جب ہیر، باہو ، چندر بھان اور عبدالسلام سے جھنگ چھوٹا


\"hasam

(پہلا حصہ: جھنگ۔۔۔۔ اس طرف چشمہ رواں تھا پہلے)

اس دوران دو باتیں ہوئیں۔ اول تو یہ کہ شیعہ زمینداروں کا تصرف آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو گیا۔ نسل در نسل تقسیم ہوتی زمین اور زمین سے پھوٹتے وراثت کے جھگڑوں نے جاگیر داروں کے دائرہ اختیار اور معمولی کسانوں کے روزگار پہ گہری ضرب لگائی سو زمین سے رزق اگانے والے آس پاس کے شہروں کا رخ کرنے لگے۔

دوسری بات یہ ہوئی کہ خلیجی ممالک نے پاکستانیوں کے لئے معاش کے سلسلے دراز کر دئیے۔ ملک میں پھیلتے ہوئے خالی ہاتھ اور باہر سے آنے والوں ہاتھوں پہ دو دو گھڑیاں دیکھ کر جھنگ والوں کی وسیع تعداد نے بھی عرب ممالک کا رخ کیا۔ جانے والے جب واپس آئے تو ساتھ میں عقیدے کا زر مبادلہ اور عربی کی عجمی سے نفرت بھی لیتے آئے ۔

یہی وہ دور تھا جب پاکستان سے جمہوریت خارج ہوئی اور ایران میں انقلاب داخل ہوا۔ ادھر مسجد ، منبر اور مسند پہ فقہ حنفیہ کی حکمرانی ہوئی اور ادھر خمینی فقہ جعفریہ کا علم تھام کر نکلے۔ ایران کے انقلاب نے عرب ممالک کو تو خوفزدہ کیا ہی ، پاکستان کے اہل تشیع میں بھی سیاسی بیداری کی نئی لہر پھونکی۔ پہلے پہل فقہ جعفریہ کے نفاذ کی تحریک بنی اور پھر آہستہ آہستہ اس کے لب ولہجہ میں تبدیلی آنے لگی ۔ جب حکومت نے فقہ حنفی کی بنیاد پہ زکوة کا قانون نافذ کیا تو شیعہ حضرات نے بھی حکومت کو تین دن میں دھرنا دے کر اس بات پہ آمادہ کر لیا کہ شیعہ شرعی مسائل کو شیعہ شریعت کی رو سے حل کیا جائے گا۔ نجف اور قم سے آئے ہوئے علماء نے ان عقائد کا بپتسمہ کرنا شروع کر دیا جن کو برصغیر کی مٹی نے آلودہ کر دیا تھا۔ پاکستان کے مسلمانوں کو پہلے عربیوں نے مذہب سکھایا اور رہی سہی کسر عجمیوں نے پوری کر دی ۔\"jhang3\"

ایران ۔ عراق جنگ چھڑی تو کہنے سننے والوں کو کھلی آزادی مل گئی۔ درآمد شدہ نفرتوں کی پیروی میں سنی مولوی اور شیعہ علما نے ان تمام روایات کو دیس نکالا دے دیا جن سے جھنگ کے وجود میں روشنائی تھی۔

پھر اسی شہر میں حق نواز جھنگوی نے انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی ۔1985 میں پپلاں والی مسجد میں بنائی گئی یہ تنظیم جس کے آٹھ میں سے پانچ بنیادی مقاصد اہل تشیع کو خارج از اسلام قرار دلوانا تھے، آہستہ آہستہ سپاہ صحابہ کے نام سے مقبول ہو نا شروع ہو گئی۔ صحابہ کے نام پہ قائم کی گئی اس انجمن کا بنیادی مقصد تو ایک مخصوص مذہبی نظریے کو فروغ دینا تھا مگر ہر وہ شخص جو اس کی زد پہ آیا اسے مذہب کے ساتھ ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ سیاسی سوچ کی یک رخی ، مدرسوں کے پھیلتے ہوئے جال ، عقیدے اور سرمائے کی پیوستگی اور برادریوں کی خانگی کشمکشوں سے سپاہ صحابہ کو تیزی سے پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ ان سپاہیوں کی امداد کرنے والوں میں حجاز کے مسلمانوں سے دیو بند کے معتقد وں تک سب اہل ایمان شامل تھے۔ کونے کونے پہ کھلنے والے مدارس کے ذریعے معصوم ذہنوں کو پہلے تعصب پہ پالا جاتا \"jatt-mahel-jhang\"اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے افغانستان بھیجا جاتا جہاں طالبان دور میں چلنے والے کیمپوں میں یہ لوگ اپنے سچ سے محبت میں مبتلا ہوتے۔ مذہبی پیشواﺅں سے سیاسی رہنماﺅں تک کسی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ فرقے کی جنگ سے بچوں کو دور رکھے۔ کئی سال تک ملک کے اندر حکومت انہیں اپنا تزویراتی اثاثہ جانتی رہی اور ملک سے باہر اسلامی ریاستیں ان کی اعانت کرتی رہیں۔

کچھ تو ایوانوں کے ذہن میں انقلاب کا اندیشہ کلبلاتا تھا اور کچھ پڑوس میں جاری دیوبندی جہاد کی مجبوریاں پیش نظر تھیں، سپاہ صحابہ اس پیڑ کے سائے میں تیزی سے بڑھتی رہی جسے پاک سر زمین میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔ نفاذ شریعت کے نعروں میں چھپی فرقہ واریت صاف سنائی دیتی تھی مگر شائد کوئی ان آوازوں کو سننا ہی نہیں چاہتا تھا ۔

 جب احسان الہٰی ظہیر، عارف الحسینی اور حق نواز جھنگوی ایک کے بعد ایک کر کے قتل ہوئے تو جھنگ میں شیعہ سنی فساد اپنے عروج

کو پہنچ گیا ۔ 1993 میں سپاہ محمد قیام میں آئی تو جوابا 1996 میں لشکر جھنگوی کے نام سے بھی ایک تنظیم تشکیل دی گئی۔ سلطان باہو اور چندر بھان کے جھنگ کی گلیاں اب میدان جنگ کی صورت پیش کرتی تھیں اور ہیر کے شہر کی دیواروں پہ لکھے نعرے رزمیہ داستان کا \"1979,منظر پیش کرتے۔ اس دوران قران کی آئتیں پکارتی رہیں کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ حرم کے آس پاس، جہاں سے شکار کھیلنے والے شہزادے آتے اور مدارس کو بھاری چندے دے جاتے، کہیں آخری خطبہ کے الفاظ بھی سنائی دیتے کہ تمہاری جان، مال اور عزت کی ایک دوسرے پہ ویسی حرمت ہے جیسی اس دن، اس مہینے اور اس شہر کی ۔ مگر مذہب کے جنون میں اتنی ہوش کسے ہوتی کہ آئتوں اور خطبوں پہ دھیان دیتا۔

خاک اور خون کے اس کھیل میں جہاں فرقہ واریت ایک ناسور ہے، وہیں سیاست کے تماشے میں یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے بغیر جمہوریت کی جنگ جیتی تو کیا، لڑی بھی نہیں جا سکتی ۔ پیپلز پارٹی جیسی دائیں بازو کی جماعت ہو یا روشن خیالی کا نعرہ مستانہ لگانے والی ق لیگ، مملکت خداداد کی تمام حکومتیں کہیں نہ کہیں اس بیساکھی کا استعمال ضرور کرتی ہیں ۔

ملک کے سب سے روشن خیال دور میں بھی طالبان کو اپنا ہیرو ماننے والے سپاہ صحابہ کے اعظم طارق نے الیکشن تو جیل سے لڑا مگر پھر ظفر اللہ جمالی کو ایک سیٹ کی برتری دلوانے کے لئے پارلیمان میں لائے گئے۔ جھنگ کے اس ممبر اسمبلی نے پارلیمان میں پہنچنے کے بعد اہم اعلان یہ کیا کہ پاکستان کے 82 منتخب شہروں کو افغانستان کے شہروں کی طرز پہ بدلا جائے گا اور وہاں ٹیلی ویژن ، سینما اور موسیقی کی مکمل ممانعت ہوگی۔

ہر الیکشن کی طرح اس بار بھی شہر کی چھتوں پہ جابجا مخصوص جھنڈے نظر آئے ۔ فرقے کے نام پہ ڈالے گئے ووٹ اسمبلی کی نشست تو نہ لا سکے مگر ووٹ گننے والے بتاتے ہیں کہ لگ بھگ ستر ہزار لوگ اب بھی کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں۔

عقیدے کی اس جنگ میں عموما دونوں اطراف کے عام عقیدت مند مرتے ہیں جو شیعہ اور سنی ہونے کے علاوہ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور استاد بھی ہوتے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ اندھا دھند فائرنگ اور بم دھماکوں سے نہ تو امام بارگاہیں بچتی ہیں اور نہ مساجد ۔ گھر میں ٹی وی اور سڑک پہ بل بورڈ دیکھیں تو لگتا ہے کہ معاشرہ، مذہب کی مکمل گرفت میں ہے مگر دھماکے سے اٹی خبریں اور خون میں لت پت اخبار بتاتا ہے کہ انسان اب بھی سلامتی ڈھونڈھتا ہے۔ علمدار روڈ پہ بم پھٹے یا چلاس میں قمیضیں اتروا کر لوگوں کو مارا جائے، لشکر جھنگوی جب بھی کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، جھنگ کے لوگ معنی خیز نظر وں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، مگر آہستہ آہستہ جب لوگ اسے بیرونی سازش کہہ کر ہمسایہ ممالک کی طرف انگلیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں تو وہ بھی اس فرض کفایہ سے تقریبا بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔ رہی بات روایت کی، تو ہیر، سلطان، چندر بھان اور عبدالسلام آج کے جھنگ میں رہتے بھی تو لشکر والے انہیں کہاں زندہ چھوڑتے۔



Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments