مدیر ’ہم سب‘ کے نام، ایک کھلا خط


\"abid محترم مدیر،

پاکستان کے علمی حلقوں میں نہایت احترام کے ساتھ دیکھی اور سب سے زیادہ پڑھی جانے والی آپ کی مؤقر ویب سائٹ کا میں معمول کا ایک معمولی سا قاری ہوں۔ مجھے اعتراف کرنے دیجیے کہ میں نے چند بنیادی صحافتی اصول اسی ویب سائٹ کے مدیر سے سیکھے ہیں۔ اب انہی اصولوں کے برخلاف ایک تحریر اسی ویب سائٹ پہ گزشتہ دو ہفتوں سے حرکت پذیر ہے، اور میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ کجی اُس اصول میں ہے یا میری فہم میں۔

یکم دسمبر 2016 کی اشاعت میں ناصر صلاح الدین کی ایک تحریر ’عظیم انقلابی فیدل کاسترو کی ذاتی زندگی کے دس حقائق‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ مجھے ان میں سے بعض حقائق پر شدید تحفظات ہیں، اور ان کی تشفی مقصود ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، 2009 میں انکشاف کیا گیا کہ فیڈل کاسترو نے 82 برس (تب) کی عمر تک 35000 عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے۔ چار عشروں تک انقلابی رہنما کا معمول تھا کہ روزانہ دوپہر اور شام کو دو مختلف خواتین کے ساتھ تخلیہ کرتے تھے۔

فیڈل کاسترو نے علانیہ طور پر دو شادیاں کیں (1949 اور 1980) لیکن شادی کے بغیر ان کے بچوں کی تعداد ان کے اپنے بیان کے مطابق ایک قبیلے کے برابر تھی۔

فیدل کاسترو اپنی ذاتی حفاظت کے ضمن میں بے حد محتاط تھے۔ بار بار قاتلانہ حملوں کے باعث ان کی قیام گاہ ایک ٹاپ سیکرٹ معاملہ تھا۔ صدارت چھوڑنے کے بعد وہ 75 ایکڑ پر مشتمل ایک خفیہ قیام گاہ پر منتقل ہو گئے تھے۔

اس پر میرے چند طالب علمانہ سوالات ہیں:
۔ یہ’ انکشاف‘کس پر ہوا، نیز اس کے ذرائع کس قدر مستند ہیں؟
سال کے 365 دنوں کو کاسترو کے 90 برسوں سے ضرب دے دیں تو یہ 32850 دن بنتے ہیں۔ ایسے میں 35000 عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات کس طرح ممکن ہے؟ روزانہ دوپہر اور شام کو دو مختلف خواتین کے ساتھ تخلیہ، سائنس کے کس کلیے کی رُو سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ یہ تعداد کسی بھی تحقیق کرنے والے ادارے کو کیسے معلوم ہوئی؟ پینتیس ہزار میں سے پینتیس خواتین کا مکمل حوالہ دینا تو حق بنتا ہے۔
کاسترو کی قیام گاہ ایک ٹاپ سیکرٹ معاملہ تھا، اس کے باوجود ان کی ایک قیام گاہ کا رقبہ تک معلوم کر لیا گیا، جو ’خفیہ‘ بھی تھی۔ ایسا کیسے ممکن ہو؟ نیز یہ کارنامہ کس نے انجام دیا؟

سوال کا اگلہ مرحلہ یہ ہے کہ’ہم سب‘ سمیت کہیں بھی اپنا موقف دینے کے لیے جو رہنما اصول آپ نے متعین کیے تھے، کیا یہ تحریر ان پر پورا اترتی ہے؟!

آپ کا بیان کردہ اصول جو آج بھی’’ ہم سب میں کیسے لکھا جائے، چند تفصیلی گزارشات‘‘ کے عنوان سے اس لنک پر موجود ہے، http://www.humsub.com.pk/6731/mudeer/، کچھ یوں ہے کہ، ’’صحافت میں ناشائستہ لب و لہجہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ کسی کو گالی نہیں دی جا سکتی۔ کسی مذہبی، ثقافتی یا نسلی گروہ کے خلاف اشتعال نہیں پھیلایا جا سکتا۔ نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ‘‘

میرا سوال ہے کہ اس اصول کی رُو سے کیا مذکورہ تحریر نفرت پھیلانے کے زمرے میں نہیں آتی؟ کیا اسے پڑھ کر کوئی بھی گروہ اشتعال میں نہیں آ سکتا؟ کیا مذکورہ الزامات کسی گالی سے کم ہیں؟ ایک انقلابی رہنما کو کسی Womanizer کی طرح عورتوں کا رسیا بتانا، کیا شائستگی کے برخلاف نہیں؟

اگلی بات یہ کہ آپ ہی نے ’ہم سب کے لیے لکھنے والوں سے چند گزارشات‘ لنک

(http://www.humsub.com.pk/3554/guidelines/)

کے عنوان سے یہ فرمایا ہے کہ، ’’ لکھنے والا ہمیشہ ایک کیفیت اور موقف کے زیر اثر ہوتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ کسی تحریر کو پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرنے سے پہلے ایک ایسا فرد ضرور دیکھ لے جو متعلقہ کیفیت اور موقف سے بے نیاز ہو۔ یہ مدیر کا منصب ہوتا ہے۔ ‘‘

میری معروضات کے جواب میں آپ کا وضاحتی کالم ’فیدل کاسترو سیاسی رہنما تھے، مذہبی اوتار نہیں‘ (لنک:http://www.humsub.com.pk/35109/wajahat-masood-180/)  مذکورہ موضوع سے متعلق آپ کے یک طرفہ و جانب دارانہ کیفیت اور موقف کی غمازی کرتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ تحریر اشاعت سے قبل کسی ایسے فرد نے دیکھی ہے جو متعلقہ کیفیت اور موقف سے بے نیاز ہو؟ (گستاخی نہ سمجھا جائے تو میرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم سب کی ادارتی ٹیم میں ایسا کوئی فرد موجود ہے، جو متعلقہ موضوع (سوشلزم، کیوبا، کاسترو) سے متعلق جانب دارانہ کیفیت اور موقف سے بے نیاز ہو؟!)

میرا دعویٰ یہ ہے کہ مذکورہ الزامات لغو اور بے بنیاد ہیں۔ تمام تر تحریر کی بنیاد فوربز نامی امریکی میگزین کی ڈیڑھ منٹ کی ایک ویڈیو کو بنایا گیا ہے۔ آخر میں یوٹیوب سے مذکورہ ویڈیو اور گوگل سے چند تصاویر بہ طور حوالہ درج ہیں۔ عرض یہ ہے کہ ایسی ویڈیوز دنیا کی لگ بھگ ہر نامی گرامی شخصیت سے متعلق انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسی کسی ویڈیو کو بنیاد بنا کر پاکستان کے موجود حکمرانوں سے متعلق ایک تحریر لکھ دے تو کیا ادارہ اسے بھی بخوشی شائع کرپائے گا؟

میں واضح کر دوں کہ میرا مقدمہ کاسترو، ان کا انقلاب اور ان کی فکر نہیں، بلکہ حقائق کے نام پر بیان کیے گئے لغو الزامات سے متعلق ہے۔ ایسے الزامات اوبامہ یا اسامہ سے متعلق ہوں، تب بھی ناقابلِ اشاعت ہی ہونے چاہئیں۔

آخری بات یہ کہ بہ طور ایک قاری اور صحافتی طالب علم کے میرا مدعا یہ ہے کہ یا تو ادارہ حوالوں اور ثبوت کے ساتھ ان الزامات کی تصدیق کرے، یا اس تحریر سے دستبردار ہو۔
یہ بھی ممکن نہ ہو تو مدیر کم از کم ہمیں وہ صحافتی اصول سمجھا دیں، جس کی رُو سے یہ تحریر قابلِ اشاعت قرار پاتی ہے۔

شکریہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments