ایک دیہاتی کی ڈائری (1)۔


\"waqar

یقینا آپ کے مشاہدے میں آیا ہوگا، اگر نہیں تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ ہم دیہاتی لوگ لاکھ کوشش کریں مگر اپنا پینڈو پن نہیں چھپا سکتے۔ آپ نے ماں بیٹے کا وہ قصہ تو سنا ہوگا، جو پہلی دفعہ شہر گئے۔ مسافر بس شہر میں پہنچی تو مغرب کا وقت تھا۔ جا بجا ٹیوب لائٹس جلنی شروع ہوئیں تو بیٹے نے چلا کر کہا ’’بے بے! ڈنڈے بَل پئے نیں (ماں، ڈنڈے جل گئے ہیں)‘‘۔ یہ ہمارے اجڈپن کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔

آپ اہلِ شہر تو خیر بڑے تعلیم یافتہ، مہذب اور شائستہ مزاج ہوتے ہیں، خواتین کا اٹھ کر استقبال کرتے ہیں، ان کی فنکارانہ اور ادبی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ان کے خیرہ کن فیش شوز وغیرہ منعقد کراتے ہیں اور ان کے حقوق کے لیے جلوس شلوس بھی نکالتے رہتے ہیں، البتہ ہماری سوچ ابھی تک ان بھاگ بھریوں کے برقعے سلوانے سے آگے نہیں گئی۔ جب ہماری شادی ہوئی تو ہمارے ایک متمول دوست نے اس موقع کو پر مسرت تصور کرتے ہوئے ہم چھ سات بیلیوں کو اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ڈنر پر بلا لیا۔ حسب دیہاتیانہ روایت صرف مرد حضرات ہی کو دعوت دی گئی جبکہ ان کی ازواج کو اس تقریب میں ملوث کرنے سے مکمل پرہیز کیا گیا۔ وہاں جانے سے قبل ایک ہنگامی اجلاس میں یار لوگ متفقہ طور پر ایک ہی پیج پر اکٹھے ہو گئے کہ ہوٹل میں ہم میں سے کوئی بھی کسی وی آئی پی کو دیدے پھاڑ کر نہیں دیکھے گا اور نہ ہی دیگر کوئی ایسی حرکت کرے گا، جس سے ہمارا ’’گرائیں‘‘ ہونا آشکار ہو جائے۔

ہم ہوٹل میں داخل ہوئے آپ جیسے سلجھے ہوئے کئی خواتین و حضرات لابی میں تشریف فرما تھے۔ ہم ڈرائیور ہوٹلوں کی چارپائیوں پر بیٹھنے والے حسب عادت فائیو سٹار ہوٹل کے پر شکوہ ماحول میں نروس ہو گئے۔ شاید قدرت کو ہمارا امتحان مقصود تھا۔ ہم لابی میں چند قدم ہی چلے تھے کہ فلمسٹار میرا ہم پر’’ حملہ آور‘‘ ہو گئی۔ دراصل وہاں کسی فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں بیڈ روم کا سین فلمایا جا رہا تھا۔ اس دوران میرا کو کسی سے ملنے لابی میں آنا پڑا تو وہ ہوشربا نائیٹی کے آتشیں اسلحہ سے لیس وہاں آ دھمکی اور ہمارے قریب سے یوں گذری کہ مابین فریقین سوئی سلائی کا فرق ہی رہ گیا۔ اس خطرناک سین نے یار لوگوں کی رہی سہی خود اعتمادی بھی ہوا میں اڑا دی اور ہماری گردنیں کسی خود کار آلے کی طرح میرا کی چال کے ساتھ ساتھ مڑتی چلی گئیں۔ عزیزی باقر وسیم نے با آواز بلند کہا ’’ہائے اوئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا‘‘ اس حرکت نازیبا پر جہاں خود میرا بھی مسکرا دی وہاں لابی میں موجود لوگوں پر بھی یہ حقیقت طشت ازبام ہوگئی کہ بارانی یا پہاڑی لوگوں کا کوئی گروہ ہوٹل میں گھس آیا ہے۔

ایک اور آپ بیتی سنیئے۔ رات گئے ہم دو دوست ملائیشیا کی ساحلی ریاست پینانگ میں آوارہ گردی کر رہے تھے۔ ایک ڈسکو کلب کے سامنے سے گذرے تو یہ تماشا دیکھنے کو ہمارا بھی جی للچا گیا۔ ہم نے کلب میں گھسنے کی کوشش کی مگر سیکورٹی گارڈ نے ہمیں روک لیا۔ کم بخت بڑا ہی کرخت مزاج تھا۔ ہماری شلوار قمیض اور کوہاٹی چپل پر حقارت سے نگاہ ڈال کر کہنے لگا’’ پہلے انسانوں جیسا حلیہ بنا کر آؤ‘‘ ہم نے کہا ’’ہم تیرے برادراسلامی ملک سے آئے ہیں بھائی! ہمارا کچھ حیا کر‘‘ مگر اس تند خو نے ہماری کوئی حیا نہ کی۔ ہم غالبؔ کی طرح منتِ درباں کرتے رہے مگر غالبؔ کی چلی تھی، نہ ہماری، سو ہم دوبارہ آن روڈ ہو گئے۔

اپنے اور آپ کے درمیان فرق واضح کرنے کے لیے ہم ایک اور واقعہ کا سہارا لیں گے۔ ایک دفعہ ہم دو دوستوں کو اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں نیو ایئر کے فنکشن میں شرکت کی دعوت مل گئی۔ ہم نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے مانگ تانگ کر انگریزی سوٹ حاصل کیے اور روانہ ہو گئے۔ بڑی ہی دلربا و ہوشرباتقریب تھی۔ ظاہر ہے کہ جہاں آپ جیسے اہل ثروت، تہذیب یافتہ اور کھلے دل و دماغ والے خواتین و حضرات ہوں گے، وہاں کھِلے چہروں اور ہرے، نیلے، پیلے، اودے اور سرخ پیرہنوں کی بہار تو ہو گی۔ روشن خیالیاں بھی ہوگی اور نٹ کھٹیاں بھی۔ وہاں ہم پرمنکشف ہوا کہ ہوٹل میں ڈسکو کلب بھی ہے۔ پس ہم دونوں منہ اٹھائے چل دیے۔ یہاں بھی ایک سیکورٹی گارڈ نے ہمیں دروازے پر روک لیا اور کہا کہ کلب میں صرف جوڑوں کو داخلے کی اجازت ہے لہذا آپ حضرات اپنی اپنی خاتون دوست ہمراہ لائیں۔ ہم نے عرض کی کہ بھلے مانس! ہماری تو اپنے علاقے میں کوئی خاتون دوست نہیں، اس پرائے شہر میں ہمیں کون منہ لگائے گا؟ مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا اور ہم واپس فنکشن والے ہال میں آ گئے۔ ایک میز پر دو روشن خیال اور وسیع المشرب شہری خواتین تشریف فرما تھیں۔ ہمارا دوست ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا فسانہ غم کہہ سنایا۔ خدا ان کو لمبی عمر عطا کرے، وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پربخوشی ہماری جعلی دوست بننے پر تیار ہو گئیں۔ ہم نے ہر دو فراخ دل خواتین کی معیت میں کلب کے دروازے کا پل صراط با عزت عبور کیا اورتادیر الہڑ جوانیوں اور جذبات کی جولانیوں کا ہونقوں کی طرح تماشا کیا۔ اب آپ ذرا ہمارے ہاں کا حال سنیے۔ آپ کسی بھی گاؤں میں جائیں اور کسی راہ چلتی جوان عورت سے کسی کے گھر کا پتہ پوچھ کر دکھائیں۔ وہ تڑاخ سے جواب دے گی ’’بے شرم! تیرے گھر میں ماں بہن نہیں ہے کیا؟ ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑے فرق محمداؔ بولیاں دے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بڑا فرق ہے بھائی جی، آپ کے اور ہمارے ماحول میں ’’تُسیں سخی تے سیانے، اَسیں کملے تے جھلے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تہاڈے ویہڑے روشنائیاں، ساڈا دیوا وی نہ بلے‘‘ (آپ سخی اور دانا ہیں، ہم کم عقل اور دیوانے ہیں، آپ کے صحن میں روشنیاں ہیں، ہمارا چراغ بھی نہ جلے) جتنی لوڈ شیڈنگ ہمارے ہاں ہوتی ہے، آپ کے مقدر میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ آپ بڑے بڑے افسروں سے بھی خود اعتمادی سے بات کرتے ہیں، ہمیں سپاہی بھی نظر آجائے تو ہاتھ ماتھے پر رکھ کر کہتے ہیں ’’صاحب سلام‘‘۔ آپ کے لیے اربوں روپے سے میٹرو بس اوراورنج ٹرین جیسے منصوبے بنتے ہیں اورہماری گھٹیا میٹریل سے بنی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جائیں تو انہیں مرمت تک کوئی نہیں کرتا۔ اپنے پینڈو پن کی باقی باتیں اگلے کالم میں عرض کریں گے۔ آج کی گفتگو ’ہائے اوئے میرا فیم‘ باقر وسیم کی اس پنجابی غزل پر ختم کرتے ہیں۔

دکھ دے بھانبھڑ بال گراں وچ وسنے آں
مگھر، پوہ، سیال گراں وچ وسنے آں
کھا کے تیر ہجر دے شہروں نکلے ساں
جُثے رتے لال، گراں وچ وسنے آں
کَسیّاں پینڈے دُور دُراڈے کیتے نیں
اُنج تے تینڈے نال گراں وچ وسنے آں
توں تے میں ای لگی توڑ نبھائی اے
بس دو لجپال گراں وچ وسنے آں
سنیاں اے، توں ہاسے ونڈا رہندا ایں
اسیں وی چکوال گراں وچ وسنے آں
ڈیرے لائیے باقرؔ سکھ دیاں ڈھوکاں تے
ڈاہڈے مندے حال گراں وچ وسنے آں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments