کہانی ختم ہوئی – چراغ شب افسانہ


\"husnain

ہر بڑے آدمی کی موت پر کہا جاتا ہے کہ یہ خلا اب کبھی پر نہیں ہو گا۔ پھر وقت اس خلا کو پر کر دیتا ہے۔ کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ خلا وغیرہ ایسے ہی ہوائی باتیں ہیں، بس ٹھیک ہے، مرحوم اپنی جگہ اہمیت رکھتے تھے لیکن دنیا کے کام ان کے بغیر بھی چلیں گے، اور کام چلتے ہی رہتے ہیں۔ صرف ایک مرتبہ ایسا لگا کہ نہیں، اب جو خلا ہے، وہ پر نہیں ہونے والا، جو مرضی ہو جائے، وہ کرسی اب خالی رہے گی۔ اب کوئی نہیں بیٹھنے والا اس پر، وہ کرسی انتظار حسین کی کرسی ہے۔
کہیے کہ یہ بات عقیدت میں کی گئی، بالکل ٹھیک رائے ہو گی، لیکن بس ہے اور ہر آنے والے دن میں، ہر نئے کتابی میلے میں، ہر سیمینار پر، ہر ایسی کانفرنس میں جہاں ادب پر بات ہو یہ کرسی خالی نظر آتی ہے اور ان کے نہ ہونے کا احساس مزید شدت سے ہوتا ہے۔ آخری برسوں میں انتظار صاحب ایسے دل کھول کر اور لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرتے تھے کہ مزا آ جاتا تھا۔ خوش قسمتی ہے، کئی بار ان کو سننے کا اتفاق ہوا، کبھی ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ کوئی پرانی بات کر رہے ہیں۔ بات دہرا بھی رہے ہوتے تو ہر مرتبہ ایک نیا کونٹیکسٹ ہوتا۔ پھر یہ ہوا کہ ان کے بعد، اس ایک برس میں یہ شوق بتدریج کم ہوتا گیا کہ ٹک کر، بیٹھ کر کوئی کانفرنس یا ادبی میلہ اٹینڈ کیا جائے۔ معلوم نہیں کیوں لیکن ایسا تھا کہ یہ سلسلہ مشروط تھا انتظار صاحب کی موجودگی سے، ان کے بات کرنے سے، ان کو دیکھنے سے، ان کو آس پاس محسوس کرنے سے۔
ان سے کسی قربت کا، دوستی کا، جان پہچان تک کا دعوی نہیں ہے۔ سرسری کئی ملاقاتیں تھیں۔ کچھ ایسا جسے شاید ادب احترام کہہ لیں، درمیان حائل تھا اور شاید اسی وجہ سے ان کے سامنے بات منہ سے نکلتی بھی نہیں تھی۔
ہوتا یہ تھا کہ جب بھی انتظار حسین آتے، اکثر آصف فرخی ساتھ موجود ہوتے تھے۔ وہ کہہ لیجیے ان کے بیٹے تھے، بھائی تھے، دوست تھے، ہم عصر تھے یا کبھی کبھی تو ہم سفر بھی ہوتے تھے۔ ان سے انتظار صاحب کی باتیں سننے، ان کو جاننے کا بہت لطف آتا تھا۔ کئی بار باتوں میں ان کا ذکر چھڑتا اور فرخی صاحب بولتے چلے جاتے، ایسے بات کرتے جیسے گھر کا ہی قصہ ہے، اور تھا!

\"asif-farrukhi-intizar-hussain-book\"
فرخی صاحب پچھلے دو برس سے جب بھی آتے ایک مسودہ ساتھ ہوتا۔ معلوم تھا کہ انتظار صاحب پر وہ کچھ کام کر رہے ہیں۔ استادوں کو زیادہ کریدا نہیں جاتا، وقت آنے پہ ہر بات کا جواب مل جاتا ہے، نہیں کریدا اس کتاب کے بارے میں۔ محمود الحسن سے ملاقات ہوتی تو کچھ پتہ لگ جاتا، پھر ایک مرتبہ وہ آئے تو انہوں نے بتایا کہ بس مکمل ہونے والی ہے اور انتظار صاحب کو مسودہ دکھانے لایا ہوں۔
کتاب کا مسودہ مکمل ہو گیا لیکن جب وہ ان ہاتھوں میں آیا تو انتظار صاحب کے انتقال کو چند دن گذر چکے تھے۔ فرخی صاحب ان کے تعزیتی پروگرام میں شرکت کے لیے آئے، اداس سی ملاقات ہوئی۔ کتاب کا پوچھا تو مسودے کے پرنٹ آؤٹ تھما دیے۔ انتساب انجن ہاری کے نام تھا۔ مسلسل تخلیقی عمل کے پیرائے میں انجن ہاری کو انتظار صاحب نے افسانہ نگاری کا پیغمبر کہا تھا۔ کہ جیسے وہ مٹی سے گھر بناتی ہے، ایک ایک چیز جوڑتی ہے، ویسے ہی افسانہ نگار بھی لگا رہتا ہے اور کچھ نہ کچھ بن لیتا ہے، بنا لیتا ہے۔ صرف لفظ ”انجن ہاری“ پڑھ کر مور، بیر بہوٹیاں، کوئل، شاما چڑیا، نیم کے درخت اور وہ پورا ماحول آنکھوں کے سامنے گھوم گیا جو انتظار صاحب کی کہانیوں کا خاصہ ہے۔ یوں سمجھیے جیسے فلموں میں کوئی گانا سن کر ایک دم فلیش بیک ہوتا ہے بس کچھ ویسا ہی سین تھا۔
کتاب چھپ گئی۔ چراغ شب افسانہ اس وقت ہاتھ میں ہے۔ ایک عاشق کا دوسرے عاشق کو خراج کہہ لیجیے، ایک مکمل ادبی سوانح جان لیجیے، تنقید پڑھنے کا شوق ہے تو زود ہضم تنقیدی جائزہ سمجھ لیں اور تحقیق کرنا سمجھتے ہیں تو ذرا مواخذ پر نظر کیجے۔ اردو ادب میں ایک سوانحی جائزہ میر انیس کا تھا جو نئیر مسعود نے مکمل کیا تھا، دوسرا ادبی و سوانحی جائزہ یہ ہے جو اس قدر عرق ریزی سے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ کام اس قدر محنت طلب ہے کہ ایک شخص جو ادبی میلوں کی رونق بھی بڑھاتا ہو، نوکری بھی کرے، انگریزی اخبار میں بھی لکھے، اردو رسالہ بھی نکالے، خود اردو میں کالم بھی لکھے، کتابیں بھی چھاپتا ہو اور مسلسل تازہ ترین عصری ادب بھی پڑھتا ہو، وہ کیسے کر سکتا ہے؟ کس وقت کرتا ہے؟ فی الحال صرف یہ سوال ذہن میں ہے!
انتظار صاحب کا علمی سفر بڑے جذب، محبت اور بے لاگ تنقید کے ساتھ بیان کرتے کرتے وہ ایک جگہ کہتے ہیں، ”وہ بس کہانی کے معاملے میں بنیاد پرست ہیں، اشفاق احمد اور اپنے بعض دوسرے معاصرین کی طرح دیگر معاملات میں نہیں۔ “ پڑھنے والے کے دماغ میں ایک دم جھماکا سا ہوتا ہے اور وہ انتظار صاحب کی زندگی کا فلسفہ اس ایک سطر میں سمویا ہوا جان لیتا ہے۔ منٹو کے بعد انتظار صاحب پاکستان کے سب سے اہم افسانہ نگار تھے، عمر میمن کی کہی یہ بات بھی کتاب میں لکھی ہے، لیکن وجہ شاید اس کی بھی یہی ہے۔ رجعت پسند، ترقی پسند، لیفٹیسٹ، رائیٹسٹ، پروگریسو اس سب کی جنگ سے باہر کھڑے انتظار حسین تماشا دیکھتے تھے اور پرانی جاتک کتھاؤں میں سے اپنا راستہ بناتے گذرتے چلے جاتے تھے۔

\"asif-farrukhi-intizar-hussain\"
دیباچے میں ایک ٹرم استعمال ہوئی، ”اس کی موسیقی کی موسیقی“ یعنی کسی بھی چیز کی روح تک پہنچ کر اس سے لطف اندوز ہونا، اس کی بازگشت محسوس کرنا۔ اس لفظ سے جیسے موسیقی کی گونج سنائی دینے لگتی ہے، تو انتظار صاحب کے جہان فن کے لیے یہ لفظ استعمال کیا گیا، درست کیا، لیکن اس کتاب میں بھی انتظار صاحب کی موسیقی کی موسیقی ہر ہر لفظ پر سنائی دیتی ہے۔ ایک اورا ہے ان کا جو ہر سچے عاشق کو جکڑ لیتا ہے، اور ہر اگلا صفحہ آپ ان کو دریافت کرنے کی چاہ میں پڑھتے چلے جاتے ہیں۔
“نادر شاہ ایک دفعہ ہاتھی پر سوار ہوا اور کہا کہ اس کی باگیں میرے ہاتھ میں دو، مصاحبین نے عرض کی کہ ہاتھی کی باگیں نہیں ہوتیں، وہ ہاتھی سے اتر گیا اور کہنے لگا کہ میں ایسی سواری پر سوار نہیں ہونا چاہتا جس کی باگیں میرے ہاتھ میں نہ ہوں۔ ڈرامے اور افسانے میں یہی فرق ہے۔ ڈرامے کی باگیں ڈرامہ نگار کے ہاتھ میں نہیں ہوتیں۔ کبھی اداکار گڑبڑ کر جاتے ہیں، کبھی پروڈیوسر، اور سارا ملبہ لکھنے والے والے پر پڑتا ہے۔ “ ایک انٹرویو میں کہنے کے باوجود انتظار صاحب نے ڈرامے بھی لکھے، ان ڈراموں پر ضیا محی الدین اور اب فرخی صاحب کے علاوہ شاید ہی کسی نے کچھ لکھا ہو۔ ایک مکمل باب ان کے ڈراموں کے بارے میں موجود ہے۔
ڈرامہ، افسانہ، ناول، صحافت، ترجمہ، یاد نگاری، سفرنامہ، بچوں کا ادب، تذکرے، خاکہ نگاری، تنقید، جاتک کتھائیں غرض جہاں جہاں انتظار صاحب اپنے اشہب قلم پر سوار دوڑتے چلے گئے، ہر ایک میدان کا مکمل احاطہ نظر آتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے کسی دور میں شاعری بھی کی تھی لیکن چوں کہ وہ خود اس کا ذکر بھی اتنا نہیں کرتے تھے اور نہ ہی دلچسپی رکھتے تھے تو شاید اسی لیے مصنف نے بھی زیادہ نہیں ڈھونڈا، یقین ہے کہ ڈھونڈتے تو اسے بھی برآمد کر لیتے۔ اس کتاب کی تکمیل کے دوران بارہا انتظار صاحب سے رائے لی گئی لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے کسی خیال کو مصنف کی رائے پر حاوی نہیں ہونے دیا، شاید احترام تھا جو انہیں انتظار صاحب کی شاعری کھوج نکالنے سے باز رکھ پایا۔
“میری نانی جان کے انتقال کے ساتھ افسانہ نگاری کا ایک پورا دور ختم ہو گیا۔ “ یہ بات انتظار صاحب نے کسی مضمون میں کہی، اس کتاب میں بھی موجود ہے، کئی بار ان کو خود بھی کہتے سنا لیکن یہ بات ہے بہت اہم، اس بات کو مارکیز نے کیا، خود فرخی صاحب اپنے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں، اشرف صبوحی کو پڑھیے، ناصر نذیر فراق کو دیکھیے، ضمیر حسن دہلوی، فیروز دہلوی، فقیر خود اسی معاملے کا اسیر ہے۔ دادیوں نانیوں کی کہی گئی کہانیاں ہمیں تمام عمر کے لیے تخیل کی ایک دنیا دے جاتی ہیں۔ بچہ جب کہانی سنتا ہے تو وہ خیالوں میں ایک دنیا بنا لیتا ہے۔ بڑا ہوتا ہے تو اکثر وہ دنیا بلبلے کی طرح برسٹ ہو جاتی ہے، جو اسی بلبلے میں قید رہ جائیں وہی بدنصیب اکثر الفاظ کی دنیا میں گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب یہ کرافٹ پر منحصر ہے کہ کون کتنا کامیاب ہو۔ کہانی سنانے کا گر جسے آ گیا وہ انتظار حسین ہوا، عبداللہ حسین ہوا، مستنصر حسین ہوا، نئیر مسعود ہوا، اور جسے نہ آیا وہ اپنی ہی آنچ پر پکتا رہا، زیادہ پک گیا تو فلسفے کی جھونک لے گئی، کم پکا تو شاعری کرتا رہا۔ خیر جو بھی کیا، کتاب اسی کی بکی جس کا کرافٹ لوگوں نے دل کے قریب جانا۔ جتنے مرضی گھسے پٹے اعتراضات ہوتے رہے، وہ اپنی کشتی چلاتا چلاتا آرام سے ایک سمت نکل گیا۔

کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments