انڈونیشیا کا سہارتو: غیراشتراکی آمریت کا انجام


انڈونیشیا کے سابق صدر جنرل سہارتو 27 جنوری 2008 کو 86 برس کی عمر میں جکارتہ میں انتقال کر گئے۔ سہارتو کی موت سے بیسویں \"wajahat1\"صدی کے آمروں کی ایک پوری نسل کا افسانہ گویا اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ آمروں کی یہ نسل 20ویں صدی کے دوسرے حصے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ان ممالک میں منظر عام پر آئی تھی، جنہیں نو آبادیاتی نظام سے نجات حاصل کئے زیادہ مدت نہیں ہوئی تھی۔ ان آمروں میں متعدد خصوصیات مشترک تھیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق فوج سے تھا۔ یہ لوگ جن حالات اور واقعات کے نتیجے میں اقتدار کی چوٹی پر فائز ہوئے تھے، انہیں عام الفاظ میں سازش کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کی اکثریت اشتراکیت کے حقیقی یا مصنوعی خطرے کی آڑ میں سرمایہ دار بلاک کو اپنے اقتدار کا جواز پیش کرتی تھی۔ یہ آمر اپنے عوام کی سیاسی امنگوں سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ انہیں سیاسی شعور کی اصطلاح ہی سے نفرت تھی۔آمروں کا یہ گروہ اپنے جابرانہ اقتدار کو سیاسی استحکام کا نام دیتا تھا۔ انہیں سیاسی عمل میں عوام کی شرکت سخت نا پسند تھی۔ انہیں اپنے آپ کو معاشی ترقی کا معمار قرار دینا پسند تھا۔ یہ غاصب ہر طرح کی سیاسی مخالفت کو پوری قوت سے کچلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پاکستان کے فیلڈ مارشل ایوب خان اپنے اقتدار کو معاشی ترقی کا عشرہ سمجھتے تھے تو انڈونیشیا کے سہارتو اپنے لیے ”بابا ئے ترقی“ کا لقب پسند کرتے تھے۔ فلپائن کے مارکوس ہوں یا انڈونیشیا کے سہارتو، ان پر مالی بدعنوانیوں کے ان گنت الزامات لگائے گئے۔ پاکستان کے \"suharto\"ایوب خان ہوں یا ارجنٹائن کے جوان پیرون، ان پر اقربا پروری کا الزام بھی لگایا گیا۔ چِلی کے پنوشے ہوں یا سنگاپور کے مطلق العنان حکمران، ان کی معاشی ترقی کا دعویٰ اقتصادی بحران کی معمولی لہروں کے سامنے بلبلے کی طرح پھٹ گیا۔ ایک اہم عنصر یہ تھا کہ ان میں  سے ہر غاصب حکمران کو عوامی غیظ و غصب کے نتیجے میں اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ انتقالِ اقتدار کا ادارہ جاتی بندوبست نہ ہونے کی بنا پر یہ لوگ جب اقتدار سے رخصت ہوئے تو انہوں نے اپنی قوموں کے لئے بحران، بے یقینی اور عدم استحکام کا ورثہ چھوڑا۔ اخباری اصطلاح میں زیادہ اعتدال پسند رائے لکھنے والے تجزیہ نگار ایسے غاصب حکمرانوں کی خوبیوں اور خامیوں کی فہرست ایسے تیار کر سکتے ہیں، جیسے پرائمری سکول کے طالبعلم سیلاب کے فائدے اور نقصانات لکھتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ترقی پذیر ممالک میں ناجائز طور پر اقتدار کو غصب کرنے کی روایت اشتراکی اور سرمایہ دار بلاک میں سرد جنگ کا شاخسانہ تھی اور اس سے کروڑوں انسانوں کو وحشیانہ تشدد ، ناانصافی، معاشی استحصال اور محرومی کا عذاب ہی جھیلنا نہیں پڑا بلکہ اس سے انسانی تاریخ کی ہموار رفتار کو زبردست دھچکا بھی لگا ہے۔ بیسویں صدی کے پہلے پچاس برس میں قومی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی شاندار نسلوں کے تابناک خواب ان طالع آزما غاصبوں کی ہوس اقتدار کی نذر ہوگئے، جو ٹینکوں پر سوار ہو کر انسانی آزادی ترقی اور امن \"9485001\"کے خوابوں کو روندتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے تھے۔

انسانی تاریخ کے تجزیے میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ حالات و واقعات کو سیاہ اور سفید کے خانوں میں متعین طور پر رکھا جا سکے۔ دوسری عالمی جنگ کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں۔ اس جنگ میں متحارب فریقین اور اتحادیوں کے مفادات میں اشتراک اور تضاد کی باریک لکیریں ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے گزر رہی تھیں۔ بہت سے اتحادی جنگ میں کامیابی کیلئے وقتی طورپر ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے تھے لیکن انہیں علم تھا کہ جنگ کے بعد کی دنیا میں انہیں مفادات کی ایک نئی کشمکش کا سامنا کر نا پڑے گا۔ مثال کے طور پر روس اور امریکہ اتحادیوں کی حیثیت میں جرمنی اور جاپان کا مل کر مقابلہ کر رہے تھے لیکن دونوں ملکوں کے معاشی اور سیاسی نظام میں متضاد بالکل واضح تھا اور مستقبل میں تصادم ناگزیر تھا۔ اگست 1945ءمیں کون کہ سکتا تھا کہ چند ہی برسوں میں جاپان اور امریکہ ایک \"ggtui\"دوسرے کے بہترین معاشی حلیف ہوں گے یا یہ کہ جاپان سے آزادی کی لڑائی لڑنے والا چین 25 برس تک امریکہ کا بدترین مخالف رہے گا۔ اشتراکی اور سرمایہ دار دنیا کی اس کشمکش میں اخلاقی اصولوں کو کچھ خاص دخل نہیں تھا اور دونوں فریق ہر قیمت پر اپنے مفادات کی تحفظ کرنا چاہتے تھے۔ سٹالن کو ہندوستان کے 40 کروڑ انسانوں کی قسمت سے کچھ سروکار نہیں تھا۔ ماؤزے تنگ ایٹمی ہتھیاروں کو سیاسی تنازعات کے حل کا ذریعہ سمجھتے تھے اور آئزن آور کے لئے کوریا اور ویتنام چین کی سرسبز زمین ایک وسیع کھیت کی حیثیت رکھتی تھی، جس میں نیپام بموں کی فصل کاشت کی جاسکتی تھی۔ دوسری طرف نو آزاد ممالک کی سیاسی قیادت کمزور تھی اور نوآبادیاتی حکمرانوں نے اپنے پیچھے جغرافیائی نسلی، انسانی ، مذہبی اور معاشی تنازعات کا وسیع ذخیرہ چھوڑا تھا۔ ایسے میں پاکستان کے قائداعظم محمد علی جناح کے پیچھے کھڑے ایوب خان، سوئیکارنو کے پیچھے کھڑے سہارتو، برما کے نیون کے پیچھے کھڑے فوجی کرنلوں اور الجزائر کے احمد بن بیلا کے پیچھے کھڑے بومدین کے دل میں اقتدار کی خواہش ابھرنا حیران کن نہیں تھا \"suharto-g30spki_victim-02\"کیونکہ بڑی عالمی طاقتوں میں ایسے سرپرست موجود تھے، جو نوآزاد ممالک میں نمائندہ سیاسی عمل کی بجائے غاصب حکمرانوں کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ ان کے ساتھ اپنے مفادات میں معاملہ کرنا کہیں زیادہ آسان تھا۔ روس اور چین کو مختلف چھوٹے ممالک میں اشتراکی انقلاب میں اتنی ہی دلچسپی تھی، جتنی جان فاسٹر ڈلس کو اسلام کے فروغ سے شیفتگی تھی۔ سرد جنگ کے دونوں فریقوں نے لڑائی جیتنے کیلئے ایسی کوتاہ بیں سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا، جس سے انسانیت کے مستقبل کو گہرے خطرات لاحق ہوگئے۔ ترکی میں قرآن پاک کے تراجم مفت تقسیم کرنا اتنا ہی خطرناک حربہ تھا، جتنا کمبوڈیا میں پول پوٹ حکومت کی چیرہ دستیوں سے چشم پوشی کرنا۔

سہارتو کا انڈونیشیا کے قومی افق پر آنا اکتوبر 1965ء کی اس صبح کے واقعات سے تعلق رکھتا ہے، جب مبینہ طور پر کمیونسٹ عناصر نے \"soeharto\"اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے چھ سنیئر جرنیلوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔ حیران کن طور پر سہارتو اس واقعے میں زندہ بچنے والے واحد فوجی جنرل تھے۔ پاکستان کی قومی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے حلقے انڈونیشیا کی اس ناکام فوجی بغاوت اور 1951ءکی راولپنڈی سازش کیس کے حقائق میں مشترک تانے بانے دریافت کر سکتے ہیں۔ پنڈی سازش کیس سے پردہ اٹھانے والے ایوب اور سکندر مرزا فوراً حکومت کے نفوس ناطقہ کا درجہ اختیار کر گئے تھے۔ صدر سوئیکارنو نے سہارتو کو انڈونیشیا کی کابینہ میں شامل کر لیا۔ 1965ءکے آخری دو ماہ میں سہارتو کی قیادت میں اشتراکی عناصر کے خلاف مہم میں کم از کم پانچ لاکھ افراد قتل کئے گئے، جن میں انڈونیشیا کے معروف ترین دانشور، اساتذہ، فنکار، ادیب، صحافی اور طالبعلم رہنما شامل تھے۔ اس وقت انڈونیشیا کے سیاسی منظر پر کمیونسٹ پارٹی طاقتور ترین سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی۔ سہارتو کی نگرانی میں چلائی جانے والی اشتراکیت مخالف مہم میں دو لاکھ افراد گرفتار کئے گئے، جن کی اکثریت کو بغیر مقدمہ چلائے دس برس تک پابندِ سلاسل رکھا گیا۔ سیاسی جبر اور ناروا ظلم کی اس \"menyingkap-rahasia-pembantaian-massal-1965-1966-i6v\"مہم کے نتیجے میں صدر سوئیکارنو اخلاقی طور پر اپنا مقام کھو بیٹھے اور سیاسی اقتدار پر ان کی گرفت کمزور پڑ گئی اس کے بعد کم گو اور نفسیاتی طور پر عقب نشیں سہارتو کو اقتدار پر مکمل قبضہ کرنے میں صرف دو برس لگے۔ 1967ء میں انہوں نے انڈونیشیا کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا اور اگلے 30 برس تک انڈونیشیا پر اپنی آہنی گرفت قائم رکھی۔ سوئیکارنو کا عہد حکومت جن واقعات اور ادوار سے گزرا، ان میں مطلق العنان حکومتوں کے تجربے سے گزرنے والی اقوام کیلئے بہت سے سبق پنہاں ہیں۔ سہارتو ایک طرف تو اشتراکی خطرے کی دہائی دے کر سرمایہ دار بلاک کی حمایت حاصل کرتے تھے اور دوسری جانب انڈونیشیا کے عوام کے سیاسی اور انسانی حقوق بیدردی سے پامال کرتے تھے۔ لِنڈن بی جانسن کا امریکہ ، ویتنام جنگ کی پیچیدگی اور خطے میں اپنی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت کے سامنے بے بس تھا، چنانچہ امریکہ نے سہارتو کو مفید مطلب حلیف کے طور پراپنا لیا۔ انہیں بے پناہ اسلحہ اور معاشی امداد فراہم کی گئی ۔ ان کی داخلی جبر کی پالیسیوں کو نظر انداز کیا۔ 1975ء  میں سوئیکارنو نے ولندیزی نوآبادیاتی حکمرانوں کے رخصت ہونے کے بعد مشرقی تیمور پر قبضہ کیا تو امریکی صدر جیرالڈ فورڈ نے انڈونیشیا کا دورہ کر کے سہارتو کا حوصلہ بڑھایا تھا۔ عالمی طاقتوں کی دو رخی پر مبنی خارجہ پالیسیوں کا یہ سلسلہ \"2013-review-the-act-of-killing\"آج بھی جاری ہے، جس میں تکمیل مدتی مفادات کیلئے غیر نمائندہ حکومتوں کی حمایت کی جاتی ہے لیکن اس کے نتیجے میں ترقی یافتہ ممالک کی رائے عامہ اپنی حکومتوں سے برگشتہ ہو جاتی ہے جبکہ ان پالیسیوں کا نشانہ بننے والے ممالک میں غاصب حکمرانوں کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کے خلاف نفرت کا مادہ پکتا رہتا ہے۔ سہارتو خود کو انڈونیشیا کی معاشی ترقی کے حوالے سے ”بابائے ترقی“ کہلانا پسند کرتے تھے لیکن 1990ء کی دہائی کے وسط میں مشرق بعید کی بظاہر مضبوط نظر آنے والی معیشت پر کساد بازاری کا حملہ ہوا تو سہارتو کی تعمیر کردہ ترقی محض خوشحالی کی ایک سراب ثابت ہوئی۔ اقتصادی ترقی کا پردہ چاک ہوتے ہی مختلف نسلی اور لسانی گروہوں کے مابین مفادات تضادات بھی ابھر کر سامنے آگئے، جنہیں 30 برس تک سیاسی عمل روک کر دبانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ترقی اور خوشحالی دو مختلف \"000_arp1417909\"تصورات ہیں۔ خوشحالی ایک محدود تصور ہے، جس کا تعلق دولت اور اشیا کی فراوانی سے ہے جبکہ ترقی ایک زیادہ جامع نصب العین ہے، جسے کسی قوم کے علمی ، تمدنی ، سیاسی ، ثقافتی اداروں کو مضبوط بنائے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

اپنے اقتدار کے 30 برسوں میں صدر سہارتو ہر پانچ برس بعد انتخابات کا کھیل رچاتے تھے اور بڑی باقاعدگی سے بھاری اکثریت حاصل کرتے تھے۔ تاہم ان کے بہترین حلیفوں نے بھی کبھی ان کی انتخابی کامیابی پر منصفانہ یا شفاف ہونے کی تہمت نہیں دھری۔ جمہوریت چوبی ڈبوں میں کاغذ کے نشان زدہ پرزے ڈالنے کا ناٹک نہیں بلکہ حقیقی سیاسی مکالمے کو اپنا رخ متعین کرنے کی جگہ فراہم کرنے کا نام ہے۔ سہارتو نے انڈونیشیا کی پارلیمان میں فوجی افسروں کیلئے سو نشستیں مختض کی تھیں لیکن تین عشروں کے تجربے سے صرف یہ ثابت ہوا کہ سیاست میں فوج کو باضابطہ کردار دینے سے جمہوریت کے تحفظ یا اس کے بہترین ثمرات کے بارآور ہونے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی\"nixonsuh-300x194\" ۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کے خدوخال نہ تو کسی فرمان کے ذریعے تراشے جا سکتے ہیں اور نہ انہیں کسی فرد واحد یا گروہ کے پیوستہ مفادات کے لئے من مانے طریقے سے مرتب کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت انسانی اجتماع کا ایسا بے ساختہ اظہار ہے ، جو کندہ ناتراش ذہنوں کو بے ہنگم شوروغوغا معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی بے ترتیبی سے منزلوں کے تعین اور ترقی کی راہ پر ہموار سفر کا حسن برآمد ہوتا ہے۔ مخالف سیاسی رائے کو قوت کے بل پر دبانے سے جو نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے، اس میں شمشان گھاٹ کا سناٹا کہا جاتا ہے، جس کے دہشت ناک اندھیرے میں بد عنوانی اور اقربا پروری کا درندہ پلتا ہے۔ دنیا بھر کے آمروں کی طرح سہارتو پر بھی بد عنوانی اور اقربا پروری کے شدید الزامات عائد کئے گئے۔ در حقیقت، ان کے بچوں کو انڈونیشیا کے امیر ترین افراد میں شمار کیا جاتا تھا۔ مارچ2004ء میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے\"**

سہارتو حکومت کو تاریخ کی بد عنوان ترین حکومتوں میں سرفہرست رکھا تھا۔ سہارتو نے اپنے عہد حکومت میں مختلف مواقع پر یکساں جوش و جذبے کے ساتھ بائیں بازو کے کارکنوں، طالب علموں اور اسلام پسندوں کے خلاف ظلم و ستم کی مہم چلائی، سہارتو کے اقتدار سے الگ ہونے کے چند برس بعد وہ مرحلہ سامنے آگیا، جہاں سرد جنگ میں اشتراکی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے مشکوک اور فطرت کے حربوں کی قیمت ادا کی جانی تھی۔ مذہبی بنیاد پرستی نے عالمی سطح پر دہشت گردی کا روپ دھار ا تو اس خوفناک تصویر نے انڈونیشیا کے سیاحتی جزیرے بالی کے وہ مناظر بھی شامل تھے، جن میں سینکڑوں معصوم لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ جماعت اسلامیہ کے راہنما ابوبکر بشیر کی قیادت میں انڈونیشیا کی بنیاد پرست جماعت کو مسلم اکثریتی ممالک کی بہت بڑی مذہبی قوت

\"Presidentسمجھا جانے لگا۔ بنیاد پرستی کے بڑھتے ہوئے رحجانات کے پیش نظر انڈونیشیا کے عوام دریافت کر رہے ہیں کہ اسلام پسندی کو محض مدت کے بل پر ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کا بہترین حل انسانی معاشرے کی تمدنی قوتوں کو معیشت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے تاکہ امن اور تنوع کو معاشرے کی بنیادی اقتدار کا درجہ دیا جا سکے۔ صدر سہارتو کے تیس سالہ دور اقتدار کو بہت سے حلقوں میں استحکام اور ترقی کا نمونہ قرار دیا جاتا تھا لیکن انہوں نے اپنے پیچھے بحران اور بدنظمی کے سوا کوئی ورثہ نہ چھوڑا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments