پچاس شاعروں میں جسم کا شاعر، تصنیف حیدر


\"\"

شاعری عجیب معاملہ ہے۔ ادیبوں کو اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ بھئی فلاں صاحب نے صرف ایک شعر ایسا کہا جو مشہور ہوا اور اس کے بل پر وہ پوری زندگی کے مشاعرے نکال گئے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد وہی شعر ان کو بہت عرصہ زندہ رکھتا ہے۔ روزمرہ بات چیت میں محاورے کی شکل اختیار کر جائے یا مثال کی صورت بولا جانے لگے پھر تو موجیں ہی الگ ہیں۔ شاعر یا شاعری میں اگر ذرا سا دم ہے تو وہ مشاعروں کے چکر میں پوری دنیا گھوم لے گا، میڈیا پر بھی چھایا نظر آئے گا اور کچھ نہ کچھ مالی فائدہ بھی ضرور ہو گا۔ یہ سب درست ہے، ایسے ہی ہوتا ہے لیکن ایک اور بات پر غور کیجیے۔

شاعروں کی اس درجہ کثرت ہے کہ بہت سے جینوئن شاعر بھی اس بوجھ تلے یونہی دب جاتے ہیں۔ فقیر جیسا کوئی بھی لاپرواہ انسان جب یہ سنتا ہے کہ فلاں صاحب شاعر ہیں تو ویسے ہی دم دبا کر بھاگنے کی کرتا ہے، اور اس کی وجہ بہ خدا شاعر کی بے توقیری نہیں صرف وہ تجربے ہیں جو آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ پھر اس قدر شاعری اخباروں میں، رسالوں میں، کتابوں کی صورت، گانوں میں، فیس بک پر اور پتہ نہیں کہاں کہاں دکھائی دیتی ہے کہ آدمی سب کچھ ایک سائیڈ پر رکھ کر سوچنے لگتا ہے کہ یار، واقعی میں شاعر زیادہ ہو گئے ہیں یا اپنی بدذوقی کا قصور ہے؟

جواب ملتا ہے کہ میاں آج کی بات نہیں صدیوں سے یہی طریقہ چلا رہا ہے۔ اینٹ اٹھاؤ شاعر ملے گا لیکن کس اینٹ کے نیچے واقعی اچھا شاعر ہو یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہے۔ اس نیک کام کے لیے یا تو آپ ہر قسم کی شاعری پڑھنے کے شوقین ہوں، یا آپ کی کچھ ایسی مجبوری ہو کہ تمام معاصر ادب (اپنے دور کا، اپنے آس پاس کا ادب) پر آپ کو نظر رکھنی پڑے تو ہی بات بنے گی ورنہ آپ اپنی دنیا میں، شاعر اپنی دنیا میں۔

اب اس پورے چکر میں نقصان اچھے شاعروں کا ہوتا ہے۔ لوگ باقیوں کی طرح انہیں بھی اگنور کر دیتے ہیں کہ بھئی کون اتنی محنت کرے، ان کی شاعری پڑھے اور بیچ میں سے نکلے بھی کچھ نہ، وہی ہجر و فراق کے قصے ہوں، معشوق اب تک مذکر چلا آ رہا ہو، ایک آدھی چپت شیخ جی کو لگا دی اور ٹھنڈے ٹھنڈے غزل پوری کر دی، کہنے والے کا کچھ نہیں گیا پڑھنے والا بے چارہ ایک بار تو باقاعدہ کوفت کا شکار ہو جائے گا پھر اپنے فیصلے پر خود کو لعنت ملامت بھی کرے گا۔ فرض کیجیے کسی ملک میں میں پانچ لاکھ شاعر ہوں تو ان میں سے پانچ ہزار وہ ہوں گے جو ایک دوسرے کی واہ واہ پر چلتے ہوں گے، ایک ہزار وہ ہوں گے جو کچھ اچھا خیال دے جاتے ہیں، پانچ سو وہ کہ جنہیں سنجیدہ ادب سے دل چسپی رکھنے والے جانتے ضرور ہوں گے، سو اچھے شاعر ہوں گے اور زیادہ سے زیادہ، بہت ہی زیادہ کہہ لیجیے تو پچاس وہ ہوں گے کہ جن کا ہر شعر ایسے ٹھکا ہوا نکلتا ہو گا جیسے کوئی ماہر جوہری انگوٹھی میں نگینہ بٹھاتا ہے۔

اب یہ جو پچاس ہیں، یہ بے چارے ان پانچ لاکھ میں سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ کتنی بار لکھ کر کاٹا ہو گا، کتنی بار آنکھیں تیل کی ہوں گی، کتنی مرتبہ گھر والوں کے سامنے بیٹھ کر بھی شعر کہنے کی فکر میں رہے ہوں گے، کتنی دفعہ بیچ عبادت کے شعر نازل ہوا ہو گا، کبھی دفتر جاتے ہوئے رک کر کچھ لکھا ہو گا، قافیوں کے چکر میں پوری پوری رات اٹکے ہوں گے، وزن بٹھانے کے لیے کہاں کہاں بیٹھے ہوں گے، کسی کو استاد کیا ہو گا، نہیں بھی کیا ہو گا تو جوتیاں ضرور سیدھی کی ہوں گی سینیرز کی، عشق بن یہ ادب نہیں آتا۔ تو جب اتنا سب کچھ کر کے یہ پچاس لوگ قومی منظر پر نمودار ہو گئے اور پڑھے بھی جانے لگے، پھر وہ مرحلہ آئے گا جو بیرون ملک سفر کا ہو گا، کوئی ایک یا بہتر نشتر دریافت کیے جائیں گے، ٹی وی پر بلایا جائے گا، انٹرویو ہوں گے، مالی منفعت بھی شاید ہو جائے۔

\"\"

لیکن تمام عمر شاعری کرتے رہے، کتنا ہی رد کیا، بالکل ٹھوک پیٹ کر بہترین کلام سامنے لائے اور اس میں سے دو شعر مشہور ہوئے، صرف دو شعر، یہ تو گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا؟ باقی شاعری کسی بھی ترازو میں تلنے سے رہ گئی، تمام عمر کی محنت کا صلہ دو شعر، یعنی عوام نے بس دو شعر اس قابل سمجھے جو یاد رکھے جائیں اور باقی ساری زندگی کا بیڑہ غرق جو ہوا وہ کسی کام نہ آیا۔ سمجھ لیجیے ان پچاس شعرا میں سے پانچ شاید ایسے ہوں گے جن کے پورے پورے دیوان بھی اسی ذوق و شوق سے پڑھے جائیں گے۔ جو رہ گئے وہ گئے۔

ہر دور کے پانچ لاکھ میں سے پانچ بچنے کا حساب لگائیں تو ادیب زیادہ فائدے میں نظر آئیں گے۔ لیکن خیر یہ بس کہنے کی باتیں ہیں، غالب، اقبال، جوش، راشد، جون، مجید امجد کے ساتھ ساتھ میر امن، سرسید، ڈپٹی نذیر، سجاد حیدر، پریم چند، حیات اللہ، کرشن چندر، قرہ العین، شوکت صدیقی، شہاب صاحب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ سب کے سب اتوار کے دن انارکلی میں فٹ پاتھ پر اکٹھے لائن حاضر ہوتے ہیں۔ مول لگائیں، کتاب گھر لائیں، مریں گے تو خود بہ خود واپس کسی فٹ پاتھ پر پہنچ جائے گی۔ بقول آصفہ نشاط،

کیا ضروری ہے شاعری کی جائے
دل جلا کر ہی روشنی کی جائے

ایک جینوئن شاعر کوئی دو تین برس پہلے ٹکرا گیا۔ ہوا یوں کہ تصنیف حیدر کبھی سمجھ نہیں آتا تھا، کبھی ہضم نہیں ہوتا تھا۔ کیا لڑکا ہے کہے چلا جا رہا ہے، الٹی سیدھی سبھی ہانک دیتا ہے، ٹھکے ہوئے شعر بھی ہیں، انگریزی لفظ بھی شاعری میں ڈال دیتا ہے، ظفر اقبالیاں بھی کرتا ہے، اس قدر گرم شعر بھی کہہ دیتا ہے کہ کان تو کان ایمان جلنے لگے اور ایسے ٹھنڈے شانت شعر بھی ہوتے ہیں کہ لگے جیسے ستو پی کی کر کہے ہوں۔ پھر کسی کو خاطر میں نہیں لاتا، کبھی دین والوں سے الجھتا ہے، کبھی دنیا سے اور حد تو حد پروفیسروں تک کو جھپٹ لیتا ہے۔ ایک لمحے کا سکون نہیں ہے، بوٹی بوٹی پھڑکتی ہے، کبھی کتابیں آن لائن ہو رہی ہیں، پھر چلتی نوکری کو لات مار کر رسالہ نکال رہا ہے، پھر افسانے آڈیو ریکارڈ کر رہا ہے، کبھی دس سوال کھٹ سے کسی ادیب کے آگے دھرے ہوئے ہیں، کبھی خود کچھ لکھ بھی رہا ہے، یا خدا، کون ہے؟ چکر کیا ہے؟ ٹک کر کوئی ایک کام کیوں نہیں کرتا؟ پچھلے دنوں تو حد ہی کر دی، بیٹھے بٹھائے ایروٹیکا لکھ ماری سات آٹھ قسطوں میں، اب شریف آدمی لاحول ہی پڑھے گا چاہے پڑھا اس نے بھی ہو۔ دراصل وہ کہانی تصنیف کو پہچاننے میں مددگار ثابت ہوئی۔

یہ پارسائی کا، نیکی کا، کسی مقدس لبادے کا، کسی اچھے سے نورانی ماسک چڑھانے کا دعوی نہیں کرتا۔ مانتا ہے کہ بھئی جسم میں ہو کر پایا جاتا ہوں، جو ہوں وہی کروں گا۔ نہ مجھے روحانی عشق سمجھ آتے ہیں نہ پاک باز قلبی وارداتیں کچھ دماغ کے قریب لگتی ہیں۔ میں تو میرا جی کا بالا ہوں، موج ہو گی تو لب جوئبارے بھی ہو جائے گی، دل کہے گا تو ایروٹیکا لکھ دوں گا، لیکن جو بھی لکھوں گا وہی ہو گا جو میرا سچ ہو گا۔ اب اس سچ کے چکر میں تم لوگ کلبلاتے رہو، گالیاں دو، کروٹیں بدلو، پیٹھ پیچھے دانتوں میں انگلیاں داب کر کہتے پھرو کہ ہائے ہائے ٹانگ برابر کل کا لڑکا کیسی بے حیائی کرتا ہے، بات اتنی ہے کہ میرا سچ یہی ہے! میں جو ہوں وہی میری شاعری میں بھی نظر آئے گا، وہی میری نثر ہو گی، وہی میرا کالم ہو گا۔ جس دن مجھ سے یہ طاقت چھین لی گئی یا تو میں لکھنا چھوڑ دوں گا، یا خود کشی کر لوں گا۔

تصنیف پر لکھنے کے چکر میں اتنا بڑا لیکچر اس لیے دیا کہ وقت فیصلہ کرے گا، وہی طے کرے گا کہ تصنیف پانچ سو میں رہے گا یا پانچ میں، اس کے دو شعر یاد رکھے جائیں گے یا پوری کتاب پڑھی جائے گی، لیکن ایک بات طے ہے، تصنیف کی جتنی شاعری اب تک دکھائی دی اس میں کم از کم بیس بائیس ایسے شعر موجود ہیں جو ہر طرح کے رنگوں میں ہیں، ضروری نہیں سب ہی کو پسند آئیں لیکن ایک بار تو سیدھے پاؤں کی ایڑھی گھما کر دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

۔ ۔ ۔ \"\"
میں اپنی دھوپ میں زندہ تو اپنے سائے میں
اس اختلاف سے باقی وجود ہمارا ہے
۔ ۔ ۔
دن کو دفتر سے گلہ رات کو بستر سے گلہ
میں تو اس طرح جوانی میں رہ نہیں سکتا
۔ ۔ ۔
یہ سب سیاہ دلاں کس طرف سے آئے ہیں
عذاب کون سا اترا ہے ان کے سینوں پر
۔ ۔ ۔
تنہائی سے آخر تنگ آ کر اک قصہ آدم زاد کہا
بیزار ہوئے تو حرف کن ہم نے بھی خدا کے بعد کہا
۔ ۔ ۔
دل و نظر پہ بھی کچھ ناخنی لکیریں ہوں
بلا کا عشق ہے گردن ہی مارنے میں نہ جائے
۔ ۔ ۔
خدا کا رنگ نہ بھورا نہ آسمانی ہے
اسے بھی راس وہی سیر لامکانی ہے
۔ ۔ ۔
یہ بھیڑ کس نے اکٹھی کری ہے منظر میں
پولس بلاؤ کہ دو چار لاٹھیاں ٹوٹیں
۔ ۔ ۔
مرے خیال کا اک رام انگلیاں پھیرے
ترے بدن کی گلہری سے املیاں ٹوٹیں
۔ ۔ ۔
ان آنکھوں سے نوچ کے تجھ کو ہم نے زمیں پر پھینک دیا
تب جا کر اللہ میاں نے تیرے جلوے عام کیے
۔ ۔ ۔
مانا جسم کمینہ ہے اور روح بڑی حرافہ ہے
لیکن اس میں تیرا ہونا خاطر خواہ اضافہ ہے
۔ ۔ ۔
اس کی آنکھوں میں دیکھنا جیسے
ایٹمی جنگ ہے سنامی ہے
۔ ۔ ۔
یہ سارے شہر ہمارے تمہارے جیسے ہیں
نہ کچھ نجف ہی مرا ہے نہ کچھ حلب تیرا
۔ ۔ ۔
جب اس نے شرط رکھا دن وصال کی خاطر
تو مجھ کو ہو گئی نفرت تمام راتوں سے
۔ ۔ ۔
وہ شخص اللہ قسم خوبرو بہت ہے مگر
کبھی نہ دیکھنا اس سرپھرے کو کھاتے ہوئے
۔ ۔ ۔
وہ میرے سیدھے بدن پر پڑی رہے اوندھی
بلا سے اس کا بدن سانڈ جیسا بھاری ہو
۔ ۔ ۔
جو تو نہیں ہے تو پھر موت ہی چلی آئے
مگر سلیقے سے یک گونہ مہربانی سے
۔ ۔ ۔
اللہ میاں کا شکر مناؤ جس نے ہم کو دنیا دی
اور دنیا نے ٹیبل بخشی، ٹیبل پر اخبار دیا
۔ ۔ ۔
دو ہی چیزیں زندگی بھر مجھ کو راس آئی نہیں
مسئلہ گیہوں میں تھا یا مسئلہ تھا سیب میں
۔ ۔ ۔
اللہ خون دیکھ کے بے حد اداس ہے
میں اس شہید شوق کو سمجھاؤں کس طرح
۔ ۔ ۔
کبھی کبھی تو ترے ہجر ہی سے تنگ آ کر
میں ضائع کرتا ہوں بستر پہ یہ جوانی تک
۔ ۔ ۔
ابھی پچاس سیکنڈ اور مجھ میں باقی تھے
مگر اجل کے فرشتے ذرا مراقی تھے
۔ ۔ ۔
روز اپنے ہاتھوں سے درج کرتے رہتے ہیں
موت کے رجسٹر میں غیر حاضری اپنی
۔ ۔ ۔

کچھ معاملات اور بھی تھے لیکن وہ پڑھنے والوں کو خود تلاش کرنا ہوں گے۔

 

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments