جو میری آنکھوں سے خواب دیکھو! (ذوالفقار علی)۔


\"zulfiqar\" جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے وہ ہر زماں اپنے عمل کا حساب
بعض اوقات میں اپنے دماغ کے پرسکون بحر میں تخیلات کی ناؤ کو ڈالتا ہوں تو مجھے حقائق کے مدوجزر دل ودماغ کے ساحل سے ٹکراتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ تو پھر میرے ذہن میں ٹائن بی کے الفاظ گھومنے لگتے ہیں کہ زندہ قومیں ماضی پر نظر رکھتی ہیں اور حال پر گرفت لیکن اس طرف میرے دل ودماغ کی دنیا میں ملت اسلامیہ کے شاندار ماضی کی یادوں کا طوفان امڈ آیا ہے۔

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا

جب میں ملت اسلامیہ کے ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کا شغر کے حامل ملت اسلامیہ آج مجھے مایوسی اور بے یقنی کی آندھیوں میں گری ہوئی نظر آتی ہے وہ ملت جو تین براعظموں کے سیاہ وسپاہ کی مالک تھی اس کے جانشینوں نے وقت کی قدر نہ کی، مستقبل کی فکر سے لاپرواہ ہو گئے، سستی اور کاہلی نے انھیں گھیر لیا اور آنے والے حالات سے بے خبر ہو گئے۔ شاید کہ ہم بھول چکے ہیں کہ ہم طارق جانباز اور حیدر کرار کے امیں ہیں۔ اے میرے قوم کے جانشینوں کیا تم بھول گئے ہو کہ تم ابوبکر کی ریاست کا حصہ ہو، تم عثمان کا ولولہ ہو عمر کا غلغلہ ہوا اور تمہیں اس قوم نے پالا ہے جس کی آغوش محبت کو تم نے کچل ڈالا ہے۔
بعض اوقات انسان کی زندگی میں وقت کے بعض لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ سپین کے ساحل پر جلنے والی کشتیوں کی راکھ اور جوانوں میں جوش ولولہ زندہ ہے۔ مگر وہ لمحے کتنے درد ناک تھے کہ جب تنگ دین، ننگ ملت، میر جعفر، میر صادق نے فرنگ سامراج کے ساتھ مل کر میری قوم کے ساتھ غداری کی تھی اگر میں اپنے عرض پر نظر ڈالوں تو میں اس وقت شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہوں جب میں سیلاب کے پانی میں معصوم عوام کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میں ان کی میتوں پر اپنے سر کو جھکا لیتا ہوں، جب اپنے ملک میں کرپشن کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے میرے خوابوں کا شیش محل زمین بوس ہو جاتا ہے۔ ہم ہیں تو ایک قوم مگر مجھے بڑے افسوس سے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ یہ کیسی قوم ہے جو گروہوں میں ذات، برداری، مذہبی حوالوں سے، علاقائی لسانی حوالوں اور اقتصادی طور پر منسلک ہے۔ یہاں کا تو تکیہ کلام ہے کہ یہ کمی ہے یا چوہدری ہے۔ جو لوگ ایک گلی میں اکھٹے نہیں جو لوگ ایک اذان کے وقت اکھٹے نہیں جو رمضان کے چاند پر اکھٹے نہیں ہیں اور جب میں اپنے یہ غم لوگوں کو بتلاتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں خدا دیکھتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ اے ہمارے رب، میری قوم پر اتنے مظالم ڈھائے جا چکے ہیں۔ اے خدا ہمارے طرف نگاہ کرم کب ہو گا؟ ہمیں آپ کی مدد کب نصیب ہو گی؟ ہم پر اے خدایا زوال کے بادل کب چھٹے گے تو مجھے میرا دل کہتا ہے کہ خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کہ حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
کاش کہ میرے وطن کے جوان اس بات کو سمجھیں کہ یہ وطن ہمیں فرنگی سا مراج اور ہندو بنیا نے کسی پیلٹ میں رکھ کر نہیں دیا بلکہ یہ نتیجہ ہے محمود کی بت شکنی کا محمد بن قاسم کی جوانمر دی کا حاصل ہے، ٹیپو کی حریت کا، یہ ثمر ہے سید احمد شہید کی شہادت کا یہ تعبیر ہے اقبال کے خواب کی اور یہ صلہ ہے قائداعظم کی انتھک کاوشوں کا اور سب سے بڑھ کر یہ انعام ہے رب ذوالجلال کے فضل وکرم کا۔ ذرا سوچئے کہ اس باپ پر کیا بیتی ہو گی کہ جس کے بڑھاپے کا سہارا چھن گیا، اس ماں پر کیا گزری ہو گی جس کا سہاگ لٹ گیا۔ انہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر دیا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی آنے والی نسل کو ایک اچھا مستقبل فراہم کریں۔ لیکن میں ان کی قربانیاں رائگاں جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ ذرا سوچئے! انہوں نے یہ قربانی اس لئے دی تھی کہ پاکستان کرپشن اور لوڈشیڈنگ جیسی جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائے؟ اس وطن کے کونے کونے میں بم دھماکے ہو رہے ہیں۔ اس وطن میں بھوک اور افلاس کے آوارہ پھرے۔ سوچئے !!! ذرا سوچئے !!! تو آیئے ہم آج ثابت کر دیں کہ ہماری رگوں میں جو خون دوڑ رہا ہے وہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا۔ اب بھی اگر ہمارے وطن عزیز پر کوئی آنچ آئی تو ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے تو آیئے ہم یہ عہد کریں۔

خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments