کرنل (ر) نادر علی کی 1971ء کے بارے میں یاد داشتیں (حصہ اول)


سنہرے بنگال سے تعارف – ابتدائی تاثرات

میں 1962ء سے 1966ء تک مشرقی پاکستان میں تعینات رہا۔ اس وقت حالات پرامن تھے اور ایک جوان میجر کے طور پر میرا تجربہ خاصا خوشگوار رہا۔ میری ڈیوٹی سنٹرل آرڈیننس ڈپو میں تھی لیکن میں 1965ء کی جنگ میں رضاکارانہ طور پر کمانڈو بٹالین جوائن کرکے دو سال تک چٹاگانگ میں رہا۔ اس دوران ہماری کمپنی شمالی بنگال میں تعینات تھی لیکن 1965ء میں ادھر کوئی جنگی کارروائی ہی نہیں ہوئی۔

1967ء کے شروع میں واپس آنے کے بعد میں 1971ء میں چھ مہینے کے لیے دوبارہ مشرقی پاکستان گیا۔

ساٹھ کی دہائی تک ہماری فوجی حکمتِ عملی کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ’مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا‘۔ اسی لیے وہاں صرف علامتی طور پر ایک یا ڈیڑھ بریگیڈ فورس رکھی ہوئی تھی۔ چٹاگانگ میں ایسٹ بنگال رائفلز کا ایک ٹریننگ سنٹر تھا۔ یہ نفری دفاعی طور پر بالکل غیرموثر تھی۔ میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ناکافی دفاعی قوت کے باعث 1965ء میں مشرقی پاکستان میں احساس عدم تحفظ پیدا ہوا۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی لہر آنے کی اصل وجہ مشرقی پاکستان کے سیاسی فیصلوں کو نظرانداز کرنا تھا۔

 1     تھا، یہ علاقہ عوامی لیگ کا گڑھ مانا جاتا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ وہاں ایوب خان کے لیے بھی حمایت موجود تھی۔ ان انتخابات میں صرف بنیادی جمہوریتوں کے ارکان ووٹ دے رہے تھے۔ مغربی پاکستان کے برعکس مشرقی پاکستان میں بی ڈی سسٹم خاصا کامیاب رہا تھا کیونکہ عام لوگوں میں سیاسی سوجھ سمجھ کے باعث بی ڈی ارکان کو جو ترقیاتی فنڈ ملتے تھے وہ انہیں خرچ کرنا پڑتے تھے۔

ایک عام تاثر یہ تھا کہ عام فوجی بنگالیوں کو اپنے سے گھٹیا انسان سمجھتے تھے۔ مثلاً یہ کہ ان کا قد چھوٹا ہے اور وہ عام طور پر غریب ہیں۔ آپ کے پاس نوکری ہے اور رہن سہن قدرے بہتر ہے۔ شاید اس وجہ سے فوجی بنگالیوں کو کوئی علیحدہ مخلوق سمجھتے تھے۔ بنگالی ثقافت کو اپنانے یا ان کی زبان سیکھنے کا شوق بھی کم کم ہی تھا۔ کچھ گنے چنے افسروں نے بنگالی عورتوں سے شادیاں کر رکھی تھیں لیکن عام میل جول کی سطح اپنایت کے درجے سے بہت نیچے تھی۔

1968 میں اگرتلہ سازش کیس سامنے آیا۔ اس کیس میں جو باتیں الزامات کے طور پر پیش کی جا رہی تھیں وہ تو فوجی میسوں میں روز مرہ کے مذاق تھے۔ مثلاً میرے ہم مرتبہ فوجی افسروں میں یہ مذاق عام تھا کہ اگر مشرقی پاکستان علیحدہ ہو جائے تو سب کی ترقیاں ہو جائیں گی۔ سو جب شام کو ڈرنک کرنے بیٹھتے تو ایک دوسرے کو ہلکے پھلکے انداز میں ’جنرل ‘ یا ’بریگیڈیر ‘ کہا جاتا تھا۔ جب اگرتلہ کیس کے بریفنگ افسر جنرل اعوان نے یہ غیر سنجیدہ گفتگو بطور الزام پیش کی تو مجھے بڑی کوفت ہوئی اور میں نے کہا کہ یہ سب تو مذاق تھا اور اسے سازش سمجھنا تو بہت مضحکہ خیز بات ہے۔

شیخ مجیب الرحمٰن کو بھارت نواز ثابت کرنے کے لیے اس پر طرح طرح کے لیبل لگائے جاتے تھے۔ مجیب الرحمٰن ایک عوامی لیڈر تھا۔ اس کی سیاست ہنگامہ آرائی کے گرد گھومتی تھی۔ عوامی لیگ کے رہنما مسٹر سہروردی کی موت کے بعد وہ پارٹی لیڈر بن گیا تھا۔ وہ ایک مقبول لیڈر تھا جو کبھی حکومت کا حصہ نہیں بنا۔ پھر اس نے فروری 1966ء میں چھ نکات پیش کئے جن کے گرد 1970ء کا الیکشن لڑا گیا۔

عوامی لیگ کے خلاف زبردست پراپیگنڈہ جاری تھا۔ بہت کم لوگ یہ سیاسی شعور رکھتے تھے کہ بنگال میں ایکشن نہیں ہونا چاہیے۔ عام آدمی یہی سمجھتا تھا کہ علیحدگی کی لہر ختم ہونی چاہیے، یہ صورت حال ملک کے خلا ف بغاوت اورہندوستانی سازش ہے۔ عام لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ بنگال کی بات کرنے والے محب وطن نہیں ہیں۔

یہاں ایک عجیب تضاد شروع ہوا۔ یحیٰی خان نے ایک لیگل فریم ورک آرڈر بنایا جس میں ایسی باتیں تھیں مثلاً ”ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کی جائے گی، آئین اور وفاق کے خلاف کچھ نہیں کہا جائے گا، وغیرہ“۔ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات اس کے بالکل الٹ تھے جن کے مطابق کرنسی اور خارجی امور کو چھوڑ کر باقی تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہونا تھے اور پاکستان کے دونوں حصوں میں علیحدہ علیحدہ دارالحکومت بننا تھے۔

مجیب کی مقبولیت کو روکنے کے لیے عجیب عجیب اقدامات کیے جا رہے تھے۔ ڈھاکا میں اس وقت دارالحکومت ثانی زیر تعمیر تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ وفاقی حکومت کا کچھ حصہ ڈھاکا منتقل کر دیا جائے۔ لیکن اس انتظام کی تفصیلات پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا تھا۔ فوجی ڈکٹیٹر کی حکومت ہو تو ساری طاقت ایک شخص میں مرکوز ہو جاتی ہے۔ وہ شخص مغربی پاکستان میں تھا اور ایک ایسی فوج کا سربراہ تھا جس میں اکثریت مغربی پاکستان والوں کی تھی۔ یہ تضاد تو پہلے دن سے تھا۔ اس کو دارالحکومت ثانی بنا کر کیسے دور کیا جاسکتا تھا ؟

 فوجی کارروائی۔ پاکستان بچانے کا طرفہ نسخہ

 یہاں سے میرا اپنا تجربہ شروع ہوتا ہے۔ 25 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع ہوئی تو میں پی ۔ ایم۔ اے میں انسٹرکٹر تھا۔ میری بٹالین مشرقی پاکستان میں تھی۔ میں نے رضاکارانہ طور پر مشرقی پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہاں سے جانے والے ایک میجر کو بتایا گیا کہ اگر تم نہیں جانا چاہتے تو اپنا نام کٹوالو کیونکہ یہ شخص جانا چاہ رہا ہے۔ جب مجھے خبر ملی تو میں بہت خوش ہوا۔ اب یہ میری عاقبت نا اندیشی تھی کہ میں اس فوج کا حصہ بن گیا جو ایک بغاوت کچلنے جا رہی تھی

اصل میں بات حب الوطنی کی نہیں ہوتی۔ فوجیوں کی نفسیات ہی ایسی ہوتی ہے جیسے کسی چور کو چوری کی عادت ہو یا نشئی کو نشے کی۔ فوجیوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ اپنے یونٹ کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیں۔ چونکہ میں 1965ء میں جنگ میں زیادہ حصہ نہیں لے سکا تھا تو میرے دل میں بھی یہ خواہش تھی۔ لیکن اس وقت میرے لیے ایکشن میں شرکت کے علاوہ کچھ اور سمجھنا ممکن نہ تھا۔ جس کے لیے مجھے بعد میں احساس جرم بھی ہوا۔

جب میں وہاں پہنچا تو مجھے عام فوجی کے مقابلے میں ایک برتری حاصل تھی کہ میں نے پہلے سے مشرقی پاکستان دیکھا ہوا تھا۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ 1968ء سے ناٹک ہو رہا ہے۔ نہ تو کوئی خفیہ تنظیم تھی اور نہ کوئی سازش۔ سچ تو یہ ہے کہ جون، جولائی، اگست تک جب  ہم بغاوت کی اطلاعات پر کہیں جاتے اور فوج ان جگہوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیتی تو اصل میں وہاں ہوتا کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ تو کوئی منظم مزاحمت تھی اور نہ ہی مزاحمت کاروں کا کوئی جامع منصوبہ تھا۔ مزاحمت کرنے والے اصل لوگ بھاگ کر انڈیا چلے گئے تھے۔ انڈیا والے انہیں کچھ تربیت دے دیتے، وہ بارڈر کے تھوڑا اندرآ کر کچھ کارروائی کر کے واپس بھاگ جاتے۔ کافی عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ہوا یوں کہ کچھ مقامات پر مقامی پولیس، انصار اور ای پی آر نے سرکاری دفتروں میں بیٹھ کر آزادی کا اعلان کر دیا۔ فوج نے بغیر کسی مزاحمت کے ایک ایک کر کے کنٹرول ان سے واپس چھین لیا۔

باریسال اور سٹالن گراڈ میں کیا مماثلت نکلی؟

 باریسال سب سے آخری ضلع تھا جسے 25 اپریل کے قریب واپس لیا گیا کیونکہ یہ ڈھاکا سے بہت دور تھا اور یہاں سڑک نہیں صرف دریائی راستہ جاتا تھا۔ میں نے اس کارروائی میں 6 پنجاب بٹالین کے ساتھ بطور کمانڈو میجر حصہ لیا۔ اس بٹالین کے کمانڈنگ افسر بریگیڈئیر عاطف تھے۔ ہم باریسال پہنچے تو وہاں بارش ہو گئی۔ میں نے تو کمانڈو ایکشن کے لیے شہرکی دوسری جانب لینڈ کرنا تھا لیکن بارش کی وجہ سے ہیلی کاپٹر اڑا ہی نہیں۔ ہم پچھلی رات میجر نادر پرویز کے ساتھہ اپنی گن بوٹس روانہ کر چکے تھے تاکہ وہ دوسری جانب ساحل پرکچھ علاقہ قبضے میں لے لیں اور بٹالین کے اترنے کی جگہ بن جائے۔ بٹالین نے ایم آئی ایٹ ہیلی کاپٹروں میں جانا تھا۔ اب بارش کی وجہ سے پلان میں یہ تبدیلی کی گئی کہ مجھے بٹالین کا گائیڈ بنا دیا گیا۔ اس دوران میجرنادر پرویز شہر کی دوسری جانب پہنچ چکا تھا۔ جب وہاں پہنچا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے وائرلیس پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن میں تو بارش کی وجہ سے پہنچ ہی نہیں پایا تھا۔ سو وہ اپنے چالیس فوجیوں کے ساتھ پہلے شہر کی ایک جانب گیا پھر دوسری جانب اور پھر شہر میں داخل ہو گیا اور شہر فتح ہو گیا۔

ہم شام کو بٹالین لے کر دریا پر پہنچے اور باریسال پر حملے کی تیاریاں کرنے لگے۔ عاطف صاحب نے کہا کہ رات کو ناواقف جگہ پر حملہ نہیں کرنا چاہیے، سو ہم نے رات وہیں گزاری۔ اگلی صبح ہم حملہ کرنے گئے ۔ ہم مارچ کرتے ہوئے شہر کی طرف جا رہے ہیں تو آگے سے نادر پرویز جیپ میں شہر سے باہر آ رہا ہے۔ ہم نے کہا ’تم کدھر؟ ہم تو ساری رات تمہیں ڈھونڈتے رہے۔ ’ تو اس نے کہا ’میں نے تو آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے شہر فتح کر لیا ہے۔ ‘

اب یہ انتہائی مضحکہ خیز ایکشن تھا جس میں ہم نے بٹالین کا حملہ کرنا تھا، دو ہوائی جہازوں نے علاقے پر گولیاں بھی برسائیں تاکہ بٹالین کا راستہ صاف ہو سکے۔ یہ ساری کارروائی ہوئی اور آگے کچھ بھی نہیں تھا۔ شہر میں ہمارے اپنے ہی بندے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک ہفتے بعد کلکتہ سے ٹائمز آف انڈیا آیا تو اس میں سرخی تھی”باریسال پر فضایہ، بحریہ اور بّری فوج کا سہ طرفہ حملہ پسپا“۔ اس اخبار کو بنگالی آزادی پسند خبریں فراہم دیتے تھے۔

کچھ اپنا جھوٹ ، کچھ ان کا سچ

بظاہر تو یہ کہانی یہاں ختم ہو گئی لیکن وہ بٹالین وہیں رہی اور اس نے بہت زیادتیاں کیں۔ اس ضلع کے مارشل لاء  ایڈمنسٹریٹر سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ مجھے کسی کا فون آیا کہ فلاں بندہ سونے کی بھری پیٹی مغربی پاکستان لے کر جا رہا ہے، اسے روکو۔ میں نے کہا کئی بندے پیٹیاں لے کر جا رہے ہیں، یہ میرا کام تو نہیں کہ میں لوگوں کا سامان چیک کروں؟ اکثر افسر ایک دوسرے کا نام لگا دیتے تھے کہ فلاں افسر نے یہ زیادتی کی، فلاں نے لوٹ مار کی۔

میں باریسال آپریشن میں اپنے ساتھ شریک ایک ممتاز فوجی افسر سے ملا۔ میں نے اسے بتایا کہ ایک بھارتی تاریخ دان سے بنگلہ دیش کے بارے میں بات ہوئی تو میں نے اسے کہا کہ میں نے تو کوئی بنگالی نہیں مارا اور اگر کسی نے مارنے کی کوشش کی تومیں نے اس کو روکا۔ میری طرح اور بھی پاکستانی افسر ہوں گے۔ کیونکہ مرنے والوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا جاتا رہا ہے۔ میری بات سن کر وہ ساتھی افسر بولا ’میں نے تو بہت مارے تھے‘۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ اس شخص کو میں شریف آدمی سمجھتا تھا۔ اسے قتل و غارت کی کوئی ضرورت تھی بھی نہیں کیونکہ باریسال آپریشن میں تو کوئی مزاحمت ہی نہیں تھی۔ بعد ازاں یہ شخص پاکستانی حکو مت میں وزیر بھی رہا ۔

بنگالیوں میں مزاحمت کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا تھا۔ مثلا یہ کہ کچھہ لوگ رات کو بتیوں سے اشارے کرکے ہندوستانی ہوائی جہازوں کو گائیڈ کرتے ہیں۔ حالانکہ نہ وہاں ہندوستان کا جہاز آتا تھا اور نہ کوئی کسی کو گائیڈ کرتا تھا۔ یہ سلسلہ 1965ء  سے چلا آرہا تھا جب ہم ساری رات پرچھائیوں کے پیچھے بھاگتے رہتے تھے۔

میجر صاحب ہیرو کیسے بنے؟

فوجی آپریشن 25 مارچ کو شروع ہوا اور میں 10 اپریل کو ڈھاکا پہنچا۔ ڈھاکا کے دونوں طرف میگھنا اور بوڑھی گنگا نامی دو دریا ہیں۔ میگھنا کے اوپر ایک بڑا پل تھا جو کمانڈوز نے مزاحمت کاروں سے کچھ ہی روز پہلے چھینا تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو جوش و خروش کا عالم تھا۔ ایک پرجوش شخص مجھ سے کہنے لگا کہ کمانڈوز نے تو کمال کر دیا۔ تم خوش قسمت ہو کہ اسی بٹالین میں جا رہے ہو۔ یہ سنتے ہی میں ایک اور دنیا میں داخل ہو گیا اور حقیقت سے میرا رشتہ کٹ گیا۔

جب بھی کوئی فوجی مشرقی پاکستان پہنچتا، اس کو مکتی باہنی کے مظالم کی تصویروں پر مشتمل ایک فوٹو البم دکھائی جاتی۔ مثلا ایک تصویر مغربی پاکستانیوں کی مسخ شدہ لاشوں کی تھی۔ یہ واقعات چٹاگانگ میں آرمی کے پہنچنے سے پہلے ہوئے۔ مجھے بھی یہ البم دکھائی گئی مگر میری ذہنی حالت ایسی نہ ہوئی کہ میں اندھا دھند بندے مارنے شروع کر دوں۔ میں نے سوچا ٹھیک ہے، ان کو پرانا غصہ تھا، جو اب باہر آیا ہے۔

یہاں سے کہانی 1947 کی طرح ہو جاتی ہے۔ جس وقت سارے ضبط ٹوٹ جاتے ہیں۔ بندے کے اندر دبے ہوئے پرانے تعصبات باہر آ جاتے ہیں۔ کسی کے اندر جہاد کا جذبہ، کسی میں بغاوت کا، کسی میں کافروں کو مارنے کا جوش۔ انسان نے تہذیبی طور پر صدیوں میں جو سیکھا ہوتا ہے، اسے بھول جاتا ہے۔ اس کی سماجی اور ثقافتی جڑیں اکھڑ جاتی ہیں۔ وہ انسان سے پھر حیوان بن جاتا ہے اور بغیر کسی خلش کے تمام ظالمانہ حرکتیں کر بیٹھتا ہے۔

کسی فعل میں مل کر شریک ہونا بنگالیوں کی نفسیات کا حصہ ہے۔ کسی بھی واقعہ پر مشتعل ہو کر وہ ایک دم گروہ بنا لیتے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت بھی کچھ حد تک پرتشدد واقعات کی وجہ بنی۔ میں ساٹھ کے عشرے میں ڈھاکا میں تھا۔ ایک دفعہ بازار گیا تو دیکھا کہ ایک ہجوم جمع ہے۔ نزدیک جانے پر معلوم ہوا کہ ہجوم ایک ڈرائیور کی پٹائی کر رہا ہے جس کی بس کے نیچے آ کر ایک بندہ مر گیا ہے۔ میں وہاں کھڑا تھا تو ایک بندے نے بے دھیانی میں مجھے اپنی ٹوکری پکڑائی اور جا کر ڈرائیور کو دو چار ٹھوکریں لگائیں۔ واپس آیا اور اپنی ٹوکری لے کر چلا گیا۔

(تحریر و تدوین: وجاہت مسعود)


پہلا حصہ
دوسرا حصہ
 تیسرا حصہ اور آخری حصہ
اس سیریز کے دیگر حصےکرنل (ر) نادر علی کی 1971ء کے بارے میں یاد داشتیں (حصہ دوم)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments