں پڑ گئے، اور قوم کی جانے بلا۔ ہم پہلے سرٹیفکیٹ تو بانٹ لیں۔

شاہ حسین کا ایک شعر ہے

تو کہہ باغ دی مولی حسینا!

منصور قبولی سولی حسینا!

اسی شعر کو آج کے تناظر میں رکھیں تو کچھ یوں ہو گا۔

تو کہہ باغ دی مولی جنیدا!

اس قوم نہ چھڈیا ایدھی جنیدا!

اس قوم نے تو ایدھی جیسے فرشتہ صفت انسان کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے تھے، یہ تو معصوم بچوں کے خون سے اپنا مفاد خرید لاتے ہیں۔ آپ کے تو جرائم کی فہرست بہت طویل ہے جنید صاحب!۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments