کرنل (ر) نادر علی کی 1971ء کے بارے میں یاد داشتیں (آخری حصہ)


ہیرو بننے سے پاگل پن کی دہلیز پر

ڈھاکا میں سوشل لائف کیا تھی۔ دن کو کسی دوسرے شہر جا کر کوئی مشورہ وغیرہ دینا اور شام کو لوٹ آنا۔ شام کو پی اے ایف میس چلے گئے ۔ پی آئی اے میس یا ڈھاکا کلب چلے گئے۔ وہاں بنگالیوں کے ساتھ ڈرنک کرنا۔ ہم ڈھاکا انٹرکانٹی نینٹل جاتے تھے تو بال روم ڈانسنگ روک کر اعلان کیا جاتا ’گڈ ایوننگ میجر نادر‘ اور پھر میوزک شروع ہو جاتا۔ رات کو چائنیز کھانا کھایا اور سو گئے۔ زندگی اسی طرح چل رہی تھی کہ آپ کو کوئی پرواہ نہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ میں ایک سن حالت میں تھا۔ بظاہر میں ایک اہم شخصیت بن گیا تھا لیکن حقیقت سے میرا رشتہ کٹ چکا تھا۔ ایک جوان میجر جو بنگال جانے سے پہلے کچھ کچھ اندھا تھا اب مکمل طور پر اندھا ہو چکا تھا۔ اس طرح میری احمقوں کی جنت کی بنیاد پڑی اور ساتھ ساتھ میرے پاگل پن کی بھی۔

اس دوران مجھ سے کہا گیا کہ میں واپس مغربی پاکستان جاؤں تاکہ میری کرنل کے عہدے پر ترقی ہو سکے۔ میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ میں ڈھاکا میں انتہائی اہم شخص بن چکا تھا اور اپنے اس ہیرو جیسے کردار کو انجوائے کر رہا تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اصل میں اتنی مزاحمت یا خطرہ نہیں ہے جتنا بڑھا چڑھا کر بیا ن کیا جا رہا ہے۔ بعد میں جو میرا بریک ڈاﺅن ہوا اس کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ میرے جیسے غریب بندے کو ایک دم اتنی لفٹ مل جائے تو یہ کسی بھی انسان کو پاگل کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

بھارتی افسر پاکستانی جنگی قیدیوں سے سوالات پوچھتے ہوئے

جنگ کیسے لڑی گئی؟   

سوال یہ ہے کہ کیا مشرقی پاکستان کو بچایا جا سکتا تھا؟ بالکل بچایا جا سکتا تھا۔ اگر سارا ایکشن اپریل میں بند کر دیا جاتا تو ایک موقع تھا۔ عوامی لیگ کے ابھی بھی بہت سے ایم این اے تھے جن کو منایا جاسکتا تھا۔ لیکن یہ صورتحال تو بدستور چلتی ہی گئی حتیٰ کہ دسمبر آگیا۔

جب کسی فوج کا یہ کردار بن جائے کہ لوگوں کی زندگی اور موت اس کے اختیار میں ہو اور اسے من مانی کرنے کی آزادی ہو تو وہ فوج آہستہ آہستہ اخلاقی طور پر تباہ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں اس وقت ہی نظر آرہا تھا کہ جنگ ہوئی تو یہ لوگ لڑ نہیں سکیں گے۔

فوج پورے علاقے میں چھوٹے چھوٹے دستوں میں بٹی ہوئی تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ کسی ایک جگہ پر قبضہ کرکے اعلان کر دیا جائے کہ یہ بنگلہ دیش ہے اور متوازی حکومت بنائی جائے گی۔ یہ امکان تو کسی کے خیال میں بھی نہیں تھا کہ اگر حملہ ہوا تو کیا کریں گے۔

نیازی صاحب نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ حالانکہ ادھر اتنے دریا ہیں کہ اگر کوئی کسی کو روکنا چاہے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ دیکھیں کہ وہاں ہمارے کسی بندے نے مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی بھاگنے کی کوشش کی۔ سوائے دو ہیلی کاپٹروں کے جو اڑ کر برما پہنچ گئے اور پھر مغربی پاکستان واپس آئے۔ ان ہیلی کاپٹروں میں کچھ زخمی، کچھ نرسیں اور ایک جرنیل صاحب بھی شامل تھے جو بظاہر زخمی تھے۔ لوگوں نے ان پر بہت لعن طعن بھی کی۔ کیونکہ یہ بات پھیل گئی کہ کسی شخص کو ہیلی کاپٹر سے اتار کر جرنیل صاحب کو سوار کیا گیا تھا۔

ہندوستان آرمی ہماری ایک پوری ڈویثرن بائی پاس کرگئی۔ ان جرنیل صاحب کے پاس تین بٹالین تھیں لیکن انہوں نے انہوں نے کسی ایکشن میں حصہ نہیں لیا۔ اس لیے ان کو خراش تک نہیں آئی۔ ڈھاکا پر انڈین آرمی کا قبضہ ہونے کے ایک دو دن بعد تک یہ ڈویثرن وہیں بیٹھی رہی۔ نہ تو انہوں نے کسی طرف نکلنے کی کوشش کی اور نہ ہی ہندوستان آرمی پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ اس جرنیل نے ڈھاکا فون کر کے پوچھا۔ ” ہم نے کس کے پاس ہتھیار ڈالنے ہیں“۔ جیسے کوئی جائیداد منتقل کی جا رہی ہو کہ بھائی ہم نے کس کو ہینڈ اوور کرنا ہے۔

لیکن یہ بھی ہے کہ میجر اکرم جیسے فوجیوں نے مزاحمت بھی کی۔ ان کی بٹالین بوگرہ میں بہت دلیری سے لڑی اور میجر اکرم کو نشان حیدر ملا۔ ان کی تعریف انڈین آرمی نے بھی کی۔ لیکن یہ اکادکا واقعات ہیں ورنہ نیازی صاحب نے نہ تو دفاع کا کوئی انتظام کیا تھا اور نہ ہی کوئی پلاننگ۔

بنگال فتح نہ ہو، بنگالن تو فتح ہو سکتی ہے؟

 آسام سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ڈاکٹر یاسمین سیکھیا امریکہ میں ہندوستان کی تاریخ پڑھا رہی ہیں۔ حال ہی میں اس نے 71 کی جنگ کے دوران صرف عورتوں کے تجربات پر ریسرچ کی ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ 71 میں دس لاکھ عورتوں کو ریپ کیا گیا۔ لیکن بہت کوشش کے باوجود اس کو ایسی کوئی عورت نہ مل سکی۔ آخر وہ ہائی کورٹ کے اس جج سے ملی جسے ان عورتوں کی بحالی کا انچارج بنایا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ ہم پالیسی کے طور پر کسی کا نام نہیں بتاتے تا کہ ان خواتین کے لیے مشکلات پیدا نہ ہوں۔

ڈاکٹر یاسمین نے کہا یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ایسا بین الااقوامی سانحہ ہوا ہو اور اس کے بارے میں بات کرنے والا کوئی بھی نہ ہو؟

آخر اس نے ایک عورت کو ڈھونڈ ہی لیا۔ اس نے کہا ’ہاں، میری عزت لوٹی گئی تھی‘۔ پھر ڈاکٹر یاسمین نے زور دے کر پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ کوئی اس واقعہ کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تواس نے کہا ’کوئی بات کس طرح کرے۔ آج کل یہاں جو ایم این اے ہے وہی تو ان فوجیوں کو اپنے ساتھ لایا تھا جنہوں نے میرے ساتھ یہ حرکت کی تھی‘۔

خالدہ ضیا جب پاکستان آئیں تو ان کے ساتھ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیر آئے ہوئے تھے۔ یہاں لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ سنا ہے بنگلہ دیش میں ہندوستان کے خلاًف شدید جذبات کی وجہ سے فوج میں بھی پاکستان کی حمایت بڑھ گئی ہے ۔ کچھ وقفے کے بعد وہ بولے لیکن میں کس طرح پاکستان کا حامی ہو سکتا ہوں۔ میری کہانی تو تمھیں یاد ہو گی۔ اس بریگیڈیر کی بہن پاکستان آرمی کی واحد بنگالی لیڈی ڈاکٹر تھی۔ مغربی پاکستان کے فوجیوں نے اس کو جیسور میں ریپ کیا اور پھر قتل کردیا۔ وہ بریگیڈیر کہنے لگا ” اس زخم کی یاد تو دن رات ہمارے خاندان کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہمارے لیے تو جنگ ابھی تک جاری ہے ۔ “

مجیب الرحمٰن کو کیسے گرفتار کیا گیا؟

اب مجیب الرحمٰن کی کہانی سن لیں۔ 25 مارچ کی رات میری ہی بٹالین کے بندے مجیب الرحمٰن کو گرفتار کرنے گئے۔ میں اس وقت مغربی پاکستان ہی میں تھا۔ بٹالین کے کمانڈنگ افسر کرنل زیڈ اے خان تھے۔ ’بانگلہ بندھو‘ کا گھر مزاحمت کاروں کی حفاظت میں تھا۔ جب اتنی طاقتور فورس مشین گن کا فائر کرتے ہوئے وہاں پہنچی تو تمام گارڈ اور مزاحمت کار بھاگ گئے۔ زیڈ اے خان نے مجھے بتایا کہ میں نے مجیب الرحمٰن کو سیلوٹ کیا اور کہا ’سر مجھے آپ کی گرفتاری کے آرڈر ہیں‘۔ مجیب الرحمٰن نے کچھ مہلت مانگی اور اپنا بکس وغیرہ پیک کیا۔ پھر سب لوگ جب سیڑھیاں اتر رہے تھے تو کرنل زیڈ اے خان آگے تھے، ان کے پیچھے مجیب الرحمٰن اور سب سے پیچھے دو سپاہی تھے۔ ان میں سے ایک سپاہی نے مجیب الرحمٰن کو تھپڑ دے مارا۔

کرنل زیڈ اے خان نے مجیب الرحمٰن کووہ پروٹوکول دیا جو ایک پڑھا لکھا مہذب انسان پاکستان کی قومی اسمبلی کے ایک رکن کو گرفتار کرتے وقت دے گا۔ لیکن وہ سپاہی ایک اور سطح پر تھا۔ اسے اس آدمی پر بہت غصہ تھا جو اس کے خیال میں ساری شرارت کی جڑ تھا۔

کرنل زیڈ اے خان نے بتایا کہ شام تک مجیب الرحمٰن ہمارے پاس رہا پھر ہم نے اسے ہینڈ اوور کر دیا اور اسی رات اسے مغربی پاکستان بھیج دیا گیا۔ لیکن اس وقت تک وہ اتنا خوف زدہ ہو چکا تھا کہ اس سے کوئی بھی بات کرتا تو وہ چونک کر اپنے چہرے کے آگے ہاتھ کر لیتا۔

بہت سال بیت گئے۔ کرنل زیڈ اے خان بریگیڈئیر بنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد 71 کی جنگ پر کتاب بھی لکھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک سینئر جنرل نے ان سے پوچھا ’تم نے اس کو مارا کیوں نہیں؟‘ تو میں نے جواب دیا ’سر مجھے ایسا کوئی آرڈر نہیں دیا گیا اور نہ ہی آپ ایسی کوئی توقع رکھیں کہ میں ایسا آرڈر پورا کرتا‘۔ اس پر جنرل بولا ’تم عجیب بیوقوف ہو۔ کیا ہم اس کو اس وقت مار سکتے تھے جب ساری دنیا کو پتہ چل چکا تھا کہ ہم نے اس کو حراست میں لے لیا ہے؟ تمھارے پاس اس حرامزادے کو مارنے کا سنہری موقع تھا‘۔ زیڈ اے خان کہنے لگے کہ میں اپنے سپاہی کو برا بھلا کہ رہا تھا کہ اس نے تھپڑ کیوں مارا اور ادھر یہ حال ہے۔

ایک گولی کتنے بنگالیوں میں سے گزرتی ہے؟

کومیلا میں اے پی پی کا نمائندہ ٹونی میسکیریناس تھا۔ کومیلا ہمارا ڈویڑنل ہیڈکوارٹر تھا جہاں جنرل شوکت رضا تعینات تھے۔ جنرل شوکت رضا واحد آدمی تھے جو پورے ایکشن سے الگ تھلگ رہے۔ جنرل شوکت رضا میرے پرانے انسٹرکٹر تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ جو بھی ہو رہا ہے ان لوگوں کو کوئی سمجھ نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل بیگ ان کاسٹاف افسرتھا۔ کرنل بیگ سے بات چیت ہوئی تو اس نے کہا میں نے تو گلاب کے پھول لگائے ہوئے ہیں۔ بس ان کو دیکھتا رہتا ہوں۔ ٹونی میسکیریناس بھی وہیں کہیں ان کے پاس تھا۔ وہ ادھر سے بھاگ کر براستہ کلکتہ، لندن پہنچ گیا۔ وہاں جا کر اس نے اپنی کہانی ٹائمز آف لندن کو بیچی۔ اس میں کہا گیا کہ کرنل بیگ لوگوں کو اپنے پھول وغیرہ دکھاتا ہے لیکن اس کا سگنل افسر روایت کرتا ہے کہ ’میں تجربہ کر رہا تھا کہ اگر بنگالی ایک قطار میں کھڑے کیے جائیں توکتنے بنگالیوں میں سے گولی گزرتی ہے۔ میں نے آٹھ بندے ایک لائن میں کھڑے کروا کر ایم ون بندوق سے فائر کیا تو گولی آٹھوں میں سے گزرگئی‘۔ ہم سب کو ٹونی میسکیریناس کی کہانی کی فوٹو کاپی بانٹی گئی اور ساتھ میں آرڈر آیا کہ صحافیوں سے غیر ضروری باتیں نہ کی جائیں

 محب وطن حلقوں کے تعاون کی حقیقت

وہاں ہندووؤں کی جتنی جائیداد تھی، لوٹ لی گئی۔ پھر یہ سلسلہ شروع ہوا کہ مقامی مسلم لیگ یا جماعت اسلامی والے ہمارے پاس آ کر کہتے کہ فلاں پراپرٹی ہمیں الاٹ کر دو۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب فوج کا کسی جگہ پر قبضہ ہو جائے خاص طور پر اگرکوئی خاص مزاحمت بھی نہ ہو تو اس کے حمایتی بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جماعت اسلامی والے میرے پاس آتے تھے پروفیسر غلام اعظم وغیرہ۔ وہ مجھے سویلین رضاکار دیتے تھے جن سے میں نے انڈین بارڈر کے پار کئی سبوتاژ آپریشن کروائے۔ لیکن رضاکار دینے کے بعد ان کی کوئی نہ کوئی سفارش بھی ہوتی تھی کہ فلاں بندے کی دوکان ہمیں دے دی جائے یا ہمارے فلاں بندے کا خیال رکھا جائے۔

ایسے مقبول عوامی لیڈر بھی تھے مثلاً فضل القادر چوہدری یا مولانا فرید احمد وغیرہ۔ یہ لوگ ہمارے پاس آ کر کہتے تھے کہ فلاں بندے کو مار دو یا فلاں بندے کے ساتھ یہ کر دو۔

تصویر کے دونوں رخ یکساں سیاہ ہیں

ہماری بٹالین کا ہیڈ کوارٹر ڈھاکا میں تھا۔ اس کے علاوہ کچھ حصے کومیلا اور رنگا متی میں بھی تھے جہاں کا میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا۔ اس کے علاوہ مختلف نوعیت کے مشن ہوتے تھے۔ کہیں سرحد پار ایکشن کی پلاننگ کرنی ہوتی تھی تو کہیں پر کمانڈوز کی ضرورت ہوتی تھی۔ میرے اپنے ہاتھوں سے کسی بےگناہ کو تکلیف نہیں پہنچی لیکن میں جہاں جاتا، وہاں کسی نہ کسی سانحہ کی کہانی آپ کے لیے تیار کھڑی ہوتی۔ جیسے میں سنتہار پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کے آنے سے پہلے اس شہر کے ہر آدمی کو قتل کر دیا گیا ہے ۔ خیر اس طرح کی کہانیوں نے مجھ میں احساس جرم شدید کر دیا۔ میں کسی گاؤں وغیرہ جاتا تو وہاں کے انتہائی غریب لوگ فوج سے دب کر بیٹھے ہوتے ۔

جب میں شمالی بنگال پہنچا تو مجھے ٹھاکر گنج کے مختلف واقعات سنائے گئے۔ یہ ایسٹ پاکستان رائفلز کا علاقہ تھا۔ جب رات کو میرے لیے کھانا لایا گیا تو معلوم ہوا کہ اس گھر میں مغربی پاکستانی میجر محمد حسین رہتے تھے۔ میجر محمدحسین اور ان کے اہل خانہ کو بنگالی سپاہیوں نے مار دیا تھا۔ ان کے خاندان کی صرف ایک بچی زندہ بچ سکی تھی۔ اور میں اس بچی سے ڈھاکا میں ملا۔ وہ بچی بول نہیں سکتی تھی۔ جب مجھے یہ کہانی سنائی گئی تو مجھے جگہ جگہ اس واقعے کے آثار دکھائی دینے لگے۔ گھر میں کئی جگہ خون کے دھبے تھے۔ باتھ روم میں گیا تو وہاں کھڑکیوں میں گولیوں سے بچاؤ کے لیے تکیے ٹھنسے تھے۔ بچوں کی کتابیں، کھلونے اور جوتیاں ہر جگہ بکھری ہوئی تھیں۔ سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے احساس جرم بھی تھا کہ میں یہاں آیا کیوں ؟ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ جس وقت میں بطور ہیرو اپنی پرستش سے لطف اندوز ہو رہا تھا، اس وقت میرے آس پاس لوگ مارے جارہے تھے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی لگتا تھا کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔ میری توجہ محدود ہوکر بس سرحد پار ایکشن تک ہی رہ گئی تھی ۔ کسی قسم کے حملے یا جنرل نیازی کے منصوبوں کے بارے میں تو کبھی سوچا نہ تھا۔

 اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے؟

اب میں بٹالین سے فارغ ہوا تو میرے الوداعی ڈنر شروع ہو گئے۔ مجھے جنرل نیازی نے بھی گھر بلایا۔ اس دوران میں نے بہت زیادہ شراب پینا شروع کردی اور آہستہ آہستہ مجھ پر اجاگر ہونا شروع ہوا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟

اس دوران مجھے مغربی پاکستان سے ایک فوجی دوست کا خط ملا جس میں اس نے مشرقی پاکستان میں کسی بائیں بازو کی جماعت سے رابطہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اگلی صبح میری فلاًئیٹ تھی تو انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں ڈرنک کرنے کے بعد مجھے ایک پیغام موصول ہوا کہ فلاًں نمبر کمرے میں آپ کو کوئی ملنا چاہتا ہے۔ تو مجھے لگا کہ شاید یہ بائیں بازو کی جماعت کی طرف سے کوئی پیغام ہے ۔ مجھے اپنا دماغ حقیقت سے کٹا ہوا محسوس ہونا شروع ہوگیا ۔ اگلی صبح جہاز میں بھی میں اس کیفیت میں ڈوبتا ابھرتا رہا۔ میرے ذہن میں ایک ایسی کہانی نے جنم لینا شروع کیا جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں تھا ۔ مجھے یقین ہوگیا کہ میں عام انسانوں کا مسیحا ہوں ۔ ان کو ظلم سے نجات دلانے والا ہوں اور میرے خلاف کچھ لوگ سازش کر رہے ہیں۔ جب میں کراچی لینڈ کیا تو کچھ لمحوں کے لیے میں اس کیفیت سے نکل آیا اور میں نے اپنے آپ کو کہا کہ تم یہ کیا بکواس سوچ رہے تھے ۔ لیکن لاہور پہنچتے تک میں واپس اسی خیالی د نیا میں جا چکا تھا ۔ یہاں ایک اور بات کہنی ضروری ہے کہ میرے اس ذ ہنی کیفیت میں واپس جانے کی وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان میں کسی کو خبر تک نہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں کیا ظلم اور بربادی ہو رہی ہے۔ کراچی شہرویسے ہی رواں دواں تھا۔ لا ہور میں ہم جم خانہ جا کر ڈرنک کرتے تھے اور وہاں سلہری صاحب قائداعظم اور نظریہ پاکستان کے کسی باریک نکتے پر لیکچر دے رہے ہوتے ۔ پورا ملک اصل حقیقت سے بے خبر روزمرہ کے معمول پر چل رہا تھا ۔ یہاں مجھے ایک انکوئری پر بٹھا دیا گیا جس میں ڈیڑھ کروڑ کا گھٹیا صابن خریدے جانے کی تفتیش کرنی تھی ۔ اب آپ خود سوچیں کہ میں ایک جنگی کیفیت میں سے اٹھ کر ایک ایسی جگہ پر آ گیا ہوں جہاں پر لوگ اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہیں اور ان سے اگر مشرقی پاکستان کی بات کرو تو وہ کہتے ہیں کہ چھوڑیں جی کوئی اور بات کریں۔ اب میں نے اور زیادہ شراب پینا شروع کردی ۔

 فرزانہ وہی ٹھہرا جو پاگل ہو گیا

میں دن میں کم از کم ایک بوتل پی جاتا ۔ میں نے کھانا بھی چھوڑ دیا۔ اب میری حالت اور بدتر ہونا شروع ہو گئی اور میں آہستہ آہستہ دیوانگی کی حدود میں داخل ہوگیا ۔ مجھے لگتا تھا کہ میں ہی دنیا کا اہم ترین انسان ہوں جس نے پوری دنیا کو بچانا ہے ۔ میں اپنی خیالی دنیا ہی میں رہتا تھا۔ میری جو دفتری خط و کتابت ہوتی تھی اس میں مجھے خفیہ پیغام نظر آنا شروع ہو گئے ۔ مجھے لگتا تھا کہ ٹی وی اور ریڈیو مجھ سے مخاطب ہیں ۔ پوری دنیا مجھ سے مخاطب ہے ۔ تو اس طرح میں نے دو سال دنیا پر حکومت کرکے دیکھا۔ یہ میری بیوی اور بچوں کے لیے انتہا ئی تکلیف دہ وقت تھا ۔ لیکن کیونکہ میں فطرتا تشدد کو پسند نہیں کرتا تھا اس لیے میری یہ کیفیت لوگوں پر ظاہر نہ ہوئی ۔ بچوں کے ساتھ میں با لکل ٹھیک تھا اور پیار کرتا تھا لیکن آہستہ آہستہ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا گیا کیونکہ مجھے اپنے خیالی ساتھیوں سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا جب کہ میرے خیال میں آدھی دنیا میرے ساتھ تھی۔ میں اپنی ٹو ٹو رائفل لے کر روسی سفارتخا نے کے باہر چلاً گیا جہاں باہر بیٹھے ایک کوے کو میں نے فائر کرکے مار دیا ۔ یہ میرا خفیہ سگنل تھا کہ چلو باہر نکلو اور پیپلز ری پبلک کا اعلان کرو۔ لیکن انھوں نے بھی اس پاگل پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ بالآخر مجھے ہسپتال لے جایا گیا ۔ میں ہسپتال میں تقریبا چار مہینے رہا۔ اس طرح کے حالات میں آپ کا عہدہ واپس لے لیا جاتا ہے لیکن انہوں نے اس طرح نہیں کیا اور میں کرنل ہی رہا ۔ پھر جب ہوش آیا تو یاد آیا کہ میں نے کس طرح خیالی چیزوں کا تصور کرنا شروع کیا تھا۔ پھر مجھے وہ خط بھی یاد آیا جو مجھے ڈھاکا کے انٹر کا نٹی نینٹل میں مجھے ملا تھا۔ وہ کال اور مایا کا جو گھیرا تھا وہ مجھے نظر آنا شروع ہوگیا۔ ڈاکٹر کو میں نے کہانی سنائی تو اس نے کہا کہ میں نے کبھی ایسا مریض نہیں دیکھا جس کو کہانی کا پتہ بھی ہے اور پھر بھی وہ پاگل ہو گیا۔ میں نے کہا کہ مجھے وہ کہانی تو اب یاد آئی ہے ۔

 گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے

اس دوران میرے ساتھ ایک سانحہ یہ ہوا کہ میرے والد مجھے دیکھنے ہسپتال آئے تو میری حالت بہت خراب تھی۔ میں اپنی یاداشت کھو چکا تھا اور میرا منہ کھلا رہتا تھا ۔ مجھے دیکھ کر وہ گاؤں گئے۔ رات کو سونے لیٹے اور پھر کبھی نہ اٹھے ۔ مجھے ڈاکٹر نے کہا کہ تم اپنی ایک نئی سویلین زندگی شروع کرو ۔ فوج میں تو کوئی تمھیں ترقی نہیں دے گا۔ سو میں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس کے بعد بھی میں کافی عرصے تک دیوانگی کی سرحد کے آس پاس ہی رہتا تھا لیکن کچھ اچھے لوگوں کا ساتھ مل گیا جن کی وجہ سے میں بچا رہا۔ میں نے اپنے ذہنی انتشار کے بارے میں بہت سوچا اور مجھے یہی سمجھ آیا کہ یہ کسی احساس جرم کا نتیجہ تھا۔ اب میں پنجابی میں کہانیاں اور نظمیں لکھتا ہوں جن میں غیر شعوری طور پر بنگال کے تجربات اور واقعات کا ذکر ہوتا ہے ۔ واپس بنگلہ دیش جانے کا بھی سوچتا ہوں۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے ؟

(تحریر و تدوین: وجاہت مسعود)


پہلا حصہ
دوسرا حصہ
 تیسرا حصہ اور آخری حصہ

//www.humsub.com.pk/36173/nadir-ali/

اس سیریز کے دیگر حصےکرنل (ر) نادر علی کی 1971ء کے بارے میں یاد داشتیں (حصہ دوم)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments