ڈھاکہ میں دانشوروں کا قتل عام


1971 کا سال۔ نو اور دس دسمبر کی درمیانی شب تھی۔ ڈھاکہ چھاو¿نی کے ایک بلند و بالا دفتر کی خوشگوار حرارت میں تین پروقار چہرے \"wajahat1\"چند کاغذ سامنے رکھے گہرے غوروفکر میں مصروف تھے۔ ان میں لیفٹیننٹ جنرل عبداللہ نیازی کے کندھوں پر پورے مشرقی محاذ کی ذمہ داری تھی۔ میجر جنرل راو فرمان عملی طور پر صوبے کے انتظامی سربراہ سمجھے جاتے تھے۔ تیسرے افسر میجر جنرل جمشید ڈھاکہ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔ کمرے میں دبے پاو¿ں چائے کے برتن لانے والے عملے کا خیال تھا کہ صاحب لوگ جنگ کی گمبھیر صورتِ حال پر مغز پاشی کر رہے ہیں، مگر ان اصحاب کے پیش نظر تو کہیں زیادہ اہم امور تھے۔ اس اجلاس میں بنگالی دانشوروں کی اس فہرست پر غور ہو رہا تھا جنھیں جنگ کا منطقی نتیجہ سامنے آنے سے پہلے ختم کرنا ضروری تھا۔ محمد انور خالد کی ایک نظم کہتی ہے ”ہجرتی !گھر چھوڑنے کے بھی کوئی آداب ہوتے ہیں۔ “
دسمبر کا مہینہ سرد ہوتا ہے۔ 1971ءمیں یہ مہینہ معمول سے کچھ زیادہ ہی سرد تھا۔ مشرقی پاکستان میں نو مہینے سے خانہ جنگی جاری تھی۔ لاکھوں شہری مارے جا چکے تھے۔ ایک کروڑ مہاجر سرحد پار کر کے بھارت جا بیٹھے تھے۔ عورتوں، بچوں، کسانوں اور تاجروں میں سے جس کے پاس لٹانے کو جو تھا، لٹ چکا تھا۔ گاو¿ں جل چکے تھے۔ شہر اور قصبے ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔ 3 دسمبر سے پاکستان اور بھارت میں شروع ہونے والی کھلی جنگ اختتامی مرحلے میں تھی۔ مشرقی حصے کے عوام میں متحدہ پاکستان سے بدظنی اپنے نقطہ¿ عروج کو پہنچ چکی تھی۔ مغربی پاکستان جوشیلے ترانوں میں \"14tg-2\"مگن تھا۔ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ناکافی ہتھیاروں، نیم دِلانہ قیادت، ناقص منصوبہ بندی اور غضب آلود عوام سے چومکھی لڑائی لڑتے پاکستانی فوجی قدم بہ قدم پیچھے ہٹتے بالآخر ڈھاکہ تک محدود ہو چکے تھے۔ جنرل گند ھراﺅ سنگھ ناگرہ بوڑھی گنگا کے میر پور پل پر آن بیٹھا تھا۔ ایسے میں جنرلوں کو ڈھاکہ کے دفاع کی فکر ہونا چاہیے تھی، لیکن وہ اساتذہ، سائنسدانوں، صحافیوں اور فنکاروں کے قتل کی فکر میں تھے۔ اس کا جواب کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ ایوب خاں نے بھی تو رائٹرز گلڈ بنائی تھی جس کے طفیل شاعروں، ادیبوں کو سلہٹ کا سبزہ اور چٹاگانگ کی پہاڑیاں دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ ضیاءالحق بھی تو دانشوروں کو سیم اور تھور قرار دے کر ان پر پانی، ہوا اور چاندنی حرام کرنے کی وعید سنایا کرتے تھے۔ فوج جب کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے تو اس کا مقصد عوام کے امکان کو بیدار کر کے ترقی کی راہیں کھولنا نہیں ہوتا۔ ہر فوجی حکمران کا خواب ایک ایسی چراگاہ ہے جہاں عوام کے نام پر بہت سی بھیڑ بکریاں اس کے دماغِ عالی پر اترنے والی ہر پھلجھڑی کو حکمِ خداوندی سمجھیں۔ دانشور وہ آوازہ ¿ انکار ہے جو آمر کا خواب کرکرا کر دیتا ہے۔ آمر بڑی عرق ریزی سے ایک آئین گھڑتا ہے؛ ادھر حبیب جالب پکار اٹھتا ہے: ”ایسے دستور کو©©‘ صبح بے نور کو میں نہیں مانتا“۔ حکمران صدارتی نظام کے حق میں قائد اعظم کی ڈائریاں دریافت کرتا ہے تو ڈاکٹر مبارک علی قلم گھسیٹتا ہے کہ قائد اعظم نے تو کبھی ڈائری \"general-niazi\"لکھی ہی نہیں تھی۔ حکمران وسیع تر قومی مفاد میں ’نظریہ¿ پاکستان‘ ایجاد کرتا ہے تو ڈاکٹر مہدی حسن اپنی پاٹ دار آواز میں قائداعظم کی 11 اگست 1947ءوالی تقریر دہرانے لگتا ہے۔ دانشور کو اس کے علم کا کیڑا، تحقیق کی عادت اور بصیرت کا تقاضا کاٹتا رہتا ہے۔ اس کی دلیل بازی کی علت سے فوجی حکمران کی جان ضیق میں آ جاتی ہے۔ ہر عہد میں الطاف گوہر، نوابزادہ شیر علی خاں اور ڈاکٹر شیرا فگن جیسے محبِ وطن جابر سلطان کو سمجھاتے رہتے ہیں کہ اگر مٹھی بھر دانشوروں کا ٹینٹوا دبا دیا جائے، صحافیوں کو گرمی میں میانوالی اور سردی میں مظفرآباد کی سیر کرائی جائے، شاعروں کی شراب بند کر دی جائے، یونیورسٹیوں کو حوالداروں کے حوالے کر دیا جائے تو عوام بہتر طور پرحکومت کی خوبیوں سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ منعم خاں اورملک امیر محمد خاں جیسے شہریاروں کا نسخہ یہ ہوتا ہے کہ حالات درست کرنے کی بجائے حالات کی خرابی کی نشاندہی کرنے والوں کا منہ بند کر دیا جائے۔ ان خیر اندیشوں کی تقریرِ پ±ر تاثیر میں ایسی لذت ہوتی ہے کہ رفتہ رفتہ خود حکمران کو بھی یقین ہونے لگتا ہے کہ دانشور ملک دشمن، بد اندیش نیز خونی پیچش میں مبتلا کسی گروہ کا نام ہے جس کی بیخ کنی ہی میں قوم کی فلاح ہے۔
متحدہ پاکستان میں اردو، اسلام اور بھارت دشمنی کی تین پہیوں والی سائیکل چلانے والے یہی سمجھتے رہے کہ مشرقی پاکستان کی بے گانگی کا اصل سبب معاشی ناہمواری اور سیاسی استحصال نہیں بلکہ وہاں کا دانشور طبقہ بالخصوص ہندو اساتذہ ہیں جو عوام میں الٹی سیدھی \"Genباتیں پھیلاتے ہیں۔ ربع صدی کی سیاسی کشمکش کے بعد جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی نوشتہ ¿ دیوار نظر آنے لگی تو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران نے خالص جاگیردارانہ انداز میں ’دشمنی‘ کو آخری دم تک نبھانے کا فیصلہ کیا۔ 25 مارچ 1971ءکی قیامت خیز رات کے مقتولوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے متعدد اساتذہ بھی شامل تھے۔ عوامی لیگ کی منتخب قیادت کے بھارت جانے کے بعد منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی فوجی قیادت کے بہت قریب آ گئی۔ مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی انتظامیہ نے جماعت اسلامی کو اپنا مسلح بازو تشکیل دینے کی ترغیب دی۔ ابتدائی طور پر تو اسے ’البدر‘ کا نام دیا گیا۔ صدیق سالک ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا “ میں لکھتے ہیں کہ بعد ازاں اسی تنظیم کو ’الشمس‘ بھی کہا جانے لگا تا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی وسیع مخالفت کا تاثر پیدا کیا جا سکے۔ جماعت اسلامی کے رضاکار مکتی باہنی جیسی تربیت یافتہ تنظیم کا کیا مقابلہ کرتے البتہ انہیں غیر مسلح دانشوروں پر دل کے ارمان نکالنے کا اچھا موقع ہاتھ آیا۔
سیکولر دانشوروں کے خلاف مہم کا ہولناک ترین واقعہ پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے سے صرف دو روز قبل 14 دسمبر1971کو پیش آیا۔ البدر کے ارکان نے ایک باقاعدہ فہرست کے مطابق آدھی رات کو ڈھاکہ کے دو درجن سے زیادہ چیدہ چیدہ دانشوروں کو اغوا کیا۔ ان میں سے بیشتر افراد علمی اور ادبی حلقوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ انھیں مختلف مقامات پر رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ریئر بازار اور میرپور نامی دو مقامات پر بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 17 دسمبر کو ان کی مسخ شدہ لاشیں کچے بند کے قریب پایاب پانی سے برآمد ہوئیں۔ ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ پشت پر بندھے تھے اور سر میں گولی کا نشان تھا۔ ممتاز ماہرِ امراض چشم ڈاکٹر فضل ربی کی آنکھیں نکالی جا چکی تھیں۔ شہیداللہ قیصر ادیب تھے، ان کے ہاتھ قلم کیے جا چکے تھے۔ \"9780195474411\"
اس موقع پر جنگ کا حتمی نتیجہ سامنے آ چکا تھا، متحدہ پاکستان کی حمایت یا مخالفت بے معنی ہو چکی تھیں۔ اس مرحلے پر سیاسی مخالفین کو قتل کرنے سے کوئی سیاسی یا جنگی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ حمود الرحمن کمیشن کے سامنے لیفٹیننٹ جنرل عبداللہ نیازی، میجر جنرل راو فرمان اور میجر جنرل جمشید نے اس نوعیت کی فہرست سازی کا اقرار ضرور کیا مگر فوج کے اس کارروائی میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔ اس موقف کی شواہد سے تصدیق ممکن تھی مگر جنگ کے بعد جنرل فرمان کی میز سے ایک ڈائری برآمد ہوئی جس میں خود جنرل فرمان کے ہاتھ سے ایک فہرست درج تھی۔ ان ناموں میں سے چودہ افراد 14 دسمبر کی رات مارے گئے۔ الطاف گوہر نے راو فرمان کو اپنے دوست ثناءالحق کی جان بخشی کی سفارش کی تھی۔ راو فرمان کی فہرست میں ثناءالحق زندہ بچ جانے والے واحد خوش نصیب تھے۔ ہفت روزہ ٹائم نے19 دسمبر 1971ءکی اشاعت میں پہلی بار اس واقعے سے پردہ اٹھایا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن نے 1973 میں تمام بنگالی نژاد جنگی مجرموں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا تھا۔ اب بیالیس برس بعد ان جرائم کے ملزمان کو سزائیں دینے کے سیاسی محرکات اور قانونی پہلو یقینا محل نظر ہیں لیکن انسانی ہمدردی اور ضمیر کا تقاضا تو یہی ہے کہ معاملے کو پورے تاریخی تناظر میں دیکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments