نکلسن روڈ کے بھیا جی


 پاکستان نیا نیا بنا تھا ۔ لاہور میں بے شمار مکان اور دکانیں خالی تھیں لیکن مہاجر قافلوں کے ساتھ آنے والے ایک میاں بیوی نے نکلسن روڈ پر ایک شیشم کے پیڑ کے نیچے ڈیرہ لگا لیا۔ انہوں نے یہاں پان سگریٹ کا خوانچہ رکھ لیا۔ قریب ہی پیتل کے بڑے سے برتن میں پانی پر پان کے ہرے ہرے پتے تیرتے ۔ سگریٹ سلگانے کے لیے دیا جلتا رہتا تھا۔ دن بھر میں تھوڑی بہت بکری ہو جاتی اور دونوں میاں بیوی رات کو روٹی کھا کر وہیں سو رہتے۔ اپنے کام سے کام رکھتے اور خاموش بیٹھے رہتے ۔ وہ ریلوے سٹیشن کی طرف رخ کرکے بیٹھے تھے کہ وہیں سے وہ اس شہر میں پہنچے تھے۔ مرد کا نام نیامت علی تھا اور خاتون کو سب بڑی بی کہتے تھے۔ ان کا کوئی بچہ تھا اور نہ رشتہ دار۔ کبھی کبھار بڑی بی اکیلی بیٹھی نظر آتیں کہ ان کا میاں منڈی سے سودا خریدنے چلا جاتا تھا۔وقت گزرتا گیا۔ علاقے میں ان کی عزت ہونے لگی۔ کچھ لوگوں نے انہیں اپنی دہلیز پر دکان بنانے کی دعوت دی مگر وہ شیشیم کی چھاﺅں میں خوش تھے۔ دور سے ہمسایوں کو اس طرح دیکھتے جیسے وہ ان کے اپنے بہن بھائی ہوں۔ بچوں کو اومنی بس میں بیٹھے دیکھ کر خوش ہوتے جیسے ان کے اپنے بچے سکول جا رہے ہیں۔ پھر کسی نے انہیں رہنے کے لیے ایک کمرہ دے دیا جسے بڑی بی نے سیگرٹ کی خالی ڈبیوں سے بنی جھالروں سے سجا لیا۔ اندھیرا پھیلتا تو ان کے کمرے کی دیواروں پر چپکائی سیگرٹ کی پنیاں مٹی کے دیے کی لو میں چمکتی بہت بھلی معلوم ہوتیں۔
نیامت علی کو معلوم تھا کہ پورے محلے میں کون کس برانڈ کے سیگرٹ پیتا ہے ۔ وہ ڈبیا تیار رکھتا مگر گاہک کی طرف سے اشارہ ہوتا تو ڈبیا کی طرف ہاتھ بڑھاتا۔ بہت سے گاہک اسے مہینے کی پہلی تاریخ کو پیسے دیتے۔ آدھا مہینہ گزرنا تک اس کا خوانچہ خالی ہونے لگتا لیکن وہ کسی سے پیسوں کا تقاضا نہیں کرتا تھا۔پہلی تاریخ آتی ، مستقل گاہک حساب چکاتے تو اس کا خوانچہ پھر سے بھرجاتا۔ چوہدریوں نے اپنا مکان گرا کے پھر سے تعمیر کیا تو نیامت علی کے لیے ایک چھوٹی سی دکان بھی بنوا دی مگر اس نے دکان لینے سے انکار کر دیا۔ وہ شیشم کی چھاﺅں ہی میں خوش تھا۔ وہ شیشم کا محافظ تھا اور شیشم اس کا محافظ۔ واپڈا کے اہلکار تاروں تک پہنچنے والی شاخیں کاٹنے آتے تو اسے بہت دکھ ہوتا۔


ایک روز میں ہمت کر کے نیامت سے سیگرٹ خریدنے گیا۔ اس نے مجھے دیکھ کر کہا ، ’بیٹا تمھارے کھیلنے کودنے کے دن ہیں ۔ ان پیسوں سے پھل خرید کر کھا لو یا کرائے پر سائیکل لے کر کمپنی باغ میں سیر کرو۔ معلوم ہوا کہ وہ محلے کے کسی بچے کو سیگرٹ یا پان نہیں بیچتا لیکن بچوں کو پاس بٹھا کر ان کا حال پوچھتا اور انہیں پڑھنے لکھنے کی نصیحت کرتا۔ ڈاکٹر عبدالصمد کا کلینک پاس ہی تھا ۔ ڈاکٹر نے اسے رات کو اپنا خوانچہ رکھنے کے لیے کلینک کی چابیاں دے دیں۔ صبح سویرے دونوں میاں بیوی اپنا خوانچہ باہر نکالتے، کلینک صاف کرتے اور بہشتی سے دکان سے باہر چھڑکاﺅ کرواتے۔ اگر کوئی مریض ناوقت آپہنچتا تو نیامت علی اسے ڈاکٹر کے گھر چھوڑ آتا۔ رفتہ رفتہ محلے بھر کی سب دکانوں کی چابیاں نیامت علی کے پاس آگئیں۔ کئی خاندان گھر سے باہر جاتے ہوئے چابی نیامت علی کو دے جاتے تاکہ اہل خانہ کی غیر موجودگی میں گاﺅں سے آنے والا کوئی رشتہ دار پریشان نہ ہو۔
جب کبھی کارپوریشن کا ٹرک تجاوزات پر چھاپہ مارنے آتا تو دونوں میاں بیوی بہت پریشان ہوتے۔ اپنا خوانچہ کسی کی دکان میں رکھتے ہوئے وہ بہت شرمندگی اور بوجھ محسوس کرتے تھے۔ محلے کے بچے جوان ہوتے رہے، جوان بچوں کے ماں باپ بن گئے اور دفتر جاتے ہوئے نیامت علی سے ادھار سگریٹ خریدنے والے ریٹائر ہو کر اس کے پاس بیٹھنے لگے لیکن نیامت علی کے خوانچے پر پان کے پتوں سے بھرا پیتل کا برتن دیے کی لو میں ہمیشہ کی طرح چمکتا رہا۔
نیامت علی اور بڑی بی کے بال سفید ہونے لگے۔ خد و خال وہی لیکن بال سفید۔ نیامت علی کے ہاتھ کانپنے لگے اور بڑی بی کی ذمہ داری کچھ اور بڑھ گئی۔ وہ پان لگاتیں اور گاہکوں کو ڈبیا سے سگریٹ نکال کر دیتیں۔ نیامت علی منڈی سے سودا لاتا اور روپے پیسے کا حساب کتاب کرتا۔
وقت نہیں گزرتا ہم گزر جاتے ہیں۔ ان کے پاس بلاناغہ آکر رکنے والا قلفی فروش گزر گیا۔ پیتل کے برتن لے کر نمکین سویاں دینے والا نہ رہا۔ پھر ایک روز ایسا آیا کہ پوری نکلسن روڈ بند تھی۔ معلوم ہوا نیامت علی کا انتقال ہوگیا ہے۔ جسے خبر ملی اس نے اپنی دکان بند کی اور جنازے کے ساتھ ہو لیا۔ کچھ دن بعد شیشم کے نیچے خوانچہ پھر نظر آیا۔ سب نے اصرار کیا کہ بڑی بی اب آپ کے آرام کرنے کے دن آگئے ہیں۔ آپ کو روٹی پانی اور ضرورت کے پیسے ملتے رہیں گے لیکن وہ نہ مانیں۔ انہوں نے اپنی روٹی تو کما لی مگر اداس شیشم کے نیچے زیادہ دن نہ بیٹھ سکیں۔ ایک روز پھر سے نکلسن روڈ بند تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments