ڈاکٹر عبدالسلام۔ ڈاکیومنٹری کیوں نہ چل سکی!


2007 کا زمانہ تھا۔ میں ایک ایسے چینل میں کام کر رہا تھا جو ترقی پسند سوچ کے فروغ میں بھی دلچسپی لیتا تھا۔ میرے سینئر پروڈیوسر آغا اقرار ہارون تھے۔ ایک دن بیٹھے نہ جانے کیا دل میں آئی کہ ہم نے ڈاکٹر عبد السلام پر دستاویزی پروگرام کا مرکزی خیال چینل کے سینئر حضرات کو پیش کیا۔ خوشی کی انتہا نہ رہی جب خیال قبول کیا گیا اور بجٹ مختص کر دیا گیا۔

تحقیق شروع کی۔ ڈاکٹر صاحب کے دوستوں اور خاندان کے افراد سے ملاقات کی۔ طبیعات میں ان کے کارنامے پر تحقیق ہوئی۔ ایک مہینے میں ہمارے پاس پانچ سو صفحوں کا ایک تحقیقی پلندہ اکھٹا ہو گیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس دستاویزی پروگرام میں کس زاویے اور جہت سے ہاتھ ڈالا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی ہر جہت کچھ اس قدر دلچسپ اور تفصیلی تھی کہ ایک قسط میں سمونا ناممکن تھا۔

ڈاکٹر صاحب کے خاندان کے افراد اور دوست جب یہ سنتے تھے کہ ہم ایک دستاویزی پروگرام بنانا چاہتے ہیں تو وہ ایک طویل قہقہہ لگاتے اور کہتے۔ آپ کوشش کر کے دیکھ لیں لیکن یہ دستاویزی پروگرام چلے گا نہیں۔ ہم سمجھاتے کہ نہیں ایسا نہیں ہے ایک دفعہ چینل بجٹ مختص کر دے تو اس پروگرام نے چلنا ہی چلنا ہوتا ہے۔

میں نے اس پروگرام کا نام ”کائناتی قوتوں کا راز داں، ڈاکٹر عبدالسلام“ رکھا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہمارے لوگ ان کے کارنامے کی نوعیت سے واقف نہیں ہیں۔ اگر ایک دفعہ ان کو معلوم ہو جائے کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے کیا زبردست دریافت کی تھی اور ان کا قد بین الاقوامی برادری میں کتنا بلند اور قابل احترام تھا تو شاید لوگ ان کے قد اور کارنامے سے مرعوب ہوجائیں اور مذہبی شناخت پر ارتکاز نہ کریں۔

دستاویزی پروگرام بناتے ہوئے حیرت کے دورے پڑتے رہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کاپاکستان کے نیوکلئیر پروگرام میں غیر معمولی کردار ہو یا فزکس کے بین الاقوامی مرکز کو ایبٹ آباد پاکستان میں بنائے جانے کی مہم (یہ مرکز بعد میں اٹلی میں بنا۔ جنرل ایوب کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر عبدالسلام سائنسدان دوستوں کے لیے پاکستان میں ایک عیاشی کا اڈا کھولنا چاہتے ہیں)۔

کبھی سوچیے کہ ڈاکٹر صاحب نے کتنی لابنگ کی ہو گی اور پاکستان میں اس مرکز کو بنانے میں ان کی شخصی قد کا کتنا عمل دخل ہو گا؟ بعد میں پاکستان میں اجازت نہ ملنے پر وہ کس قدر غمزدہ ہوئے ہوں گے۔

انٹرویوز مکمل ہو گئے۔ ڈاکیومنٹری مکمل ہو گئی۔ فائنل کاپی کراچی بھجوا دی گئی۔
چینل کے پینل نے بہت احتیاط سے دستاویزی پروگرام دیکھا۔ ہم نے پورے پروگرام میں مرکزی خیال طبیعات اور ڈاکٹر صاحب کی خدمات سے نہیں ہٹے۔ لیکن دستاویزی پروگرام کے آخر میں جائے تدفین کا ذکر آیا کہ ربوہ میں دفن کیے گئے۔ جس پر چینل نے احتیاطا لفظ ربوہ بھی نکلوا دیا۔

یہاں چینل سے ایک ’غلطی‘ ہو گئی۔ چینل نے اپنے اخبار میں صفحہ اول پر اشتہار لگا دیا کہ شام سات بجے ڈاکٹر عبدالسلام پر خصوصی دستاویزی پروگرام نشر کیا جائے گا۔
ہمیں پورا دن ڈاکٹر صاحب کے دوستوں اور رشتہ داروں کے فون آتے رہے۔ وہ حیران تھے اور ہم خوش۔

ساڑھے چھ بجے کراچی سے فون آیا کہ کچھ ’ناگزیر وجوہات‘ (دھمکیوں) کی وجہ سے پروگرام ڈراپ کر دیا گیا ہے۔
میں نے ساڑھے چھ بجے اپنا فون بند کر دیا۔ اگلے دو دن فون آن نہیں کیا۔

میرا خیال ہے کہ فون بند کرنا ایک مناسب حرکت تھی۔ !

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments