ہمیشہ دیرکر دیتا ہوں میں


\"sehrish-usman-2\"

میں منیر نیازی نہیں ہوں ایسا کوئی دعوی بھی نہیں ہے پر معلوم نہیں کیوں گمان گذرتا ہے کہ یہ جو ہمیشہ دیرکر دیتا ہوں میں ہے نا تو دراصل یہ الفاظ میرے تھے بیان منیر نیازی کے قلم سے ہوئے یا پھر یوں کہ میرا احساس انہیں الہام ہوا۔
خدا جانے یہ میری سستی، کم علمی ہے یاغیر انسانی حساسیت کے کسی بھی حادثے کو تسلیم کرنے اور اس پر رائے دینے پر جی آمادہ ہی نہیں ہوتا۔ رائے دینا بھی چاہوں تو تب تک اتنی دیر ہو چکی ہوتی ہے کہ حادثہ ہماری روایتی مٹی پاؤ پالیسی کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔
پھر لکھنا بھی چاہوں تو لکھ نہیں پاتی کہ حشک ہوتے زحم کریدنا بھی تو غلط ہی ہے نا، دادو کہا کرتی تھیں کہ ”باری ورسی تیان آئی تے ہسدیاں نو روان آئی“۔ کہ بہت دیر سے تعزیت کرنے آنے والے دراصل ہستے ہوؤں کو رلانے آتے ہیں۔ تو ہنستے ہوؤں کو کوئی کیسے رلا سکتا ہے۔ پر اب کہ درد دل میں سوا تھا۔
گو کہ ہمیشہ ہی دیر کر دیتی ہوں پر اس بار دیر کے بعد بھی میں کہنا چاہتی ہوں کہ میرے لفظ بہت چھوٹے ہیں اور نقصان بہت بڑا ہر جان قیمتی ہر زندگی اہم ہے۔ یر شخص کا جانا ایک خلا ہے ڈی سی چترال بھی جن کا تعلق بھی میرے شہر سے تھا۔ وہ ائیر ہوسٹس جن کی چھ ماہ کی بچی فون کان سے لگائے ماں کو بلاتی ہے۔ ساری عمر وہ بچی محبت کے عظیم لمس سے محروم رہنے والی ہے۔ اور اس کا تین سالہ بھائی جو موت کے ہجے بھی نہیں جانتا ہوگا لیکن پچھلے پانچ دن سے اس نے موت کے پرچھائیوں میں زندگی گزارنا سیکھی ہوگی۔ ہم آپ میں سے کوئی شخص اس بچے سے زیادہ موت کا مفہوم بیان کر سکتا ہے کیا؟
وہ پائلٹ جو فضاؤں میں رستے بنانا جانتا تھا، وہ جب زمین پر آرہا تو کیا بیتی ہوگی اس کی فیملی پر؟
اور ہاں!جنید جمشید وہ جس کا سانولی سلونی پہروں آپ گنگناتے ہوں اور اسی گنگناہٹ پہلی دفعہ آپ کو پتا چلا ہو کہ چوڑیاں چھن نہیں کرتیں شڑنگ کر کے کسی کے ہونے نہ ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔
اور جب آپ نے ہوش سنبھالنے سے بھی پہلے دل دل پاکستان کی دھن سن لی ہو۔ وہ اڑتا سفید کبوتر اور پیچھے کوئی گاتا تیرا کرم مولا! اور یکایک کرم ہو بھی گیا۔
ایک دن خوبصورت سی آواز کان میں پڑے اور کہے بھکاری بن کے آیا ہوں اور آپ سٹنڈ ہوجائیں۔ کہ یہ تو ہمارا قصہ ہے
“بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے۔
بھکاری وہ کہ جس کو حرص و ہوس نے مار ڈالا ہے“
واقعی وہ صرف اس کی آواز تو نہ تھی۔ وہ اسمیں چھپی التجا تھی تاثیر تھی جس نے رکنے پر سننے پر مجبور کیا۔ اور پھر سنتے ہی رہنے پر۔
جے ڈاٹ کی شرٹس کے رنگ بھی بھانے لگے ایک دن سنا اس نے کوئی بیان دیا ہے۔ رک کے سوچاکہ اس سے نفرت کی جائے پر اس کے دشمنوں کی زبانوں کے گند نے اس سے تعلق دوبارہ جوڑ دیا۔ مخالفین کی بھی کیا کہیے ہر ابن الوقت نے اپنا بغض نکالاایسا نہیں کے میرا اس کی کسی بات سے اختلاف نہیں تھا بہت سی باتوں پہ بہت سے اختلافات بہت سی ریزرویشنز تھیں پر وہ اس کی زندگی کے ساتھ تھیں وہ جب تک زندہ تھا ہمارا اختلاف زندہ رہا۔ لیکن بدھ کی شام طیارہ گمشدہ ہونے کی خبر سن کر اور یہ سن کر کہ جنید جمشید صاحب بھی موجود ہیں اس طیارے میں،
سارے اختلافات ختم ہو گئے
باقی رہا تو افسوس دکھ اور ملال ایک انسان کے کھونے کا ملال ایک بہترین شخص کے چلے جانے کا دکھ۔ پورا دن سوشل میڈیا سے دور رہنے کے بعد جب لاگ ان ہوئی تو معلوم پڑا ہم گدھوں کے معاشرے میں رہتے ہیں گدھ بھی وہ جو خالق کے نام پہ مذہب کے نام پہ اختیات بانٹتے جنت جہنم کی پلاٹنگ کرتے ہیں۔ جو موت کے بعد بھی نہیں بخشتے کسی کو۔
ہم بعد از مرگ بھی پورا حساب کتاب رکھتے ہیں کہ کون کہاں کہاں پہ کیا کیا کرتا کہتا رہا ہے۔ ہم کسی کی غلطی نہیں بھولتے کہ کہیں فرشتوں کے رجسٹر میں کچھ نوٹ کرنے سے رہ نہ گیا ہو اور کہیں مرنے والا بخشا ہی نہ جائے۔
کیسا دردناک ہے کہ ہم اب ہم آپ احساس کی دولت سے محروم ہو چکے ہیں۔ یقین کریں انسان کی موت پر ہمارا دل دکھ سے نہیں بھر جاتا یہ سراسر نقصان ہمارا نقصان ہے۔ مرنے والے کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس کے پیچھے کون کیا کہتا یا کرتا ہے اس کے سارے حساب کتاب سارے معاملات اس کے پیدا کرنے والے کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔
لیکن پیچھے بچ جانے والوں کو ضرور پڑتا ہے فرق نفرتوں کے زہر میں ڈوبی فضاؤں میں سانس لینا زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔

کیوں نا اب سے ہم گدھوں کی طرح لاشوں پہ منڈلانا چھوڑ ددیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments