لاہور کی مٹی کے پیالے


گورنمنٹ کالج کی صد سالہ تقریبات تھیں۔ پرانے طالب علم دور نزدیک سے بلائے گئے۔ بھارت یورپ اور امریکہ، سارے میں اولڈ راوین بکھرے پڑے ہیں۔ 19ویں صدی میں قائم ہونے والے اس ادارے نے شاندار روایات بنائیں اور ہزاروں طالب علموں کو اپنے رنگ میں رنگ کر دنیا بھر میں بھیجا۔ جانے کون کس بھیڑ میں جا کر ملا۔ کہاں کھویا گیا۔

اور اب ایک صدی کے بعد کالج نے اپنے گود کھلائے بچوں کو آواز دے کر بلایا ”آﺅ کہ جشن کریں“ سبھی نام رجسٹروں میں لکھ رکھے تھے۔ یہاں داخل ہونے والے شرمیلے ادھورے لڑکوں کے نام جو خوابوں سے لدے پھندے پراعتماد جوان بن کر رخصت ہوئے۔ جشن صد سالہ کا بلاوا گیا تو بہت سے چلے آئے۔ مگر سب کہاں؟ رجسٹروں میں لکھے کتنے نام تو وہ ہیں کہ جن کی قبروں پہ لمبی لمبی گھاس اگ چکی، اور بہت سوں کی راکھ دریاﺅں میں بہائی جا چکی، گورنمنٹ کالج میں ہندو سکھ طلبا زیادہ تعداد میں ہوتے تھے، ان میں جو زندہ تھے وہ 1947ء میں ہجرت کر گئے۔ ان کا تو کچھ پتہ نہیں۔ مگر ان کے پرانے پتے رجسٹروں میں محفوظ رکھے ہیں۔ اسی شہر کی جانی پہچانی گلیوں میں ان کے گھر تھے۔ بعض مکانوں کی پیشانی پر تو نام بھی لکھے ہیں۔ وہ نام جو سیمنٹ میں منجمد ہو گئے مگر شہر کے حافظے سے اتر گئے۔ دعوت نامے بھیجنے والوں نے جتن سے نئے پتے تلاش کئے اور پھر اخباروں کے ذریعے بھی تشہیر کی گئی تھی۔ اولڈ بوائز دور دور سے اور کشاں کشاں آئے۔

 اونچے میناروں والا گورنمنٹ کالج اس روز بہت پراسرار لگا جب دنیا بھر سے سفید بالوں اور عینکوں والے اولڈ بوائز یہاں اترے۔ ان سب میں کچھ نہ کچھ انوکھا پن تھا۔ ایک باوقار بورھا عنابی کوٹ اور فاختئی ٹائی کے ساتھ آیا۔ وہ اندھا تھا۔ عمر80سال۔ کالج میں سائنس کا پہلا طالب علم جو بعد میں ڈاکٹر بنا۔ اس نے کالج کے قریب آ کر ہاتھ جوڑے اور جھک کر مادر علمی کی چوکھٹ کو پرنام کیا۔ بلراج ساہنی تو خیر فنکار تھا۔ شدت سے جذباتی ہو رہا تھا۔ باہر سے آنے والے سبھی مہمان جذباتی ہو رہے تھے۔ انھوں نے جھک جھک کر پرانے درختوں کو سلام کیا۔ سکالرز گارڈن کے سامنے آ کر تو سب کی پلکیں بھیگ گئیں۔ سب کے دل میں بسا یادوں کا میلہ آنکھوں میں امنڈ آیا۔ زندگی کی وہ روشن صبح جب وہ یہاں داخلہ لینے آئے تھے۔ پھر وہ شاندار وقت جو یہاں گزرا۔ وہ جلسے ، کھیلیں ، تقریری مقابلے اور وہ دوستیاں جو یہاں قائم ہوئیں۔ اس ادارے کا اسرار۔ اس کے لان، زینے، کمرے اور وہ روشنی کے مینار جیسے نام سوندھی ،پطرس ،سراج ،کیسے کیسے نام ! اور پھر رخصت کا دن۔ الوداعی تقریب کا گھمبیر گہری شام جیسا رنگ، آخری گروپ فوٹو۔

جب نئے لڑکوں نے پرانے لڑکوں کی داستانیں سنیں تو حیران ہوئے۔ حیرت میں انھوں نے کالج کے در و دیوار کو نئے سرے سے دیکھا۔ کیا یہی وہ جگہ ہے جہاں شہر یاروں کی شہر زاد رہتی تھی۔ ہزاروں داستانیں رین بسیرا کرتی تھیں ! آج وہ نہیں جو کل تھامگر ان کے لیے جو بچھڑ کے ملے، آج کے دن میں بھی بہت کچھ تھا۔ کئی شناسا کلاس فیلو ایک دوسرے کے بوڑھے چہرے پر جوان آنکھوں کی وہ چمک ڈھونڈ رہے تھے۔ جو وقت کی دھند میں کہیں کھو چکی تھی۔ ویزا صرف ایک دن کا اور کالج کی حدود میں رہنے پر پابندی تھی۔ مگر کیسے ہو سکتا ہے مدتوں بعد کوئی لاہور آئے اور انار کلی نہ دیکھے۔ مال روڈ پر نہ گھومے۔ یادوں کے ماتے چھوٹے چھوٹے بچے بن گئے۔ آنکھ بچا کر باہر نکلے۔

بخشی سانیال حیران ہوتا رہا۔ وہ لندن سے صد سالہ تقریب میں شرکت کے لئے آیا تھا۔بخشی سانیال اپنے وقت میں کالج کا نامور طالب علم تھا۔   وہ رائے بہادر بخش چیت رام بیرسٹر کا پوتاتھا۔ بڑی زمینداری تھی اور برف کے کارخانے۔ اس کا پتہ کالج کی جوبلی کمیٹی کو کہیں سے نہ ملا۔ جب جشن کی تیاریاں زوروں پر آئیں تو ایک میلا کچیلا بوڑھا آدمی جشن کمیٹی کے چیرمین کے پاس آیا۔ صاحب آپ اس کالج کے پڑھے ہوئے لڑکوں کو بلانا چاہتے ہیں تو ہمارے چھوٹے صاحب کو بھی بلائیے۔ یہ انکا پتہ ہے اس نے ایک خط آگے بڑھایا۔ یہ خط لنڈن سے پاکستان کے کسی غلام رسول کے نام لکھا گیا تھا۔ لفافے کے پچھلی طرف بھیجنے والے کا نام اور لنڈن کا پورا پتہ خوشخط لکھا تھا۔ ایں یہ کون صاحب ہیں؟ یہ ہمارے چھوٹے صاحب ہیں بخشی سانیال صاحب۔ بخشی دانیال بیرسٹر کے بیٹے۔ آپ انھیں جوبلی پر ضرور بلاﺅ۔ وہ لاہور کو بہت یاد کرتے ہیں۔ پتہ چلا کہ وہ بوڑھا آدمی بخشی خاندان کا پرانا ملازم تھا۔ اور ابھی تک ان کو بھولا نہیں جبھی تو وہ خط لے کر چلا آیا تھا جس پر سانیال بحشی کا پتہ درج تھا۔ وہی سانیال بخشی جس کا نام کالج کے رول آف آنرز پہ لکھا تھا۔ لیکن تقسیم کے بعد وہ کہاں چلا گیا، کسی کو معلوم نہیں تھا۔

بخشی خاندان 1947ءمیں لاہور سے نکل گیا، مگر ہندوستان میں انھیں کوئی شہر بھی اچھا نہ لگا کوئی علاقہ لاہور جیسا نہ ملا جسے وہ اپنا دسرا وطن بناتے۔ انھوں نے لاکھوں کی جائیداد کے کلیم چھوڑ دئیے اور لندن جا بسے۔ ویسے بھی دانیال بخشی بڑے پائے کے بیرسٹر تھے اور بیٹا سانیال بخشی ایک برس پہلے گورنمنٹ کالج لاہور سے اعزازوں کے ساتھ لدا ہوا نکلا تھا۔ بی اے آنرز ریکارڈ توڑ پاس کیا تھا۔ ہاکی ٹیم کا کپتان ، سٹیج کااداکار۔ والدین اسے بیرسٹری کے لیے انگلینڈ بھیجنا چاہتے تھے۔ مگر سانیال کا دل لاہور میں اور گورنمنٹ کالج میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ یہیں سے ایم اے انگریزی کر کے پی ایچ ڈی کے لیے جانا چاہتا تھا۔۔ تقسیم میں اسے اپنے خواب چھوڑ کر جان اور عزت کے لیے بھاگنا پڑا۔ اب جو چوبیس برس کے بعد آیا تو سکتے کی حالت میں کھڑا کالج کے مینارتکتا رہا۔ اس کی پشتیں اس شہر میں آباد رہی تھیں۔ اسی وقت جب جشن کی تقریبات ہال کے اندر چل رہی تھیں وہ باہر نکل آیا اور پوری دوپہر پرانی دیواروں کی اینٹوں اور پرانے درختوں کا ہاتھ لگا کر اپنے آپ سے باتیں کرتا رہا۔ وہ اپنے کلاس روم میں گیا اور پہلی قطار کے تیسرے ڈیسک کو چھو کر دیکھا۔ جھک کر اس کی خوشبو سونگھی اور پھر لائبریری کے شیلف سے کتاب کھینچ کر ورق الٹے تو دیکھا جگہ جگہ حاشئیے میں اس کے ہاتھ کے نوٹس لکھے ہوئے تھے۔ میں ابھی یہاں ہوں۔ پھر وہ سیدھا سکالرز گارڈن میں اتر گیا۔ امتحان کی تیاری کے لیے وہ گھنٹوں یہاں بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا۔ تقریر کے لیے اچھے اچھے جملے وہ یہیں بیٹھ کر تراشا کرتا۔ وقت نے رنگ بدلا لیکن ہری گھاس کا رنگ نہیں بدلا۔ کیا یہ وہی گھاس نہیں۔ اس کی جڑیں تو وہی ہوں گی ، ایک مٹھی گھاس کی پتیاں توڑ کر اس نے اپنے بریف کیس میں رکھ لیں۔ پھر اپنے اوپر جھکے ہوئے درخت کا ایک پتہ توڑ کر کوٹ کی جیب میں دل کے پاس رکھ لیا، اس کے باپ نے کہا تھا، جب بھی موقعہ ملے لاہور ضرور جانا اور اپنی آنکھوں سے میرے لاہور کو دیکھنا۔ گورنمنٹ کالج کے سکالرز گارڈن سے درختوں کے پتے لے آنا۔ میں انھیں اپنی آنکھوں پہ رکھوں گا۔ تقسیم شدہ نسل کے لوگ سوکھے پتوں کی طرح آندھی کے دوش پر اڑ کے جانے کہاں کہاں جا گرے۔

یہ ایک بے حد جذباتی سفر تھا جو پچاس باون برس کے بیرسٹر نے اس نوجوان کی طرف کیا جو بڑے شوق سے کالج کے سٹیج پر رومیو ،ہیملٹ اورسیزر کے کردار کھیلا کرتا تھا اور زندگی کو خواب کی طرح دیکھتا تھا۔ وہ خود اپنی ذات میں خوابوں کا شہزادہ تھا۔ اس کے خوابوں میں لاہور کے باغوں کی ہوا تھی۔ بلبلوں کے گیت اور پریما گل۔ پریما اس کی کالج فیلو تھی اور محبوبہ۔ لمبی چوٹی اور سفید رنگت والی حسینہ۔ وہ پہلی لڑکی تھی جو کالج کے ڈراموں میں سٹیج پہ آئی۔ وہ نور جہاں بنی تو سچ مچ ملکہ لگنے لگی۔ ملکہ عالیہ نے شرط لگا دی کہ جہانگیر کا کردار سانیال ہی کرے گا۔ سانیال کو اردو کہا ںآتی تھی۔ اسے تو پنجابی اچھی لگتی تھی یا انگریزی۔ اس کی لگن دیکھ کر اس کے باپ کو فکر لگ جاتی۔ کہیں اکلوتا لڑکا اپنے آبائی پیشے سے ہٹ ہی نہ جائے۔ خاندان میں پشتوں کی وکالت تھی۔ شاندار لائبریری اور ہلکی پھلکی سیاست۔ ایک زمانے میں اس خاندان پہ لالہ لاجپت رائے کا اثر بھی رہا تھا۔

سانیال کو پورا احساس تھا کہ اس کے بعد وہ کبھی لاہو رنہیں آ سکے گا۔ اس کی بیوی نے تو اب بھی منع کیا تھا۔ مت جاﺅ۔ چھوڑی ہوئی جگہ جا کر ڈر لگا کرتا ہے۔ چلتے وقت اس نے کہا تھا جا رہے ہو تو بس کالج تک ہی رہنا۔ ادھر ادھر مت جانا۔ اگلے دن صبح سویرے جب وہ شہر کی دیواروں سے باتیں کرنے نکلا تو ڈر گیا۔ شہر بہت اجنبی لگا۔ راہ چلتے لوگوں میں کوٹ پتلون کچھ زیادہ ہی ہو گئے تھے۔

دھوتی کرتا اور پگڑی کہیں نظر نہ آئی۔ تانگے والے تک اردو بول رہے تھے۔ مال روڈ پہ اس نے چکر لگائے۔ چیرنگ کراس سے اوپر کافی کچھ بدل گیا تھا۔ لیکن ریگل تک بہت کچھ ویسا ہی تھا۔ پیپل کے بھاری درخت وہی تھے اور ان پر گاتے پرندے بھی شاید وہی تھے۔ پرندے سیاست نہیں کرتے۔ ہائی کورٹ کے عین پیچھے ان کی کوٹھی تھی مگر اس نے اس طرف دیکھنے سے بھی گریز کیا۔ چلتا چلتا وہ لوئر مال پہ اتر گیا۔ ریواز گارڈن کے درختوں کو دیکھتا ہوا وہ آگے بڑھا۔ مگر اسے ڈر لگنے لگا۔ یہ تو وہی جگہ تھی جہاں اس کی پھوپھی کا کنبہ مارا گیا تھا۔ کیوں نہ کسی کو ساتھ لے کر چلے۔ اسے شیخ نصیر یاد آیا ، اس کا ہم جماعت۔ کل کالج میں ملا تھا اور لنچ کی دعوت دے رہاتھا۔ اس وقت سانیال مڑا اور شیخ صیر کے گھر چلا گیا۔ دعوت وغیرہ کی بات چھوڑو چلو میرے ساتھ سڑکوں پہ گھومو اور اگر کچھ کھانا ہی ہوا تو پرانی انار کلی سے چوری کچوری کھائیں گے اور پیڑے کی لسی اسی دکان سے کیا نام تھا… لالہ سوجی مل … وہ رک گیا۔ وہ دکان اب جالندھر والوں کی ہو گئی۔ شیخ اسے بتانے لگا۔

اور سوہن لال سکول کس کو ملا؟ وہ بھی جالندھر والوں کے قبضے میں چلا گیا۔ باتیں کرتے کرتے وہ لیک روڈ پر آ نکلے۔ سوہن لال سکول ابھی تک عمارت کی پیشانی پر لکھا تھا۔ یادوں کا ریلا بھنور بنانے لگا۔ وہ پہلا دن جب اس کا داخلہ ہوا۔ نئی یونیفارم، نیا بستہ، گھبرایا ہوا سا۔ ادھر ساڑھی والی خوبصورت مس کا دلاسہ۔ وہ اپریل کا مہینہ تھا۔ سکول کے صحن میں اناروں کے پھول بہت کھلے تھے۔ لیکن اب یہ اتنا تنگ کیو ں لگ رہا ہے۔ باغ… باغ تو رہا نہیں۔ کہاں چلاگیا؟ اس نے شیخ سے پوچھا۔ دیکھتے نہیں لوگوں نے کوٹھیاں ڈال رکھی ہیں۔ سکول کی جگہ ؟ ہاں۔ اب تو ہر جگہ کوٹھیاں بن رہی ہیں۔

سانیال کی نظریں سکول کی دیوار پر جم گئیں۔ یہ سڑک اس کے سامنے ہی تعمیر ہوئی تھی۔ سرخ سرخ اینٹیں، بڑی نفاست سے باریک ٹیپ کے ساتھ ایک بوڑھے راج نے بنائی تھی۔ سکول کی عمارت تو یوں بھی لوگ مندر سمجھ کر ہی بناتے تھے۔ سکول والوں نے تو حفاظت کے لیے دیوار بنوائی تھی۔ مگر دوسرے ہی دن وہاں کسی نے فلم کا بڑا پوسٹر لگا دیا۔ کتنا غصہ آیا تھا مس راﺅ کو۔ سیکنڈ ہیڈ مسٹریس نے اپنی نگرانی میں پوسٹر صاف کرایا۔ اور پھر آخر کو وہ تختی لگوائی گئی جس پر لکھا تھا اس دیوار پر پوسٹر لگانے والا حوالہ پولیس کیا جائے گا۔ اب پوسٹر لگنے بند ہو گئے۔ مگر سیاسی نعرے لکھے جانے لگے، سرفروشی کی تمنااب ہمارے۔۔۔ بھارت ماتا کی جے۔۔۔۔ بن کے رہے گا پاکستان ! وقت گزرتا رہا۔ نعرے تیز سے تیز تر ہوتے رہے اور پھر کئی سال بعد ایک دن وہ آیا کہ شہر کے سارے رنگ اڑ گئے۔ خبریں آئیں۔ پنڈی میں، نواکھلی میں، کلکتے میں لوگوں نے ایک دوسرے کے گھر جلا دئیے۔ پیٹ پھاڑ دئیے اور گردنیں کاٹ دیں۔ لاہور کو بھی خطرہ تھا۔ ان دنوں سکول بند تھا اور مس راﺅ امن کمیٹی کی ممبر بنی چپل گھسیٹتی دن رات کام کرتی پھر رہی تھی۔ وہ استانی تھی نا۔ ہر مذہب کے بچے کو اپنا بچہ سمجھ کے تعلیم دی تھی۔ اسے بڑا حوصلہ تھا کہ وہ سب کو سمجھا لے گی۔ مس راﺅ سفید جھنڈا اٹھا کر دیوار کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ وہی مس راﺅ جسے دو ماہ بعد بلوائیوں نے قتل کر دیا۔ کوئی کہتا تھا سفید جھنڈے کے لیے۔ کوئی کہتا ان کے گلے میں پڑی سونے کی زنجیر کے لیے۔

شیخ ہسنے لگا۔ تو تم اب تک دیوار کے لیے ہی سوچے جا رہے ہو۔ میں اپنے سکول کے سامنے کھڑے ہو کر اور کیا سوچ سکتا ہوں؟ اور پھر وہ جیسے پھوٹ پڑا ہو۔ ”میرا ویزا مجھے ایک سڑک سے آگے جانے کی اجازت نہیں دیتا میں یہاں کا شہری تھا۔ اس شہر میں میرا گھر تھا اور میری جڑیں اس دھرتی میں کتنی گہری تھیں۔ مجھے کھود کر نکال دیا گیا۔ لیکن میں جاتے جاتے بھی تھوڑا سا لاہور اپنے دل میں چھپا کر لے گیا۔ وہاں لندن میں میرے تعارف کا حوالہ آج بھی یہی ہے۔ سانیال بخشی فرام لاہور۔ اس جڑ کو میرے دل سے کھود ڈالنا ممکن نہیں۔ لیکن آج یہ شہر مجھے اتنا ہی اجنبی لگ رہا ہے جتنا کوئی اور شہر۔ میں ایک جلاوطن ہوں۔ ‘ ‘ کچھ دیر رکا اور پھر بولا ”ہاں میں برکت مالی کے کنبے سے ملنا چاہتا ہوں۔ رحما سائیس ہمارے ہاں ٹانگہ چلاتا تھا۔ پتہ نہیں وہ لوگ کہاں کہاں رہتے ہیں۔خیر غلام رسول بتا دے گا۔“

 ”غلام رسول؟“ ہاں وہ ہمارا رسویا تھا۔اسے میں خط لکھتا رہتا ہوں۔

تمہارا باورچی مسلمان تھا ؟ شیخ نصیر نے جذباتی تناﺅ کو کم کرنے کے لیے پوچھا۔ ورنہ مانی بات ہے کہ مغلوں کے وقت سے متمول ہندو سکھ گھرانوں میں باورچی مسلمان ہی رکھے جاتے تھے۔ سانیال بخشی اسے بتانے لگا ”صدیوں سے ہمارا خاندان زمینوں سے جڑا ہوا ہے۔ سبھی بڑے زمینداروں سے مراسم تھے۔ روز دعوتیں ہوتیں۔ جن میں گوشت پکتا۔ مرغ روسٹ اور بٹیرے بھوننے کا کام کوئی ہندو سویا تو کر نہیں سکتا تھا۔ تو ان زمیندار دوستوں سے ملنے نہیں جاﺅ گے۔ کم از کم جو لاہور میں ہیں۔ شیح نے اسے ٹٹولا۔

 ”ان میں سے کسی سے بھی ملنا نہیں چاہتا۔ وقت پہ سب نے دغا دی۔ سبھی چاہتے تھے، ہم یہاں سے نکال دئیے جائیں۔ یہ مذہب یا سیاست کامعاملہ نہیںتھا۔ ان میں سے اکثر ہمارے مقروض تھے۔“

”مقروض تھے؟ تمہاری ٹکر کے لوگ۔ “ شیخ نے پوچھا

سانیال بتانے لگا ”میرے باپ دادا کی لاکھوں کی جائیداد تھی۔ اپنی زمینداری کو انھوں نے ترقی دی۔ مزارع کی حالت کو بگڑنے سے بچایا۔ کاشت کے نئے تجربے کئے، باغات لگوائے اور ساتھ ہی کارخانے۔جبکہ دوسری طرف پس ماندگی تھی اور عیاشی، کتنے بڑے بڑے زمینداروں کی زمینیں گروی پڑی تھیں۔“

”اور وہ جو خانساماں، بھنگی اور سائیس وغیرہ سے ملنے کی بات کر رہے ہو؟ “

”ان کے پاس ضرور جاﺅں گا، وہی تو لوگ تھے جن کی وجہ سے ہم قتل ہونے سے بچ گئے۔ ہماری لڑکیاں اغوا نہیں ہوئیں۔ کوٹھی نہیں لوٹی گئی۔ کم از کم ہمارے سامنے نہیںلوٹی گئی۔ اور یہ سب مسلمان تھے۔ جھگڑا ہندو مسلمان کا نہیں تھا جھگڑا تو ان کا تھا جنھوں نے بعد میں کوٹھیوں اور جائیدادوں پر قبضے کئے۔ “

”تم کیسے کہہ سکتے ہو تمہاری کوٹھی تمہارے نوکروں چاکروں نے نہیں لوٹی؟ “

”میں اچھی طرح جانتا ہوں بھائی۔ انھوں نے پوری نگرانی کی۔ کتے گھوڑے تک سنبھالے رکھے جب تک کسٹوڈین والے اور سیاسی لیڈرمل کر نہیں پہنچ گئے۔ اس وقت کوٹھی میں تین مسلمان کنبے آباد تھے اور ایک بھنگی کنبہ۔ نکلنے سے پہلے پتا جی نے تجوریوں کا مال اور عورتوں کے زیورات اتروا کر چار کنستروں میں بھرااور ایک ایک کنستر ہر ایک کوارٹر کے کنبے کو دے دیا۔ اس خیال سے کہ اگریہ لوگ مار بھی لیں تو بھی لٹ جانے سے اچھا ہے۔ آخر انھوں نے برسوں خدمت کی تھی۔ ایک کنستر میں کم از کم پانچ لاکھ کا مال تھا۔ “

”تب تو وہ لکھ پتی ہو گئے ہوں گے۔“

”نہیں انھوں نے وہ کنستر زمین میں گاڑ دئیے۔ کسی نے کھول کر اس دولت کودیکھا تک نہیں۔ فسادات ختم ہونے پر جب پتا جی ایک دن کے لیے یہاں آئے اپنے کاغذات اور کتابیں لے جانے کےلئے تو ان چاروں نے کنتسر نکال کر حوالے کر دئیے بلکہ سر پہ اٹھا کر سرحد تک چھوڑ آئے۔ وہی دولت تھی جس کی مدد سے ہم انگلستان جا کر اچھی طرح سیٹل ہو سکے۔“

پھر فلائٹ سے دو گھنٹے پہلے بخشی سانیال دھوبی منڈی کی ایک تنگ گلی میں غلام رسول کے گھر کھانا کھانے گیا، کتنا بوڑھا ہو گیا تھا ان کا خانساماں مگر اس نے بھنے بٹیرے اپنے چھوٹے صاحب کے آگے رکھے اور پنکھا جھلتے ہوئے بتانے لگا ”صاحب آپ کی کوٹھی کا برا حال کر دیا ہے پناہ گیروں نے، ابھی تک آپ کے سامنے کا رنگ سفیدی چل رہا ہے، کوئی ذرا سی مرمت نہیں کراتا۔ اور باغ تو بالکل اجاڑ دیا ہے۔ پھل دار درخت کٹوا دئیے۔ میں تو کوارٹر چھوڑ کر یہاں چلاآیا۔ خود غلام رسول کے حالات کیا تھے ایک لڑکا تو آوارہ نکل گیا تھا۔ دوسرا سٹیشن پہ قلی ہو گیا۔ تیسرا جو کچھ پڑھ گیا تھا وہ کسی سیاسی پارٹی کا کارکن بنا زندہ باد مردہ باد کرتا پھرتا ہے۔ “

بخشی سانیال اپنے بیگ میں کپڑے رکھتے ہوئے سوچتا رہا۔ زندگی کے یہ دو دن کتنے اہم رہے۔ ایک بار میں نے وہی پیپل کے درخت دیکھ لئے۔ وہی کیسر کے پھول، انھیں سڑکوں پہ قدم رکھے جن پر اس کے بڑے چلتے رہے تھے۔ یہ میرا شہر تھا۔ یہاں میری گلیاں تھیں۔ میرا سکول تھا۔ میری انارکلی تھی۔ دیس نکالے کا درد دل سے کبھی گیا نہیں۔ دل کیسا خالی خالی لگ رہا ہے واپسی کے سفر میں !

پھر جب جہاز اونچا اٹھا تو اس نے کھڑکی سے شہرکامنظر دیکھا۔ مکان۔ بے شمار مکان ! مینار ، مقبرے۔ ”میں اکیلا ہی تقسیم نہیں ہوا۔ خود لاہور کے دل یں بھی دراڑ پڑی ہے۔ “

سانیال بخشی کا جہاز لاہور کی حد سے نکل گیا تو وہ اپنے بیگ میں مٹی کے پیالے سنبھالنے لگا جو پریما کی فر مائش پر چوبرجی چوک کی دوکان سے خرید کر لے جا رہا تھا۔ لندن اس کے دیسی دوست بڑی شان سے بتاتے ہیں ”یہ پیالے ہمارے آگرے کی مٹی کے ہیں۔“ اب کم از کم ایک دعوت میں تو وہ بھی کہہ سکے گا۔ ”یہ پیالے میرے لاہور کی مٹی کے ہیں۔“

افضل توصیف
Latest posts by افضل توصیف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments